Imran Khan Ka Plan C
عمران خان کا پلان سی
عمران خان کا پلان سی آخر کیا ہے جس نے ان کے سیاسی مخالفین کو پریشان کر رکھا ہے 8 فروری کی شام کو الیکشن ریزلٹ کے نتائج کا اعلان ہوگا۔ یہ ریزلٹ تین طرح کے ہوسکتے ہیں۔ اگر الیکشن میں بلکل دھاندلی نہ ہو۔ تو تحریک انصاف 266 میں سے آسانی سے محتاط اندازے کے مطابق 180 سے زیادہ سیٹ جیت سکتی ہے۔ دوسرا اگر دھاندلی کی کوشش ہو اور کچھ حد تک الیکشن کنٹرول کرلیا جائے تو اس صورت میں تحریک انصاف 130 سے 140 تک سیٹس لے گی اور آخری آپشن جو باہر بہت ہی ناممکن لگتا ہے مگر اگر بہت ہی بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوگئی اور ایسا کیا جاسکتا ہے دو طریقوں سے ایک تحریک انصاف کے ووٹرز کو ڈرا کر اور دوسرا ان کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرکے اور تیسرے الیکشن سسٹم کو مینج کرکے یعنی ووٹنگ نتائج کو بدل کرلیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا۔ کیا دھاندلی کے نتائج تسلیم ہونگے یا عمران خان بالفرض اکثریت لے جاتاہے تو پھر کیا ہوگا
الیکشن کے بعد طاقتور دو کام کرسکتے ہیں، ایک تو تحریک انصاف کے وہ لوگ جو عمران خان کے وفادار ہیں ان پر 9 مئی کے کیسز ملٹری کورٹس میں چل رہے ہیں تو ان کے جیتنے کی صورت میں ان کے خلاف ملٹری کورٹس سے فیصلے آسکتے ہیں جس کا فیاض الحسن چوہان بھی بتا چکے ہیں اور دوسرے لوگ جو آزاد جیتیں گے جن کو لالچ اور خود کے ذریعے استحکام پاکستان اور کچھ کو پیپلز پارٹی میں شامل کروایا جاسکتا ہے اور تیسرے ان کا ایک علیحدہ گروپ بنایا جاسکتا ہے جس طرح کا گروپ عمران خان کی پرانی حکومت نے راجہ ریاض کا بنایا تھا۔
دوسرا دھاندلی والے آپشن کے بعد کیا ہوگا۔ کیا عوام کی طرف سے ردعمل آئے گا۔ کیا عمران خان کے احتجاج کی کال دیں گے، تو اس کا توڑ یہ کیا جائے گا کہ الیکشن دن پر سوشل میڈیا کو مکمل بلاک کردیا جائے گا۔ ایک دن تک کال سروسز بند رکھی جائے گی اور رات جب گزر جائے گی تو عوامی پارہ اور مومینٹم دونوں کم ہوچکے ہونگے اس کے بعد کھیل یہ ہوگا کہ نوازشریف اور بلاول کسی ایک میں فیصلہ کیا جائے گا وزیراعظم بنانے کا۔
مگر یہاں پر یہ بھی ایک آپشن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پنجاب میں ن لیگ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان خیبر پختون خواہ میں مخلوط حکومت بنادی جائے اور وفاق میں کوئی تیسری شخصیت کو استحکام پاکستان پارٹی اور تحریک انصاف آزاد امیدوار جو تب تک اسٹبلشمنٹ کی چھتری تلے آجائیں گے ایک تیسری شخصیت کو وزیراعظم بنا دیا جائے اور عوام کو یہ باور کروایا جائے کہ دیکھیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں اپنا وزیر اعظم نہیں لاسکے تو اس کا مطلب دھاندلی نہیں ہوئی۔
عوام کا مومینٹم اور ردعمل کنٹرول ہوگیا وقتہ طور پر تو اس کے بعد یہ حکومت جو طاقتوروں کی مرضی سے بنے گی۔ زیادہ دیر نہیں نکال پائی گی کیونکہ اس کے بعد کافی سخت معاشی فیصلے کرنا ہونگے جس سے عوامی ناپسندیدگی کا سامنا ہوگا۔ طاقت اور کنٹرول سے حکومت چلائی تو جاسکتی ہے مگر کامیاب نہیں بنائی جاسکتی اب عمران خان کے پلان سی کیا ہوگا۔
الیکشن کے نتائج کے فورا بعد عمران خان نتائج ماننے سے انکار کردے ملک گیر احتجاج کی کال دے دے مگر پنجاب میں یہ احتجاج موثر نہیں ہوسکے گا۔ سندھ میں بھی نہیں خیبر پختونخواہ میں بہت طاقتور طریقے سے احتجاج ہوگا جسے بڑے لیڈروں کی گرفتاری کے ذریعے کنٹرول کیا جائے گا۔
اس کے علاؤہ عمران خان کو اگر سسٹم کے اندر کوئی سپورٹ مل جائے تو پھر ہوسکتا ہے ان کا پلان سی کامیاب ہو جائے مگر سسٹم کے اندر ان کو تب تک اب سپورٹ نہیں مل سکتی جب تک یہ بات یقینی نہ ہو کہ عوام کا مومینٹم اتنا زیادہ ہے جسے سسٹم مینج نہیں کرسکتا اور اس کے نتیجے میں کچھ لوگ خطرناک رسک لینے پر مجبور ہو جائے۔ مگر یہ آپشن بہت خطرناک اور اس کے ہونے کہ کم امکانات ہیں۔