Hairan Kun Tajurba
حیران کن تجربہ
دنیا میں یہ کام پہلی دفعہ ہونے جارہا تھا اور یہ کام کر رہا تھا امریکہ کا ایک نامور سائنسدان جس کا نام تھا ڈاکٹر چارلس گوتھری۔ اس وقت وہ اپنی لیب میں موجود تھا اور اس کے سامنے دو میز پڑے تھے۔ ان دو میزوں پر اس نے دو جانور بے ہوش کیے تھے یہ جانور جو کہ ایک خاص نسل کے کتے تھے ان کا ایک خطرناک تجربہ کیا جانا تھا۔ یہ تجربہ اگر کامیاب ہوجاتا تو اس کا مطلب تھا پودی دنیا مکمل بدل جاتی۔
وہ اور اس کا ساتھی آگے بڑھے اور ایک کتا کے سر کو احتیاط سے کاٹنے لگے اس کے لیے وہ انتہائی تیز بلیڈ استعمال کر رہے تھے ذرا سی بے احتیاطی پورے تجربے کو ناکام بنا سکتی تھی احتیاط سے ایک کتے کا سر اس کے باقی جسم سے الگ کر دیا گیا اور اب دوسرے کتے کا بھی سر اتار دیا گیا۔ اب اگلا مرحلہ تھا ایک کتے کے سر کو دوسرے کے جسم سے جوڑنا۔ کئی گھنٹوں بعد یہ کام بھی کر لیا گیا۔ ڈاکٹرز آپریشن کے بعد انتظار کرنے لگے۔ تقریبا ایک ہفتے بعد کتے کے جسم میں حرکت ہوئی۔ وہ ایک ایسا کتا تھا جس میں جسم ایک کتے اور سر دوسرے کتے کا تھا۔ وہ کتا کچھ ہوش میں آیا اور اس نے آنکھیں کھولی سر ہلایا۔
ڈاکٹرز کی آنکھیں چمکنے لگی، مگر اچانک وہ کتا کانپنے لگے اور کچھ ہی دیر میں مر گیا۔ ڈاکٹرز کا تجربہ ناکام ہوگیا مگر امید ابھی زندہ تھی یہ امید تھی ایک انسان کے سر کو دوسرے انسان کے جسم کے ساتھ جوڑنا۔ اس سے یہ ہونا تھا کہ مرتے انسان کے سر کو اگر کسی دوسرے صحت مند جسم سے جوڑ دیا جاتا تو وہ شخص زندہ رہتا اسکی یاداشت اس کا ساری سوچ زندہ رہتی۔ اس لیے ڈاکٹر پہلے تجربہ جانوروں پر کررہے تھے تاکہ اگر یہ آپریشن کامیاب ہوتا تو پھر یہ آپریشن انسانوں میں بھی کیا جانا تھا۔
اب ایک بار پھر کوشش کی گئی اور یہ کوشش ہوئی سن 1950 میں جب ایک ایک سویت سے تعلق رکھنے والے سرجن اور سائنسدان ڈاکٹر ولادی میر ڈمی خوو نے ایک بار پھر ایک کتے کے سر کو دوسرے کتے کے جسم سے جوڑے اس نے احتیاط سے خون کی نالیاں ایک جسم کی دوسرے کے سر سے جوڑ دی۔ اس دفعہ یہ تجربہ کافی حد تک کامیاب رہے۔ آپریشن کے بعد کتا حرکت کرنے کے قابل تھا۔
کیا اب انسانوں پر یہ تجربہ ہوسکتا تھا۔ کیا اب ایک انسان کے سر کو دوسرے انسان کے سر سے جوڑا جاسکتا تھا۔ یہ تجربہ اتنا کامیاب نہیں تھا کہ اس طرح کا تجربہ ابھی انسانوں پر کیا جاسکتا مگر امید ابھی باقی تھی سر جوڑنے میں سب سے پہلی مشکل تھی کہ جب ایک سر کو جسم سے علیحدہ کیا جاتا تو خون کی سپلائی دماغ میں رک جانے سے اس کے کافی حصے تباہ ہوجاتے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ دماغ کا درجہ حرارت انتہائی کم کر دیا جائے تاکہ خون کی سپلائی منقطع ہونے کی صورت میں بھی دماغ زندہ رہے۔
دوسرے مسئلہ تھا سپائنل کوڑد کو جوڑنا اور تیسرا بڑا مسئلہ تھا کہ جب ایک سرکو دوسرے جسم پر لگایا جاتا تو دماغ کے لیے دوسرے جسم کو قبول کرنا کافی مشکل ہوتا جس کی وجہ سے قوت مدافعت کا نظام خود پر ہی حملہ کردیتا۔ اب ایک بار پھر تجربہ کیا گیا۔ اس دفعہ یہ تجربہ کیا گیا دو بندروں پر۔ لیب میں امریکی نیوروسرجن سے ایک بندر کو سر کو دوسرے بندر کے سر سے جوڑ دیا یہ تجربہ بھی کچھ کامیاب رہا۔ آپریشن کے بعد گدھا چہرے کے پٹھے ہلانے آنکھیں کھولنے اور زندہ رہنے کے قابل تھے مگر یہ گدھے بھی مر گیا۔
1970 میں کیونکہ ٹیکنالوجی اتنی جدید نہیں تھی کہ پیچیدہ سپائنل کوڑد کو جوڑا جاسکتا۔ مگر اب کہ بار ایک اور انوکھی چیز ہونے جا رہی تھی اور یہ انوکھی چیز تھا بالکل ایسا ہی تجربہ جو جانوروں پر کیا جارہا تھا اس کو اب انسانوں پر کیا جانا تھا اور یہ کام کررہا تھا ایک ماہر سرجن ڈاکٹر سرجیو کیناویرو جس طرح سے بال ٹرانسپلانٹ ہوسکتے ہیں۔ دل جگر اور گردے ایک انسانی جسم سے دوسرے انسانی جسم میں لگائے جاسکتے ہیں آنکھیں لگائی جاسکتی ہیں تو کیا سر بھی ٹرانسپلانٹ ہوجانا تھا۔ اگر ایسا ہوجاتا تو دنیا میں ایک بہت بڑا انقلاب آنے والے تھا کیونکہ پھر بہت سے قیمتی انسانوں کو مرنے سے بچایا جاسکتا۔
تیس سالہ ویلیری سپرینڈیو کو ایک بیماری تھی اس بیماری سے اس کے مسلز آہستہ آہستہ ختم ہورہے تھے یہاں تک کہ وہ چلنے پھرنے اور حرکت کرنے سے بالکل معذور ہوگیا۔ اس کا سر اور دماغ صحیح حالت میں تھا۔ ڈاکٹر سرجیو کینا ویرو نے بڑا دعوی کردیا اس کے مطابق ویلیری سپرینڈیو کے سر کو کسی دوسرے انسان کے جسم سے جوڑنا تھا۔ ڈاکٹر سرجیو کے مطابق سر جوڑنے کے آپریشن میں پہلے سر کو ٹھندا کیا جانا تھا جس کے بعد اگر اس کی خون کی سپلائی منقطع ہوتی تو بھی دماغ کی موت نہ ہوتی۔ ایک آدمی اپنے جسم پر سر لگوانے کے لیے تیار بھی تھا۔
90 فیصد ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ یہ انتہائی خطرناک منصوبہ ہے کیونکہ اس انسانوں کی جان بھی جاسکتی اور وہ معذور بھی ہوسکتے تھے برین کو زندہ رکھنا اور سپائنل کوڑد کو جوڑنا انتہائی مشکل تھا۔ ڈاکٹر سرجیو نے یہ تجربہ نہیں کیا کیونکہ اس میں اخلاقی اور ٹیکنکل رکاوٹیں کافی زیادہ تھی۔ اس طرح کے کچھ تجربات چوہوں پر بھی کیے گئے مگر یہ تجربات کچھ حد تک ہی کامیاب ہوسکے ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور آرٹفییشل روبوٹ کے ذریعے سرجری سے یہ امکانات کافی حد تک موجود ہیں کہ مستقبل میں اب انسانی سر کی ٹرانسپلانٹیشن ممکن ہوسکے۔