Bare Qad Ka Admi
بڑے قد کا آدمی
وہ بوڑھا رورہا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اس نے میری طرف دیکھا اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے ہاتھوں میں ہلکی ہلکی لرزش تھی مجھے لگا وہ ابھی گر جائے گا۔ مگر اس کے چہرے اور پیشانی سے لگتا تھا کہ وہ بہت مضبوط آدمی ہے یہ بچے زمین پر کیوں بیٹھے ہیں اس نے ایک استاد سے سوال کیا۔
سر ہمارے پاس سکول کمرے پرانے ہیں ان کی حالت اس لائق نہیں کہ یہاں بچوں کے کو بٹھایا جاسکے اس لیے یہ باہر بیٹھے ہیں۔ استاد نے بوڑھے آدمی کو بتایا۔ میرے سکول میں بچے زمین پر نہیں بیٹھیں گے اس بوڑھے آدمی نے اپنے ڈرائیور کو آواز دی اور چند منٹ بعد وہ دونوں سخت گرمی میں ایک خالی جگہ پر نشان لگا رہے تھے۔ اور سب سے حیران کن منظر یہ تھا کہ وہ بوڑھا شخص جو سکول میں داخل ہوتے وقت بالکل کمزور دکھائی دیتا تھا اب کسی نوجوان سے بھی زیادہ مضبوط دکھائی دیتا تھا۔
سخت دھوپ اور گرمی سے ہم چھاؤں میں بیٹھے پریشان تھا مگر وہ بوڑھا بالکل پریشان نہیں تھا۔ چھٹی ہوئی اور جب اگلے دن ہم سکول پہنچے تو وہ بوڑھا شخص سکول میں ہم سے پہلے موجود تھا اور اس کے سامنے کچھ معمار اور مزدور سکول میں نئے کمروں کی عمارت بنارہے تھے اور پھر چند دن میں سکول میں عمارت کھڑی ہوگئی۔
بچے زمین کی بجائے اب سایہ داروں کمروں میں بیٹھنے لگے۔ وہ بوڑھا شخص جب عمارت بنوارہا تھا تب بھی میں دیکھا کہ وہ ہمیشہ ایک مزدور زیادہ لگاتا اور جب دیکھتا کہ کوئی مزدور تھک گیا ہے تو اس کی جگہ اضافی مزدور کو کام پر لگا دیتا۔ اس بوڑھے شخص نے ہسپتال بنائے۔ مزدور کے بیٹھنے کی جگہیں بنوائیں سیکنڑوں فلاحی کام کیے مگر میں نے دیکھا اس نے نہ اپنی تصاویر اتروائیں نہ آکر شاندار طریقے سے افتتاح کیے۔
مجھے اس کے وہ آنسو بڑی قیمتی لگے جو چند بچوں کے زمین پر بیٹھنے سے اس کی آنکھوں میں آئے۔ اب جب بھی گاؤں میں منفی کرداروں کی بات ہوتی ہے۔ لوگ فتہ گر ٹاؤٹوں کے نام لیتے ہیں تو میں یقین نہیں کرتا۔ میرے ذہن میں فورا وہ بوڑھا شخص آجاتا ہے جو کہتا ہے میرے بچے زمین پر نہیں بیٹھیں گے۔ آج سیکنڑوں بچے اس کی بنائی ہوئی عمارت کے نیچے پڑھتے ہیں آج سیکنڑوں مریض اس کے بنائے ہسپتال میں علاج کرواتا ہے۔
آج مزدور چھاؤں میں بیٹھتے ہیں تو مجھے وہ بڑے قد کا آدمی ڈی سی چودھدری فقیر حسین یاد آجاتا ہے۔ کاش ڈھولن گاؤں میں چودھدری فقیر حسین جیسے اور کیپٹن صفدر آرائیں جیسے چند کردار اور ہوتے تو آج ہم گاؤں میں لوگ برادری ازم کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت نہ کرتے۔ آج ہم اپنے ذاتی مفاد کے لیے اپنی نسل کا مستقبل داؤ پر نہ لگاتے۔