Akhri Mulaqat
آخری ملاقات
اس نے نظریں اٹھائیں۔ ڈبڈبائی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ اور لرزتی آواز میں ہولے سے کہا۔ تم یاد رکھو گے یا بھول جاؤ گے۔ کیوں یاد رکھنا ضروری ہے میں نے جذبات سے عاری منطقی لہجے میں پوچھا۔ نہیں مگر تم یاد رکھو گے۔ تم اس پیڑ اس پر بیٹھی چڑیا کو، جس دیوار کے سامنے میں کھڑی ہوں اس دیوار کا رنگ تک یاد رکھو گے۔
تم یاد رکھو گے اس لمحے میں پھیلی بے بسی اور میرے لاچارگی اور اداسی میں ڈوبی خاموش التجاؤں کو جس کو تم ابھی محسوس نہیں کر پارہے۔
میں نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے چہرے کے تمام رنگ غائب تھے اور اس کے نقوش دھندلائے دکھائی دیتے تھے۔ مجھے اپنے سامنے کھڑی وہ لڑکی بالکل بے جان وجود کی طرح لگی جس کی روح کو جیسے کسی نے یک لخت کھنچ نکالا ہو۔ میں جو سدا کا حقیقت پسند اور نفع نقصان اور عقل کے تقاضوں کو مدنظر رکھنے والا اس کی جذباتیت اور غیر منطقی فلاسفی کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر وہ اتنی چھوٹی سے بات کے لیے اتنا ردعمل کیوں دے رہے۔ یہ زمانہ طالب علمی تھا۔ اور میرے لیے اس وقت جذبات اور ان سے کھیلنا محض ایک دلچسپ مشغلہ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر معلوم نہیں کیوں اسی دلچسپ مشغلہ کو اس نے اتنا سنجیدہ کیوں لیا کہ اب وہ یوں لگ رہا تھا کہ ابھی گر جائے گی۔
آنسو اس کی پلکوں کے کناروں پر سفید موتیوں کی طرح چھلکنے کو تیار تھے اس کے ضبط کا پیمانہ آخری حدوں تک لبریز تھا اور کسی بھی وقت کچھ انتہائی بات ہوسکتی تھی۔ مجھے اس سے خوف آنے لگا۔ اب ہمیں چلنا چاہیے آج مجھے کچھ کام ہے۔ میں نے سرد لہجے میں کہا۔ اس نے خاموشی سے مجھے دیکھا اپنا ہاتھ کی انگلیوں سے میرے ہاتھ کو گرفت میں لے لیا اور اپنے سر میرے کندھے پر ٹکاکر بولی۔ کیا یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ اس کی آواز میں انجانا سے دکھ تھا جیسے کوئی زندگی میں بڑی شکست کے بعد حوصلہ ہار دیتا ہے یا وہ جواری جو اپنے آخری داؤ میں اپنا سب کچھ ہار کر جس شکست خوردگی سے بولتا ہے۔ بالکل ویسے ہی اس کی آواز میں ہارنے کا تاثر تھا۔
میرے لیے اس وقت اسے سمجھنا بہت مشکل ہورہے تھا۔ اس کی محبت اور جذباتیت مجھے دنیا کی سب سے فضول چیز لگ رہی تھی اور مجھے اس کے آنسو ایک ڈرامہ دکھائی دیتے تھے۔ میں اس کہانی کو ختم کرنے کا خواہشمند تھا جسے چند مہینے پہلے محض وقت گزاری اور تفریح کے لیے شروع کیا تھا۔
میں نے ہلکے سے ہاتھ چھڑایا اور نرمی سے کہا اب ہمیں جانا ہوگا۔ اس نے پھر خاموشی اپنے سر میرے کندھے سے ہٹایا۔ ٹھیک ہے جیسے تم چاہو۔ میں تمہارے ارادوں اور زندگی میں رکاوٹ نہیں بنوں گی۔
وہ کھڑی ہوئی اور میرے طرف دیکھے بغیر چلنے لگے اب کی بار اس نے کچھ نہیں بولا مگر مجھے لگا جسے وہ رورہی تھی اور اس نے آنسو چھپانے کے لیے مجھ سے رخ پھیر رکھا تھا۔ مجھے لگا جیسے کوئی ہولے ہولے بین کر رہا تھا۔ میں نے دیکھا اس کی خوشبو ابھی تک موجود تھی۔ وہ چلتی چلتی ناجانے کب دور راستے میں تحلیل ہوگئی تھی مگر اس کی آواز ابھی تک سنائی دے رہی تھی کیا یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔
مجھے درخت پر بیٹھی وہ معصوم چڑیا نظر آئی جس کے طرف اس نے اشارے کیا تھا۔ مجھے لگا ابھی وہ واپس آئے گی اور کہے گی یار تم کیوں مذاق کرتے ہو۔ مگر وہ واپس نہیں لوٹی۔ وہ راستہ جس سے وہ گئی تھی اس پر دور دور تک بالکل ویرانی دکھائی دیتی تھی۔ اور میں جو خاموشی بیٹھا تھا۔ مجھے اچانک محسوس ہوا کہ وقت رک گیا تھا۔ اسی لمحے میں ٹھہر گیا تھا جب اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا اور وہ اپنے سر کو میرے کندھے سے ٹکائے بیٹھی تھی وہ چڑیا وہ پیڑ وہ دیواریں سب اس لمحے میں قید ہوچکے تھے۔
میں اس قید سے رہائی چاہتا تھا مگر میرے بازو شل تھے اور پاؤں میں جیسے کسی نے بیڑیاں باندھ دی تھی وہ کسی ساحر کی طرح ہر چیز کو اسی لمحے میں باندھ گئی تھی۔ اب مجھے انتظار تھا کہ کب وہ پلٹتی ہے اور مجھے چڑیا، پیڑ اور دیوار کو رہائی دلواتی ہے مگر اب اس کا لوٹ آنا ممکن نہیں لگتا کیونکہ
نہ لوٹ آیا ہے جہاں دوام سے کوئی
مان جاؤ کہ اب اس نے واپس نہ آنا ہے