Saturday, 28 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Faraz Ahmad Rana
  4. 2070 Se 2021 Mein Aane Walay Mustaqbil Ka Aadmi

2070 Se 2021 Mein Aane Walay Mustaqbil Ka Aadmi

2070 سے 2021 میں آنے والے مسقبل کا آدمی

برطانیہ میں ایک آدمی نے بڑا دعوی کیا۔ یہ دعوی انتہائی چونکا دینے والا تھا۔ اس آدمی کا نام تھا ڈیوڈ۔ اس نے بتایا کہ وہ موجودہ دنیا کا آدمی نہیں ہے بلکہ وہ مستقبل سے آیا ہوا شخص ہے۔ اس کے دعوی کے مطابق وہ 2070 کی دنیا سے 2021 میں آیا ہے اور جس مشین کے ذریعے وہ اس وقت میں پہنچا ہے وہ مشین خراب ہوچکی ہے اس لیے اب یہاں پھنس گیا ہے۔

اس نے بتایا کہ دنیا میں لوگ 2030 تک وقت میں سفر کرنے لگیں گے۔ اس نے یہ بھی دعوی کیا کہ 2051 تک لوگ دنیا اور مریخ دونوں پر گھر بنا سکیں گے اور دنیا کی تمام بیماریوں کی ویکسین 2053 تک بن جائے گی اور دنیا میں کوئی بھی بیماری نہیں رہے گی۔ ہسپتال ختم ہو جائیں گے۔ اس آدمی نے گاڑیوں کے بارے میں بتایا کہ اڑنے والی گاڑیاں ہونگی جو پٹرول کی بجائے پودوں سے نکالے گئے فیول سے چلیں گی۔

ڈیود کے مطابق انٹرنیٹ کی ایسی قسم بھی 2062 تک آجائے گی جس کے ذریعے حقیقی چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ چند سیکنڈ میں بھیجا جاسکے گا۔ جیسے آج ہم ایک پیغام دنیا کے ایک سرے سے دوسرے تک سیکنڈ میں بھجواتے ہیں ایسی سے حقیقی چیزیں جیسے کوئی بیگ کوئی بھی چیز دوسری جگہ چند سیکنڈ میں بھجوائی جاسکے گی۔ ڈیوڈ کا یہ دعوی کافی حیران کن تھا۔ بہت سے لوگوں نے اس پر یقین بھی کرلیا۔ مگر کیا ڈیوڈ کا دعوی سچ تھا کہ وقت میں سفر کیا جا سکتا ہے یعنی ٹائم ٹریول ممکن ہے۔

ڈیوڈ کے دعوی کے مطابق اگر ایک آدمی وقت میں سفر کرسکتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ ایسا کرکے ماضی میں پیچھے جاسکتا ہے اور اپنے دادا کو اس کے بچپن میں مل سکتا ہے سائنس اس بارے میں کیا کہتی ہے۔ وقت میں دو طرح سے سفر کے بارے میں نظریات ہیں۔

پہلا نظریہ یہ ہے کہ ماضی میں سفر کرنا یا پھر مسقبل میں سفر کرنا۔ اور تیسرا نظریہ یہ بھی ہے کہ خود اسی وقت میں رہنے اور اردگرد چیزوں کو ماضی اور مستقبل میں سفر کروانا۔ اس بارے میں سب سے مشہور چیز آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلٹویٹی ہے۔ جس کے مطابق وقت پھیل سکتا ہے یا ڈائلیٹ ہو سکتا ہے۔ اس بات کو اس طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ ایک آدمی زمین پر کھڑا ہے اور ایک آدمی ایک ایسی مشین میں سفر کر رہا ہے جو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز حرکت کررہی ہوگی تو اس صورت میں مشین پر سفر کرنا والے کا وقت آہستہ چل رہا ہوگا اور زمین پر کھڑے آدمی کا وقت تیز۔

سادہ الفاظ میں مشین میں سفر کرنے والے آدمی کا ایک سال کا وقت زمین پر کھڑے آدمی کے دس سال کے وقت کے برابر ہوگا۔ آئن سٹائن کی تھیوری کے مطابق کوئی بھی چیز اگر وقت کی رفتار سے تیز حرکت کرنے لگے تو اس کا وقت آہستہ ہوجاتا ہے۔ اور وہ مستقل میں جاسکتا ہے یا ٹائم ٹریول کرسکتا ہے دوسری چیز جس سے ٹاٹم ٹریول ممکن ہے وہ ہے گریویٹی۔ سائنسدانوں کے ماننا ہے کہ کوئی بھی سیارہ یا کائناتی جسم جس کی گریویٹی زیادہ ہوگی اتنا ہی اس کا وقت آہستہ ہوگا۔ جسا کہ بلیک ہول۔

بلیک ہول جس کی گریویٹی انتہائی زیادہ ہوتی ہے اس کے قریب کے سیارے پر موجود وقت زمین کے وقت سے کم ہوگا۔ یعنی اگر دو آدمی جو ایک ہی دن پیدا ہوئے ایک آدمی زمین پر پیدا ہوا اور دوسرا آدمی جو بلیک ہول کے قریب سیارے پر تھا جب زمین پر موجود آدمی کی عمر پچاس سال ہوگی اور اتنے وقت میں بلیک ہول کے نزدیکی سیارے پر پیدا ہونے والے انسان کی عمر چند منٹ ہوگی۔

وقت میں سفر ایک تیسری طرح سے بھی ممکن ہے، اگر کسی انسان کو ایسی نیند سلادیا جائے اور اسی ایسی مشین میں رکھا جائے جس میں اس کا جسم اور دماغ سلامت رہے اور کئی سالوں بعد اسے اسی حالت میں دربارہ اٹھایا جائے تو اس صورت میں وہ وقت میں سفر کرسکے گا۔ ناسا ایسے منصوبہ پر کام کر رہا ہے جس میں انسانوں کو ایسی نیند سلانے یا ہائبرنیٹ کیا جاسکے گا۔

اس طرح کی ایک مذہبی کہانی بھی ہے جس میں غار والے انسانوں کا بتایا گیا۔ وہ غار والے انسان اور ان کا کتا کئی سو سال سوتے رہے اور جب وہ بیدار ہوے تو وقت بہت آگے آچکا تھا۔ وہ جس غار میں سو رہے تھے اس میں روشنی داخل نہیں ہوسکتی تھی۔ جب وہ بیدار ہوے اور انہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ وہ کتنی دیر سوئے رہیں ہونگے تو اس پر انہوں نے بتایا کہ چند گھنٹے یا وقت کا کچھ حصہ۔

جب انہیں بھوک محسوس ہوئی اور ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ جاؤ بازار سے کھانا لے کر آؤ اور جب ان کا ساتھی بازار سے کھانا لینے پہنچا اور دکان پر موجود دکاندار کو اس نے کھانے کے بدلے سکے دیے تو دکاندار سکے دیکھ کر حیران رہ گیا یہ وہ سکے تھے جو کئی سو سال پہلے استعمال ہوتے تھے اس نے سکے لینے سے انکار کردیا اور اس سے کہا کہ یہ سکے جعلی ہیں یہاں سے یہ معاملہ قاضی اور بادشاہ کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ تو پرانے زمانے کے تھے اور کئی سو سال سوتے رہے ان غار والوں کو اصحاب کہف کہا جاتا ہے۔

تو ان سب باتوں سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ وقت میں سفر ممکن ہے۔ مگر ڈیوڈ کے بارے میں میں آپ کو بتانا بھول گیا جس کا ذکر میں نے شروع میں۔ کیا تھا۔ جس نے دعوی کیا تھا کہ 2070 سے آیا ہے۔ حقیقت میں ڈیوڈ ایک نفسیاتی مرض میں مبتلا تھا جو خواب کسی اور غیر حقیقی چیزوں پر یقین رکھتا تھا۔ اس کی بیوی نے جب اسے نفسیاتی ڈاکٹرز کو چیک کروایا تو معلوم ہوا اس کے دماغ میں ایک حصے میں سوجن تھی جس کی وہ سے وہ ایسی خوابی باتیں کرتا تھا۔

وقت میں یہ سفر ممکن ہو سکے یا نہیں اس حوالے سے سائنسدان مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہوسکتا ہے مستقبل قریب میں ایسی ٹائم ٹریولنگ مشینیں بن جائے جسے سے وقت میں سفر ممکن ہو سکے۔

Check Also

Nakam Jalsa

By Munir Ahmad Baloch