Pakistan Mein Inqilab, Haqeeqat Ya Khwab
پاکستان میں انقلاب، حقیقت یا خواب
بنگلہ دیش کی حالیہ طلبہ تحریک نے نہ صرف ملکی سیاست بلکہ خطے کی سیاسی فضا پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس تحریک نے عوامی مسائل کی طرف توجہ مبذول کرائی اور حکومتی سطح پر کچھ تبدیلیاں بھی ممکن بنائیں، جس کو دیکھتے ہوئے پاکستانی نوجوان بھی سوشل میڈیا کے ذریعے یہ مشورے دیتے نظر آ رہے ہیں کہ ہمیں بنگلہ دیشی نوجوانوں سے سیکھنا چاہیے اور پاکستان میں بھی ایسا انقلاب لانا چاہیے۔ ہمارے نوجوانوں کو اتنا شعور نہیں کہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں کتنا فرق ہے؟ بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک کو انقلاب کا نام دینا بعض حد تک مبالغہ آمیز ہو سکتا ہے۔
پہلے نوجوانوں کو انقلاب اور تحریک میں فرق سمجھنا ضروری ہے۔ انقلاب عام طور پر ایسی تبدیلی کو بیان کرتا ہے جو نظامِ حکومت یا سماجی ڈھانچے میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں لائے، جیسے فرانس یا روس کا انقلاب۔ انقلاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے اثرات طویل مدتی اور ہمہ گیر ہوتے ہیں، جو پوری قوم یا ریاست کے سیاسی، سماجی، اور معاشی نظام کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔
بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک کے مقاصد خاصے محدود تھے۔ طلبہ نے زیادہ تر پرامن احتجاج کے ذریعے اپنے مطالبات پیش کیے، جو بنیادی طور پر تعلیمی نظام میں اصلاحات اور دیگر مخصوص مسائل پر توجہ دینے کے گرد گھومتے تھے۔ اس تحریک کے دوران وزیراعظم حسینہ واجد کے استعفی کے علاوہ حکومت کے بنیادی ڈھانچے یا سیاسی نظام میں کوئی بنیادی تبدیلیاں دیکھنے کو نہیں ملیں۔ اس لحاظ سے، یہ تحریک ایک کامیاب احتجاجی تحریک یا اصلاحی اقدام کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے، انقلاب کے طور پر نہیں۔
اب اگر ہم بات کریں کہ بنگلہ دیش جیسے حالات پاکستان میں کیوں نہیں پیدا ہو سکتے، تو اس کے لیے مختلف عوامل کا تجزیہ ضروری ہے۔ پاکستان کی معیشت پچھلے کئی سالوں سے مشکلات کا شکار رہی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، اور غربت کی صورت میں عوام کی زندگیوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں کسی بڑی احتجاجی تحریک کا ملک کی معیشت پر مزید بوجھ ڈالنا ممکن نہیں، جس سے ملک مزید بحران کی طرف جا سکتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے درمیان مسلسل تنازعات اور عدم استحکام کی صورتحال بھی عوامی مایوسی کا سبب بن رہی ہے۔ یہ تقسیم عوام کو متحد ہونے اور مشترکہ مقصد کے لیے جدوجہد کرنے سے روکتی ہے۔ پاکستان ایک سیکیورٹی ریاست ہے، جہاں چاروں طرف سے دشمن قوتیں پاکستان پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ یہ صورتحال ملک کی داخلی امن و امان کی حالت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، بنگلہ دیش کی داخلی سیکیورٹی کی حالت ایسی نہیں ہے، بنگلہ دیش کو آپ ایک فلاحی ریاست تو کہہ سکتے ہیں مگر سیکیورٹی ریاست نہیں کہا جا سکتا۔
پاکستانی نوجوانوں میں موجود جزباتی شدت اکثر مثبت تبدیلیوں کے بجائے تخریبی عمل کو فروغ دیتی ہے۔ بنگلہ دیشی طلبہ نے حالیہ تحریک کے دوران پرامن رہنے کو ترجیح دی، لیکن پاکستانی نوجوانوں میں اس سطح کا شعور اور تحمل موجود نہیں۔ مسلم دنیا کی نہ صرف پاکستان سے امیدیں وابستہ ہیں بلکہ امریکہ اور چین کا اس ملک میں سٹریٹجک اور اکنامک مفاد بھی ہے۔ ایسے میں بین الاقوامی سطح پر اکثر ممالک پاکستان کی مخالف تحریکوں کی حمایت نہیں کریں گے۔ یہ بین الاقوامی سیاست کا ایک اہم پہلو ہے جو ملک کی داخلی تحریکات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں فوج کا کردار ہمیشہ سے مضبوط رہا ہے۔ کسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے فوج کی حمایت لازمی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بغیر، کوئی بھی انقلاب کامیابی کے امکانات کم کر دیتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی اور علاقائی تقسیم بھی انقلاب کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ عوام کے مختلف طبقات کے مفادات مختلف ہوتے ہیں، جو کسی مشترکہ مقصد کے لیے جدوجہد کو مشکل بنا دیتے ہیں۔
پاکستان کو معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے نکالنے کے لیے انقلاب کے بغیر بھی کئی ممکنہ راستے ہیں۔ یہ راستے اصلاحات، مذاکرات، اور پائیدار ترقی پر مبنی ہیں۔ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے حکومتی پالیسیوں میں بہتری کی ضرورت ہے، جیسے ٹیکس کا نظام، مالیاتی نظم و نسق، اور کاروباری ماحول کی بہتری۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے انفراسٹرکچر کی بہتری اور کاروباری سہولتیں فراہم کرنا ضروری ہے۔
غربت میں کمی کے لیے خصوصی پروگرام اور منصوبے، جیسے تعلیمی اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا، شفاف اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی نظام میں اصلاحات کرنا، بدعنوانی کے خلاف سخت قوانین اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانا، عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اصلاحات کرنا، اور حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے انتظامی اصلاحات لانا اہم ہیں۔
سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی پاسداری کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ ہر فرد کو برابری کے مواقع مل سکیں، اور مختلف گروپوں اور طبقات کے درمیان مذاکرات اور مفاہمت کو فروغ دینا، تاکہ اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے، ان سب امور پر توجہ دینا ضروری ہے۔ پاکستان میں ان راستوں پر عمل پیرا ہو کر ہم نظام میں بہتری اور استحکام فراہم کر سکتے ہیں، اور عوام کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ یہ ایک تدریجی اور پائیدار ترقی کا راستہ ہے، جو کسی بھی غیر یقینی یا تخریبی عمل کے بجائے ملک کی ترقی کے لیے موزوں ہے۔