Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fakhar Alam Qureshi
  4. Mutasreen Diamer Bhasha Dam Insaf Ke Muntazir

Mutasreen Diamer Bhasha Dam Insaf Ke Muntazir

متاثرین دیامر بھاشہ ڈیم انصاف کے منتظر

دیامر بھاشہ ڈیم کے متاثرین کی کہانی ایک تلخ حقیقت کا مظہر ہے، جو حکومت اور پاکستانی معاشرتی نظام کی بے حسی اور غفلت کا عکس پیش کرتی ہے۔ جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ اس میگا منصوبہ کو پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مگر افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ آج یہ منصوبہ واپڈا حکام کے ہاتھوں ناکامی کی طرف گامزن ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دیامر بھاشہ ڈیم کی ناکامی پاکستان کے توانائی کے بحران کو مزید گہرا کر سکتی ہے، جس کا خمیازہ قوم کو اندھیروں میں ڈوبنے کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔

واپڈا حکام کی بے حسی اور غیر سنجیدگی دیامر کے لوگوں کے لیے ایک کربناک حقیقت بن چکی ہے۔ یہ کرب ایک خاموش چیخ کی مانند ہے جو حکومتی ایوانوں تک پہنچنے سے قاصر ہے۔ وفاقی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ان مسائل سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ واپڈا حکام کی غلط پالیسیاں دیامر بھاشہ ڈیم کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ وفاقی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو یہ معلوم کرے کہ متاثرین کے مسائل اب تک حل کیوں نہیں ہو سکے۔

متاثرین کی بے چینی اور اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ واپڈا کے جنرل منیجر نزاکت حسین کی کارکردگی پر سخت عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت اور وزیر آبی وسائل کو متاثرین کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب بھی چیئرمین واپڈا، وزیر آبی وسائل یا وزیراعظم پاکستان ڈیم سائیڈ کا دورہ کرتا ہے، تو مقامی سہولت کار متاثرین کو ان کے مطالبات پیش کرنے سے روکتے ہیں۔ جس باعث ان کے مطالبات چلاس دفتر میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔

اگر واپڈا کی یہ روش جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب متاثرین اپنے بچوں سمیت شاہراہ قراقرم پر دھرنا دیں گے اور ڈیم کے کام میں رکاوٹ بنیں گے۔ لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے واپڈا کے ذمہ داران اور وزراء کو نہیں پتہ کہ متاثرین میں پکنے والا لاوا پھٹنے سے کتنا بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ جی ایم دیامر بھاشہ ڈیم پراجیکٹ نزاکت حسین متاثرین کے مسائل حل کرنے میں کم اور واپڈا کے اندر گروپنگ بنانے میں زیادہ مصروف عمل نظر آتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں غریب اور متوسط طبقے کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہاں ہر طرف اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔ چیئرمین واپڈا اور وفاقی وزیر آبی وسائل کو دیامر بھاشہ ڈیم پراجیکٹ میں ایک ایسے جنرل منیجر کی تعیناتی کرنی چاہئے جو مخلص ہو اور متاثرین ڈیم کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہو۔

یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ مقامی جنرل منیجر متاثرین کے مسائل حل کرنے میں زیادہ اہم کردار ادا کریں گے، مقامی آفیسر تو یہاں سرکاری ڈیوٹی کم اور مقامی سیاست میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، ایسے افراد متاثرین کے مسائل حل کر سکیں گے؟ چیئرمین واپڈا بشمول واپڈا حکام کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ واپڈا کی ناجائز انٹرفرینس اور قبائلوں کو لڑانے میں پاکستان پھر سے اندھیروں میں ڈوب سکتا ہے اور پاکستانی قوم کے مستقبل کا خواب چکنا چور ہوگا۔

متاثرین ڈیم خود کو فخر سے پاکستانی شہری تصور کرتے ہیں لیکن اس کے باجود ان کی حب الوطنی اور قربانی کا صلہ نہیں مل رہا ہے۔ ہر طرف اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔ واپڈا اور وفاقی حکومت کو دیامر بھاشہ ڈیم پراجیکٹ کے مسائل کے حل کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے چاہیئے تاکہ متاثرین کے دکھوں کا مداوا ہو سکے اور دیامر کے لوگوں کا مستقبل روشن ہو۔

اس ساری مایوسی اور بے بسی کے باوجود، متاثرین میں امید کی ایک کرن باقی ہے۔ اگر حکومت اور واپڈا حکام سنجیدگی سے اقدامات کریں، تو دیامر بھاشہ ڈیم کے متاثرین کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ایک مخلص اور باصلاحیت جنرل منیجر کی تعیناتی، متاثرین کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک بڑی کامیابی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔

پاکستان کا روشن مستقبل دیامر بھاشہ ڈیم کی کامیابی میں پوشیدہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اور واپڈا حکام سنجیدگی سے اقدامات کریں تاکہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکے اور دیامر کے لوگوں کا مستقبل روشن ہو سکے۔ صرف اسی صورت میں پاکستان اپنے توانائی کے بحران سے نجات حاصل کر سکتا ہے اور ایک روشن مستقبل کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔

Check Also

Salman Ahmed Ka Junoon Bhi Utaar Diya

By Syed Mehdi Bukhari