Kis Se Khatra Hai
کس سے خطرہ ہے
دہشت گردی، غربت اور موسمیاتی تبدیلی یہ وہ مسائل ہیں جن کا شمار عالمی سطح کے مسائل میں ہوتا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ہر سال عالمی سطح پر بڑی کانفرنسز منعقد کی جارہی ہیں تاکہ مذکورہ مسائل پر قابو پایا جا سکے۔
قارئین کرام میں آج کے کالم میں دہشت گردی اور غربت کے بنیادی اسباب اور آنے والے وقتوں میں درپیش چیلنجز پر مختصراً روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔
دنیا میں آج جو ممالک غربت سے لڑ رہے ہیں، وہ ممالک دہشت گردی کا شکار بھی ہیں، کیونکہ دہشت گردی کی بنیادی وجہ غربت اور بےروزگاری ہی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے میرا یہ ماننا ہے کہ جب کوئی قوم غربت سے لڑ رہی ہو، قوم کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت چند مفاد پرست عناصر ہر میدان میں دیوار سے لگارہے ہوں، انہیں روزگار دینے کی بجائے مختلف ہتھکنڈوں سے انہیں ذلیل و رسوا کیا جارہا ہو، بنیادی حقوق کیلئے اٹھنے والی ہر آواز کو دبا کر ان کے ماتھے پر دہشت گردی کا لیبل لگایا جارہا ہوں، تو اس قوم کے مایوس بےروزگار نوجوان کسی دہشت گرد گروہ کا حصہ نا بنے یہ کیسے ممکن ہے؟
قارئین کرام غربت پر کیے جانے والی سروے کے مطابق ضلع دیامر کا شمار پاکستان سطح پر دوسرے نمبر پر اور گلگت بلتستان سطح پر پہلے نمبر پر ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ جس ضلعے میں ملکی سطح کا میگا منصوبہ دیامر بھاشہ ڈیم زیر تعمیر ہو سی پیک کا یہاں سے گزر ہو، وہ ضلع اکیسویں صدی میں بھی شرح غربت کی وجہ سے ملکی سطح پر دوسرے نمبر پر برقرار رہے۔
جب وطن عزیز اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، پاکستان کے گلی کوچے گھٹاٹوپ اندھیرے کا منظر پیش کررہے تھے حتی کہ ہسپتالوں کے آپریشن تھیٹر میں موم بتیاں جل رہی تھی، دوسری طرف کچھ قوتوں کی جانب سے کالا باغ ڈیم کو بزور طاقت نیست و نابود کرنے کی دھمکی دی گئی عین اسی وقت دیامر کے باسیوں نے اپنی آباء وجداد کے قبروں اور زمینوں کو قربان کرکے پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے دیامربھاشہ ڈیم کی قربانی دی۔ یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوان خوش تھے کہ دیامربھاشہ ڈیم کی تعمیر سے ہمیں روزگار ملےگا، علاقے سے غربت کا خاتمہ ہوگا۔ دیامر کا شمار پاکستان کے ترقی یافتہ ضلعوں میں ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوئے۔
قارئین کرام دیامربھاشہ ڈیم تو زیر تعمیر ہے لیکن یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوان اپنے ماتھے پر شاندار مستقل کا خواب سجائے ڈگریاں ہاتھوں میں لیئے فٹ پاتھ ناپ رہے ہیں۔ دیامر بھاشہ ڈیم تو زیرتعمیر ہے مگر ضلع دیامر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے۔ دیامربھاشہ ڈیم تو زیر تعمیرہے مگر یہاں کے 80 فیصد بچے آج بھی زیر تعلیم نہیں ہیں۔ ملک کے وسیع ترمفاد کیلئے اتنی قربانیوں کے باوجود جب یہاں کے تعلیم نوجوان دیامر کو تعلیم دو کا نعرہ بلند کرتے ہیں دیامر کو روزگار دو کا مطالبہ کرتے ہیں، بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں۔
جب بیرونی جامعات میں تعلیمی سکالرشپ کوٹے کی بات کرتے ہیں۔ جب چولھا پیکیج کی بات کرتے ہیں ڈیم رائلٹی کی بات کرتے ییں۔ حتی کہ (اقراء بسمہ ربک الذی حلق) کی افادیت و تکمیل کی بات کرتے ہیں تو ان کے مطالبات حل کرنے کے بجائے واپڈا میں بیٹھے کچھ بھیڑیئے نہ صرف ڈنڈا دکھاتے ہیں بلکہ ان کے ماتھے پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر انہیں خاموش کردیا جاتا ہے۔ تو پھر ڈیم کی ملازمتوں میں حق کس کو حاصل ہے؟ کیا متاثرین کے مسائل واپڈا کے مسائل نہیں ہیں؟ اگر واپڈا آج اپنی زمہ داریوں سے روگردانی اختیار کررہی ہے تو ان متاثرین کے مسائل کون حل کرےگا۔
مجھے بتایا جائے کہ دیامربھاشہ ڈیم کو کس سے زیادہ خطرہ ہے، اندرونی غریبوں سے یا بیرونی امیرقوتوں سے میں تو سمجھتا ہوں اس وقت اندرونی غریبوں سے زیادہ خطرہ ہے، ان بےروزگار نوجوانوں کو کوئی بھی بیرونی قوت اپنی مفاد کیلئے استعمال کرسکتی ہے۔ دیامر کے یہ بےروزگار مرجھائے چہرے ریاست سے پوچھتے ہیں؟ ہمارے ساتھ یہ ناروا سلوک کس پاداش میں کیا جاتا ہے؟ پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک گریجویٹ تو باآسانی دیامربھاشہ ڈیم اور واپڈا میں ملازمت حاصل کرسکتا ہے تاہم سینکڑوں مقامی گریجویٹس اس حق سے محروم ہیں۔
یہ بات نوشتہ دیوار ہے کہ واپڈا نامی ادارہ آج بھی دیامر کے قبائلوں کو تقسیم در تقسیم کرکے ان کی لٹیا ڈبونے میں مصروف ہے۔ اگر آج یہاں کے قبائل ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہیں ایک دوسروں کے ساتھ مسلح ہوکر لڑ رہے ہیں تو واپڈا میں بیٹھے کالی بھیڑیوں کے غلط کارنامے اور غلط پالیسیز کا نتیجہ ہے۔
آج دیامر کا مستقبل تاریک ہے، یہاں کے نوجوان بےروزگار پھر رہے ہیں یہاں کے ڈیم متاثرین ہر روز اپنے بنیادی حقوق کے حصول کیلئے شاہراہ قراقرم پر خواتین اور بچوں سمیت سراپا احتجاج ہیں تو واپڈا کے اندر بیٹھے لوگوں کی غلط پالیسیز کا نتیجہ ہے۔ آنے والے وقتوں میں اگر دیامر کوئی تعلیم یافتہ نوجوان مسلح ہوکر پہاڑوں پر چڑھتا ہے تو کریڈٹ واپڈا کو جائےگا۔ دیامر کا کوئی پڑھا لکھا نوجوان کسی دہشت گرد گروہ سے ملکر میگا منصوبوں کو ناکام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو زمہ دار واپڈا حکام ہیں۔
بین الاقوامی ڈیم بائی لاز کے مطابق دیامر کی ڈیویلپمنٹ، یہاں کی سڑکیں، یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار، معیاری تعلیم کی فراہمی، صحتی سہولیات، یہاں کے قدیمی ورثے کا تحفظ واپڈا کی زمہ داری ہے حتی کہ ڈیم ایریا میں پائے جانے والے حشرالارض کو دوسری محفوظ جگہ منتقل کرکے ان کی نسل کو ناپید ہونے سے بچانے کیلئے واپڈا انٹرنیشنل ڈیم بائی لاز کا پابند ہے، لیکن یہاں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں حشرات الارض کا کون خیال رکھےگا۔
گزشتہ ایک سال سے چیئرمین واپڈا کی جانب سے دیامربھاشہ ڈیم اور واپڈا میں ملازمتوں پر اس وجہ پابندی لگا دی گئی ہے کہ یہاں کے مقامی دو نوجوانوں کے آرڈرز جعلی تھے۔ چیئرمین واپڈا صاحب دو بندوں کی وجہ سے آپ پوری دیامر کو محروم رکھنا چاہیتے ہیں۔ اگر آپ کو احتساب کا اتنا شوق ہے تو ان کرداروں کا احتساب کریں۔ جو پچاس کروڑ روپے کی جعلی چیک کیس میں ملوث تھے۔ وہ کہاں ہیں؟ اسی کو وجہ بنا کر آپ نے کبھی پنجاب کے کسی گریجویٹس کو پابند نہیں کیا۔ ان لوگوں کا احتساب کریں جنہوں دیامیربھاشہ ڈیم میں کروڑوں کی کرپشن کی ہے۔ ان لوگوں کا احتساب کریں جنہوں نے پیسے کھا کر لوگوں کو ملازمتیں فروخت کی تھیں۔
اگر مقتدر حلقوں کی جانب سے واپڈا کا قبلہ درست نہیں کیا گیا واپڈا میں بیٹھے ان ملک دشمن عناصر کو دیامر سے نہیں ہٹایا جاتا تو یاد رکھیں یہ نوجوان کل کو آپ کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ آپ کوسمجھ لینا چاہیئے ڈیم کو بیرونی قوتوں سے زیادہ اندرونی غریبوں سے خطرہ ہے۔ جب واپڈا حکام دیامر کے ڈیم متاثرین کے بنیادی حقوق غضب کرکے ان کے منہ سے نوالے چھیننے کی کوشش کریں گے تو اب نہ صحیح مگر مزاحمت ہوگی ہی ہوگی۔ اس لیئے واپڈا کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہم واپڈا میں بیٹھے ان کالے بھیڑیوں کو بھی ڈیم مخالف تصور کریں گے۔