Colombia Model Aik Mumkina Hal
کولمبیا ماڈل ایک ممکنہ حل
گلگت بلتستان کی پُرفضا وادیاں ایک عرصے سے فرقہ وارانہ فساد اور دہشت گردی کے آسیب تلے سسک رہی ہیں۔ یہ خطہ، جو اپنے حسین مناظر کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے، وہاں کے باسیوں کے لیے ہمیشہ آزمائشوں کی سرزمین رہا ہے۔ کبھی سنی، شیعہ اور اسماعیلی برادریوں کے درمیان فرقہ واریت نے نفرت کے بیج بوئے، تو کبھی دہشت گردی کی سفاکی نے ان کے دلوں میں خوف کی دیواریں کھڑی کر دیں۔ گزشتہ سال چلاس ہڈور کے مقام پر مسافر بس پر حملہ اس بدامنی کی تازہ مثال ہے، جس میں شیعہ، سنی، اور اسماعیلی مسلک کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
حکومت پاکستان نے 2019 میں میگا منصوبوں کے پیش نظر اس خطے میں کالعدم تحریک طالبان اور دیگر معروف تنظیموں کے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا، جس میں دونوں فریقین نے امن و امان کے قیام کا عہد کیا۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ کوئی بھی ایسا عمل نہیں ہوگا جو گلگت بلتستان کے امن کے لیے خطرہ بن سکے۔ باوجود اس کے امن مذاکرات کا عمل گزشتہ سال تک جاری رہا اور طالبان نے اپنے مطالبات کے چارٹر میں چند قیدیوں کی رہائی اور مختلف کیسز میں ملوث کمانڈرز کے لیے عام معافی کی بات کی تھی پر کوئی عملدر آمد نہیں ہوا، اور دونوں فریقین کے مابین عدم اعتماد نے اس امن معائدے کو ناکام بنا دیا۔
انہیں وجوہات کی بنا پر گزشتہ سال سے حکومت اور طالبان کے مابین لفظی جنگ شدت اختیار کر گئی، اور متعدد کوششوں کے باوجود قبائلی جرگہ دونوں فریقین کو منانے میں ناکام رہے، نتیجتاً نوبت ٹارگٹڈ آپریشن تک پہنچ گئی اور دو ہفتے قبل فوج نے دیامر کے علاقے داریل میں ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران سانحہ ہڈور میں نامزد مرکزی کمانڈر شاہ فیصل کو ہلاک کر دیا اور اس کے ساتھی زاہداللہ کو زخمی کردیا گیا ہے۔
اس آپریشن کے بعد مقامی کمانڈرز میں حکومت کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایسی نازک صورتحال میں، جب دیامر میں میگا منصوبے زیر تعمیر ہیں، شرپسندوں کے خلاف آپریشن ایک سنگین غلطی ثابت ہوسکتی ہے۔ موجودہ حالات میں امن معائدہ ہی وہ راستہ ہے جو دہشت گردی کی روک تھام میں مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں، کولمبیا ماڈل ہمارے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے۔
کولمبیا کے ماڈل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اہم پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے۔ کولمبیا میں حکومت نے فارک گوریلا تنظیم کے ساتھ مذاکرات کیے اور امن قائم کیا۔ اس ماڈل کے تحت، تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر لایا گیا اور اختلافات کو حل کرنے کے لیے متعدد کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں فارک کے گوریلا کمانڈرز کو عام معافی دی گئی اور انہیں معاشرتی دھارے میں شامل کیا گیا۔
گلگت بلتستان کے لیے اس ماڈل کو اپنانا ایک دانشمندانہ قدم ہوسکتا ہے۔ طالبان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کا آغاز اور ان کے جائز مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش دہشت گردی کے خاتمے کی مؤثر حکمت عملی ہوسکتی ہے۔ طالبان کے قیدیوں کی رہائی، انہیں معاشرتی دھارے میں شامل کرنا، اور ان کے ساتھ منصفانہ سلوک اس علاقے میں دیرپا امن کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔
آپریشن سے کبھی امن قائم نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا۔ اس لیے کولمبیا کا مذاکراتی ماڈل گلگت بلتستان میں امن قائم کرنے کے لیے آخری آپشن ہے۔ اگر ہم اس ماڈل کو کامیابی سے نافذ کر سکیں تو یقیناً دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے اور گلگت بلتستان کے باسیوں کے لیے ایک پرامن مستقبل کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
لہذا، ہمیں کولمبیا ماڈل کی روشنی میں اپنے مذاکراتی عمل کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ گلگت بلتستان میں امن اور ترقی کی نئی راہیں کھل سکیں۔ ایک پرامن اور مستحکم گلگت بلتستان نہ صرف وہاں کے باسیوں کے لیے بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک روشن مثال بن سکتا ہے۔
یہ موقع ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے دانشمندی سے کام لیں اور امن کی جانب قدم بڑھائیں۔ جیسا کہ کہاوت ہے، "امن کی راہ مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں"۔ ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی تاکہ گلگت بلتستان کے خوبصورت مناظر کے ساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں کی زندگیاں بھی محفوظ اور خوشحال ہوسکیں۔