Awami Tasurat Aur Haqeeqat
عوامی تاثرات اور حقیقت
ہمارے معاشرے میں ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ جب کہیں اچانک گاڑی کو حادثہ پیش آتا ہے یا کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے، تو فوراً عوامی حلقوں میں یہ بات عام ہوتی ہے کہ یہ ایجنسیاں کراتی ہیں۔ حالانکہ ثبوت کسی کے پاس نہیں ہوتا، بس ایک تاثر جو سالوں معاشرے میں پنپ رہا ہے، اس کے مطابق رائے قائم کرلی جاتی ہے۔
میں اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتا کیوں کہ فوج یا ملکی ایجنسیاں عوام کی دشمن نہیں ہوتیں۔ دیامر میں یہ تاثر سب سے زیادہ پایا جاتا ہے کہ کمانڈرز کو بنانے اور مارنے میں ایجنسیاں سرفہرست ہیں۔ ہاں، ایسے ایک دو واقعات ہوسکتے ہیں جن میں فوج یا ایجنسیوں کا مفاد شامل ہو، مگر گھر کے سامنے مرغی مرنے کے پیچھے فوج کا ہاتھ نہیں ہوتا۔ مرغی کے جیسے کئی واقعات ہمارے ذہنوں میں ڈالے گئے ہیں، تاکہ ان کو حقیقت سے دور رکھا جائے، تاہم فوج یا ایجنسیاں مرغی کے قتل میں کوئی عمل دخل نہیں رکھتی۔
پچھلے سال بابوسر روڈ پر ایک پنجابی سیاح، جو پروفیسر تھے، کا قتل ہوا۔ اس پر یہ تاثر عام ہونے لگا کہ اس کو ایجنسیوں نے مارا ہے۔ اس پروفیسر کے جیب میں سات قسم کے کارڈز تھے، جس سے لگتا ہے کہ وہ کسی بیرونی ایجنسی کا ایجنٹ ہوگا۔ یہ تاثر درحقیقت ہمیں حقائق سے دور لے جاتا ہے۔ ہمیں بازاری باتوں پر یقین کرنے یا کسی کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے خود تحقیق کرنی چاہئے۔
دیامر میں موجود چند طالبانی عناصر کے حوالے سے بھی ننانوے فیصد لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ ایجنسیاں کے پیدا کردہ ہیں۔ اس خیال میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ ہاں، کچھ کا ہم نہیں کہہ سکتے، لیکن عموماً ایسا نہیں ہے اور یہ تاثر حقیقت کے برعکس ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسے کئی عناصر سے ملتا ہوں، اور میرے کئی سوالات کے باوجود یہ شک دور ہوگیا کہ یہ ایجنسیاں کے پیدا کردہ نہیں بلکہ خود کے پیدا کردہ ہیں۔
کیا ایجنسیاں ہمارے سیاستدان، علماء، سماجی اور صحافی استعمال نہیں کرتیں؟ مگر انہیں قتل نہیں کیا جاتا۔ یہ تاثر عام کرکے ہم معاشرے کے حقیقی مجرموں کو کھلی چھوٹ دے کر ملبہ فوج پر ڈال رہے ہیں۔ لہذا، جس دن ہم اس خیال سے باہر آئیں گے تو حقیقت آشکار ہوگی اور ہم اصل مجرموں تک پہنچ سکتے ہیں۔ ورنہ فوج یا ایجنسیاں پر ملبہ ڈال کر ہم خود کو بری الذمہ نہیں ٹھہرا سکتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بازاری باتوں پر یقین کرنے کی بجائے خود تحقیق کریں اور حقیقت کو تلاش کریں۔ بغیر ثبوت کے کسی پر الزام لگانا نہ صرف انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ یہ ہمیں اصل مجرموں سے دور بھی کر دیتا ہے۔ فوج اور ایجنسیاں ہماری دشمن نہیں ہیں، بلکہ ہمیں ان پر اعتماد کرنا چاہئے اور حقائق کو سامنے لا کر صحیح فیصلہ کرنا چاہئے۔
ایسی صورت حال میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ کس طرح سے ہم معاشرتی ترقی اور امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ صرف الزام تراشی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس سے ہماری توجہ اصل مسائل سے ہٹ جاتی ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا ہوگا اور اپنے معاشرے کی بہتری کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
بغیر تحقیق کے، عوامی تاثرات پر مبنی الزامات نہ صرف انصاف کے منافی ہیں بلکہ ہمیں حقیقت سے بھی دور لے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی عقل و فہم کا استعمال کرتے ہوئے حقائق کی کھوج کرنی چاہئے اور بغیر ثبوت کے کسی پر الزام نہیں لگانا چاہئے۔ اس طرح ہم نہ صرف انصاف کی بالادستی قائم کریں گے بلکہ معاشرتی ترقی اور امن کے قیام میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔