Pakistan Ke Musawir Khandan Aur Unka Fanni Virsa
پاکستان کے مصور خاندان اور اُن کا فنی ورثہ

جنوبی ايشياء کی تاریخی، ثقافتی اور سیاسی اقدار نے انسانی معاشرتی ڈھانچے کو مرتب کیا۔ علمی اور فنی اقدار اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لیے کہانی سنانے کی روایت اس خطے میں صدیوں پرانی ہے۔ نظم و نثر کی صورت میں "زبانی روایت" (سینہ بہ سینہ کہانیاں، لوک گیت، نوحے) علم، اقدار اور ثقافت کو نسل در نسل منتقل کرنے کا مؤثر ذریعہ رہی ہے۔ اسی طرح "مصورانہ اظہار" بھی علم کی بصری ترسیل کا ایک ذریعہ بنا، جو تاریخ اور تہذیب کو تصویروں میں محفوظ کرکے نئی نسلوں تک پہنچاتا رہا ہے۔ اسی تسلسل کی بدولت علم صرف فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے خاندان اور پھر پوری برادری میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ لوک داستانیں، رزمیہ کہانیاں، صوفیانہ حکایات، لوک گیت، عربی اور فارسی سے متاثر قصے اس خطے کے لوگوں کی تخلیقی اور فکری وراثت کا حصہ ہیں۔ جنوبی ایشیا کی تاریح میں فن، علم اور ہنر محض ایک ذاتی صلاحیت ہی نہیں بلکہ ایک خاندانی ورثہ بھی رہا ہے، جو نہ صرف فرد کی شناخت بناتا ہے بلکہ اجتماعی تہذیب و ثقافت کا عکاس بھی ہے۔
برصغیر میں مختلف مذاہب، ثقافتوں اور علاقوں سے وابستہ "روایتی تعلیمی ادارے" جیسے گرُوکل، پاٹھ شالا، مدرسے، ٹولز، خانقاہیں، گردوارے، مکتب، آشرم اور دھرم شالہ موجود تھے۔ یہ ادارے مذہب، فن، فلسفہ، ہنر اور اخلاقی تربیت کا امتزاج تھے، جہاں سیکھنے کا عمل زبانی روایت، مشاہدے، مکالمے اور عملی تربیت پر مبنی ہوتا تھا۔ تعلیم کا نظام، فن، تخلیق اور سوچنے کی صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، جہاں شاگرد محض یادداشت کے بجائے مشق، سوال اور اظہار کے ذریعے سیکھتے تھے۔ یہ نظام انسان کو مکمل فنکار اور باشعور فرد بنانے پر زور دیتا تھا۔
یہاں ہمیں ایسے دانشور اور ماہرینِ نظر آتے جو کسی مخصوص علم یا ہنر میں مہارت رکھتے تھے۔ یہاں "ہر فن مولا مگر کسی فن کا استاد نہیں" کے بجائے ایسے افراد پائے جاتے تھے جو کسی ایک شعبے کے استاد ہوا کرتے اور اپنے شعبے پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ مہارت نہ صرف اُن کے پیشے میں جھلکتی تھی بلکہ اُن کی خاندانی پہنچان، طرزِ زندگی اور محلہ جات بھی اُن کے پیشے سے وابستہ ہوتے تھے۔ لاہور کا اندرون شہر صدیوں سے فنونِ لطیفہ، ہنر اور ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کے آج بھی مختلف محلّے اور کوچے ایسے فنکاروں، خوشنویسوں، نقاشوں، رنگ سازوں اور دیگر ہنرمندوں سے منسوب ہیں جنہوں نے اپنے فن کو نسل در نسل جاری رکھا جیسے محلہ مصوراں، کوچہ قلمکاراں، محلہ رنگ سازاں، محلہ نقاشاں، کوچہ خوش نویسان، محلہ سنگ تراشاں اور محلہ کاشی گر۔ مسجد وزیر خان میں نہ صرف عبادت ہوتی تھی بلکہ خوشنویس، فریسکو اور نقش و نگار بنانے والے یہاں تربیت بھی لیتے تھے۔
پاکستانی فن مصوری کی تاریخ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ فنونِ لطیفہ کی مہارتیں خاندانی روایات کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں ہیں۔ ہمیں ایسے مصور خاندان نظر آتے ہیں جن میں فنی مہارت ایک ورثے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ پاکستانی مایہ ناز مصور عبد الرحمن چغتائی، حاجی محمد شریف، صادقین اور حالیہ دور کے معروف مصور مغیث ریاض اس تسلسل کو اجاگر کرتے ہیں۔ چغتائی خاندان کی فنی خدمات ہوں یا حاجی شریف کی مصوری کی روایت، ہر نسل نے اپنے فن کو منفرد پہچان دی۔
عبدالرحمٰن چغتائی پاکستان کے ایک معروف مصور اور دانشور تھے، جنہوں نے مغلیہ فِن مصوری منی ایچر پینٹنگ اور اسلامی فنون کے روایتی اثرات سے متاثر ہو کر اپنی منفرد اور مخصوص مصوری کی طرز تخلیق کی۔ انہیں "جنوبی ایشیا کے پہلے نمایاں جدید مسلم مصور " کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور وہ پاکستان کے قومی مصور مانے جاتے ہیں۔
چغتائی 1897 میں لاہور کے محلہ چابک سواراں میں پیدا ہوئے، وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کی نسلوں میں ہنرمند کاریگر، معمار، فنکار، خوشخط، ریاضی دان اور فلکیات دان شامل تھے۔ تقریباً بارہ نسلوں کا سفر لاہور سے شروع ہو کر ہرات اور پھر تیموری دارالحکومت تک پہنچتا ہے۔ بہت سادگی سے کہا جائے تو عبد الرحمن چغتائی میان کریم بخش کے بیٹے تھے، میان کریم بخش، رحیم بخش کے بیٹے، رحیم بخش، میان صلاح کے بیٹے، میان صلاح، کرم الدین کے بیٹے، کرم الدین، امیر الدین کے بیٹے، امیر الدین، امام الدین کے بیٹے، امام الدین، لطف اللہ مہندس کے بیٹے، لطف اللہ، استاد احمد معمّار کے بیٹے، استاد احمد یوسف کے بیٹے، یوسف، حسین کے بیٹے اور حسین، عبد اللطیف کے بیٹے تھے۔
استاد احمد معمّار لاہور میں پیدا ہوئے، جبکہ استاد یوسف تیموری بادشاہ بابر کے ساتھ ہرات سے آئے تھے۔ استاد یوسف ترک کے استاد سنان کے شاگرد تھے۔ استاد احمد نے یہاں جو کام کیا وہ واقعی حیرت انگیز تھا۔ آخرکار وہ شہنشاہ شاہجہاں کے چیف آرکیٹیکٹ بنے اور شاہجہانی دور کے زیادہ تر عمارتوں کے ذمہ دار تھے۔ تاریخ میں انہیں دہلی کے لال قلعہ اور جامع مسجد دہلی کے معمار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کی سب سے شاندار تخلیق ممتاز محل کے مزار کا ڈیزائن ہے، جو تاج محل کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تخلیقی جینز اور وراثت نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔ عبد الرحمن اسکول سے واپس آتے ہوئے گمٹی بازار میں ایک دکان پر رک کر مصور کا کام غور سے دیکھتے تھے۔ گمٹی بازار کے یہ مصور ایک مشہور خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں مورتیان والے کے نام سے جانا جاتا تھا۔
چنائی والی مسجد جو محلہ چابک سواراں کے قریب واقع تھی وہاں سے عبد الرحمن نے اپنی قرآنی تعلیم حاصل کی۔ بابا میران بخش نے میان کریم بخش کی رضا مندی سے نقاشی کی تعلیم دینے کا آغاز کیا اور مسجد وزیر خان کے حجرہ میں اُن سے فنی تربیت حاصل کی۔ بابا میراں بخش خود بھی مایہ ناز مصور تھے اور کریم بخش کے بہنوئی تھے اور وہ کوچہ بزرگ شاہ میں رہائش پذیر تھے۔ چند سالوں تک یہ اسباق عبد الرحمن چغتائی کے لیے حسن و جمال کی روایت میں پہلا تعلیمی تجربہ ثابت ہوئے۔ عبد الرحمن کو ریلوے ٹیکنیکل اسکول میں داخل کروایا، جو ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع تھا۔ ٹیکنیکل اسکول، لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد، چغتائی نے میو اسکول آف آرٹس، لاہور میں داخلہ لیا، جہاں سمرندرناتھ گپتا، جو بنگال اسکول آف آرٹ کے بانی ابانندرناتھ ٹیگور کے شاگرد تھے، بطور وائس پرنسپل خدمات انجام دے رہے تھے۔ اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد، چغتائی نے کچھ عرصہ بطور فوٹوگرافر اور ڈرائنگ کے استاد کے طور پر روزگار اختیار کیا۔ بعد ازاں وہ میو اسکول میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
چغتائی نے ساٹھ سالہ فنی سفر میں تقریباً 2000 واٹر کلر پینٹنگز، ہزاروں پنسل اسکیچز اور 300 کے قریب ایچنگز اور آکوا ٹنٹس بنائیں۔ وہ کہانیاں اور فن پر مضامین بھی لکھتے تھے۔ انہوں نے ٹکٹ، سکے اور کتابوں کے سرورق بھی ڈیزائن کیے۔ انہوں نے اپنی تین کتابیں شائع کیں مرقعِ چغتائی، نقشِ چغتائی اور چغتائیز پینٹنگز۔ مرقعِ چغتائی، غالب کی اردو شاعری پر مبنی ایک خوبصورت تصویری کتاب تھی، جس کا دیباچہ علامہ اقبال نے لکھا۔ چغتائی نے اپنی حاندانی میراث کو منفرد پہچان دی۔
حاجی محمد شریف، مصوری کے معروف استاد اور خاص طور پر منی ایچر، مینا تورمصوری کے ماہر تھے جسے مغلیہ دور میں خاص سرپرستی حاصل رہی۔ آپ 1889 میں ریاست پٹیالہ (مشرقی پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ یہ فن انہیں وراثت میں ملا، کیونکہ ان کے آبا و اجداد بھی اپنے وقت کے ممتاز منی ایچر آرٹسٹ تھے۔ ان کے دادا اللہ دتہ کو اس فن پر خاص مہارت حاصل تھی، جبکہ ان کے والد بشارت اللہ بھی عمدہ درجے کے منی ایچر مصور تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حاجی صاحب نے اپنے خاندان کی خواہشات کے خلاف جا کر اس فن کو اپنایا، کیونکہ ان کے بڑوں کی خواہش تھی کہ وہ گھڑی ساز بنیں۔ تاہم، پٹیالہ کے مہاراجہ نے اُن کی فنکارانہ صلاحیتوں کو پہچانتے ہوئے اُنہیں درباری مصور کے عہدے کی پیشکش کی اور اُن کے خاندان کو اس پر رضامند بھی کیا۔ یوں حاجی محمد شریف نے درباری مصور کی حیثیت سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور منی ایچر آرٹ کی روایت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے مزید نکھارا۔
انہوں نے فنونِ لطیفہ کی ابتدائی تربیت پٹیالہ ریاست کے ایک معروف استاد لالا شاؤ رام سے حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ اُن پر دہلی کے معروف فنکار محمد حسن خان اور اپنے والد کے چند شاگردوں کا بھی اثر رہا۔ کم عمری ہی سے حاجی محمد شریف نے اپنے فن میں مہارت اور برتری کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا تھا اور یہ واضح ہوگیا تھا کہ وہ اس روایت کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
1945 میں حاجی صاحب کو میو اسکول آف آرٹس میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی، جسے انہوں نے خوشدلی سے قبول کر لیا۔ حاجی صاحب ہر شاگرد کے منی ایچر کو بغور دیکھتے اور درست کرتے۔ ان کے شاگرد دلچسپ اور مزاحیہ قصے یاد کرتے ہیں جو وہ اکثر سنایا کرتے اور اپنے پٹیالہ میں گزارے ہوئے ناقابل فراموش دنوں کی داستانیں بھی بیان کرتےتھے۔
1965 میں حاجی صاحب اپنی خدمات سے ریٹائر ہو گئے۔ اس کے بعد ان کی صحت خاص طور پر بینائی کمزور ہونے لگی۔ یہ زوال انہیں اپنے فن کو جاری رکھنے کی اجازت نہ دے سکا۔ وہ 9 دسمبر 1978 کو وفات پا گئے اور اپنے پیچھے ایک ایسی فنی میراث کی روایت چھوڑ گئے جس پر ہمیں فخر ہے۔
صادقین 1930 میں خوشخطی کے فن سے وابستہ ایک خاندان میں پیدا ہوئے۔ صادقین کی ابتدائی زندگی ہندوستان کے شہر امروہہ میں گزری، یہی وہ چھوٹا سا شہر تھا جہاں انہوں نے فن کی دنیا میں پہلا قدم رکھا اور خطاطی کی روایتوں سے روشناس ہوئے۔ امروہہ میں گزرا ہوا اُن کا بچپن صرف حروفِ تہجی سیکھنے تک محدود نہ تھا، بلکہ یہ حروف کی ہم آہنگی اور تسلسل کو محسوس کرنے کا زمانہ تھا۔
بچپن میں صادقین کوئلے سے اپنے گھر کی دیواروں پر تصویریں بنایا کرتے تھے۔ چاہے انہیں کتنی ہی بار ڈانٹا جاتا، وہ باز نہ آتے اور دوبارہ تصویریں بنا دیتے۔ وہ گھر کے افراد سے ان کے خوابوں کے بارے میں پوچھتے تاکہ اُنہیں اپنے انداز میں تصویر کی صورت دے سکیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ "میں مصوری کے لیے ہی پیدا ہوا ہوں اور میری یادداشت تصویری ہوتی ہے"۔
اُن كا تعلق قرآن پاک کے کاتبوں کے خاندان سے تھا، جہاں خوشخطی کو ایک معزز فن سمجھا جاتا تھا، لیکن صادقین سے کہا گیا کہ فنکاری سے وہ روزگار نہیں کما سکیں گے۔ مگر یہ بات کبھی ان کے حوصلے کو پست نہ کر سکی۔ ان کی صلاحیتوں کو 1940 کی دہائی کے اوائل میں جِلا ملی جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے اور وہاں خطاط و نقول نویس کی حیثیت سے کام کیا۔ آگرہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب وہ پاکستان آئے تو کچھ عرصہ کالج میں تدریسی فرائض انجام دیے اور ریڈیو پاکستان میں بھی کام کیا، لیکن آخرکار انہوں نے خود کو مکمل طور پر فنونِ لطیفہ کے لیے وقف کر دیا۔
صادقین کے فنکارانہ سفر پر ان کے خاندان کی خوشخطی کی روایت نے گہرا اثر ڈالا۔ خوشخطی کا روایتی فن، جس میں پیچیدہ نمونے اور رواں خطوط شامل ہوتے ہیں، ان کے فن کا مرکزی موضوع بن گیا۔ تاہم، اسلامی فن اور فنِ تعمیر سے ان کا تعارف ان کے تخلیقی افق کو مزید وسعت دینے کا سبب بنا، جس کے نتیجے میں ان کے فن پارے تہذیبی اور مذہبی علامتوں سے بھرپور ہو گئے۔
صادقین کو جنوبی ایشیا کے فنونِ لطیفہ کے کئی نقادوں نے ان کی خطاطی کے باعث بے حد سراہا۔ وہ حروفیہ تحریک میں ایک اہم مقام رکھتے تھے۔ یہ تحریک اسلامی فنون کی ایک تحریک تھی جو 1950 کی دہائی میں شمالی افریقہ اور ایشیا میں شروع ہوئی۔ اس تحریک کا مرکز روایتی فن، خصوصاً خوشخطی، کو جدید فنکارانہ اظہار کے ساتھ جوڑنا تھا۔ ان فنکاروں نے مغربی اثرات سے اجتناب کرتے ہوئے ایک ایسا بصری انداز تخلیق کرنے کی کوشش کی جو ان کی ثقافتی جڑوں کی سچی نمائندگی کرتا ہو۔
پاکستان میں صادقین سے پہلے بہت کم فنکاروں نے خوشخطی کو ایک فن کی صورت میں گہرائی سے اپنایا تھا۔ صادقین کے منفرد انداز نے خوشخطی کو ایک جدید فن کے طور پر نئی زندگی بخشی۔ ان کا یہ انداز پاکستان میں کئی فنکاروں کے لیے تحریک کا ذریعہ بھی بنا، جنہوں نے اپنے ثقافتی ورثے کو فن کے ذریعے دریافت کرنے کی خواہش میں نئی راہیں تلاش کیں۔
صادقین ایک صاحبِ فکر شاعر بھی تھے، جنہوں نے نوجوانی ہی میں رباعیاں لکھنا شروع کر دی تھیں۔ بعد ازاں انہوں نے نہ صرف اپنی شاعری کی تصویر کشی کی۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ صادقین نے مصوری، خوشخطی، شاعری اور دیواری نقاشی، ان تمام اصنافِ فن کو نہ صرف مہارت سے سیکھا بلکہ انہیں ایک دوسرے میں اس خوبصورتی سے ضم کر دیا کہ ہر فن کو نئی جہت مل گئی۔ صادقین محض مصور یا خطاط نہیں بلکہ ایک پرفارمنس آرٹسٹ بھی تھے، جو اپنے جسم، ذہن، رنگوں اور کینوس کے ذریعے ایک ایسا فن تخلیق کرتے تھے جو دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ صادقین اکثر کہا کرتے تھے کہ ہر حرف کی اپنی شخصیت ہوتی ہے، جیسے وہ کوئی جیتا جاگتا انسان ہو کبھی خوش مزاج، کبھی اُداس یا غصے میں اور وہ انہی کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی تصویری تشریحات کرتے۔ ان کے لیے الفاظ محض معنی رکھنے والی علامتیں نہیں تھے، بلکہ ایک زندہ تجربہ تھے ایک ایسا مکالمہ جو وہ اپنے فن کے ذریعے دنیا کے سامنے لاتے تھے۔ صادقین نے اپنے آرٹ کی بدولت اپنےحاندان کی تحلیقی اقدار کو زندہ رکھا۔
حالیہ دور کے مایہ ناز مصور مغیث ریاض بھی اپنی خاندانی وارثت کو اپنے فن کی بدولت رواں دواں کیے ہوئے ہیں۔ یہ فنی سفر کئی دہائیوں پہلے شروع ہوا تھا۔ مغیث کے جدامجد ایران کے شہر آبادان سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ فنی اور تخلیقی عوامل اس خاندان میں ہمیشہ کارفرما رہے جن میں خطاط مصنف، شاعر، سنیما پنیٹر، گرافک ڈیزاینر، فوٹو گرافر اور مصور کے نام شامل ہیں جو اپنی قابلیت کی بدولت پاکستانی آ رٹ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
مغیث کے خاندان میں موجود فنِ خطاطی کی مضبوط روایت کا ثبوت ڈھائی سو سال پرانا قرآنِ مجید کا قلمی نسخہ ہے جو مصور کے آباؤ اجداد کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ یہ نسخہ مصور کے تایا، عبدالمالک ریاض کو اُنکی دادی نے عطا کیا اور اُنہیں بتایا کہ یہ ہمارے بزرگوں کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا نادر قلمی نسخہ ہے۔ درحقیقت، یہ نسخہ خاندان کی فنی تاریخ اور روحانی وراثت کی علامت ہے۔
مغیز ریاض کے جدِ امجد کا فنی اور روحانی تعلق کا ثبوت ہمیں اُن کے لکڑ دادا، علم الدین صاحب، کے تحریر کردہ حُلیہ مبارک میں بھی ملتا ہے، جو 1919 میں حضورِ اکرم ﷺ کے اوصافِ مبارکہ کے بیان کے لیے فارسی اور پنجابی زبان میں لکھا گیا۔ یہ ایک خوبصورت خطاطی سے لکھی ہوئی قدیم تحریر ہے جو نبی کریم ﷺ کے اوصاف کو شاعرانہ انداز میں بیان کرتی ہے۔ "لکھو دیر" شالہ مار باغ کے نواح میں ایک گاؤں تھا، جہاں علم الدین صاحب مسجد کے امام تھے۔ انہوں نے بے شمار مذہبی کتابیں تحریر کیں۔ "حُلیہ مبارک" پر مصنف کی ذاتی مہر بھی ثبت ہے، جو اُس دور کی ثقافت اور انفرادیت کی عکاسی کرتی ہے۔
نور احمد آزاد مایہ ناز سنیما پینٹر تھے۔ آپ مغیث ریاض کی نانی کے بھائی اور رشتے میں مصور کے نانا لگتے تھے۔ انہوں نے نور جہاں اور دلیپ کمار جیسے مشہور اداکاروں کی تصویریں مصور کیں اور اُنکے کام کو بہت سراہا گیا۔ تقسیم سے پہلے انہوں نے بمبئی میں شاندار کام کیا، پھر کراچی منتقل ہوئے اور آخرکار لاہور میں آ کر فلمی پوسٹر بنانے کا کام کیا۔ ہاتھ سے بنے ہوئے یہ فلمی پوسٹر پاکستان کے ابتدائی سالوں میں سنیما گھروں کی زینت بنتے تھے۔ آزاد ایک ماہر مصور تھے انہوں نے محترمہ فاطمہ "جناح" جیسی مشہور سیاسی رہنماؤں کے پورٹریٹ بھی بنائے، ایک مرتبہ قائدِاعظم کے پورٹریٹس کی ایک نمائش منعقد کی گئی، اس میں اُن کا بنایا گیا قائدِاعظم کا پورٹریٹ بہت سراہا گیا اور عوامی عمارتوں میں آویزاں کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ آج بھی فلمیں اور میوزیم اُنکے فن کو سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں اور شائقین اُنکی فنکارانہ صلاحیت کی تعریف کرتے ہیں۔
مغیث کے دادا کے بھائی محمد لطیف ممتاز ڈیزائنر تھے، جنہوں نے میو اسکول آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی۔ پھر نیویارک میں مزید تربیت لی اور وطن واپس آکر پاکستان کی بصری ثقافت کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ پاکستان کے پہلے "ڈاک ٹکٹ ڈیزائنر" اور حکومتِ پاکستان کے "ڈائریکٹر آف ایڈورٹائزنگ" رہے۔ مغیث ریاض کے والد، محمود خالد ریاض باصلاحیت ڈیزائنر تھے۔ انہوں نے نیشنل کالج آف آرٹس سے ڈیزائن میں گریجویشن کیا اور بعد میں مزید تعلیم کے لیے لندن گئے۔ وہاں انہوں نے گرافک پروڈکشن میں مہارت حاصل کی۔ پاکستان واپسی پر، انہوں نے کچھ عرصے کے لیے این سی اے میں پڑھایا، جہاں انہوں نے فوٹوگرافی اور ڈیزائن کی تعلیم کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت میاں مجید اس شعبے کے مشہور استاد تھے۔ محمود ریاض اس وقت کے واحد برطانیہ سے تربیت یافتہ ماہر تھے اور انہوں نے خاص طور پر فوٹوگرافی میں نئی سوچ اور اعلیٰ معیار متعارف کروایا۔ انہوں نے این سی اے کی زندگی کو تصویری شکل میں محفوظ کرنے میں بھی بڑا کردار ادا کیا۔ اس دور کی کئی سرکاری تصاویر ان کے نام سے منسوب ہیں۔ 1965 کی جنگ کے دوران، انہیں جنگی حالات کی فوٹوگرافی کے لیے تھڑ کے محاذ پر بھیجا گیا جہاں انہوں نے تصویر کشی کی۔
1968 میں، محمود خالد ریاض نے فیروز سنز میں شمولیت اختیار کی، جو لاہور کا ایک مشہور اشاعتی ادارہ ہے۔ انہوں نے وہاں آرٹ ڈائریکٹر اور بعد میں پروڈکشن مینیجر کے طور پر کام کیا۔ ان کی مشہور تخلیقات میں سے ایک فیروز سنز کی انگریزی۔ اردو لغت کا سرورق ڈیزائن کرنا تھا، جو اُس وقت تقریباً ہر پاکستانی گھر میں موجود ہے۔ بعد میں انہوں نے مصوری، پرنٹنگ اور تخلیقی ڈیزائن کے شعبے میں کام کیا، جن میں کیلنڈر، فوٹو پراجیکٹس اور مختلف پرنٹ شدہ اشیاء شامل تھیں۔
بچپن سے ہی فنون کے اس ماحول نے مغیث کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا۔ کم عمری میں ہی آپ نے تصویر بنانے کی خاص صلاحیت دکھائی۔ وہ باغبانپورہ پبلک اسکول میں پڑھتے جو پارسی برادری کے افراد چلاتے تھے۔ اِن کی فطری صلاحیت جلد ہی اساتذہ کو معلوم ہوگئی۔ اساتذہ اکثر اُنہیں بلیک بورڈ پر سیب، کیلا اور نارنگی جیسے پھلوں کی تصاویر بنانے کو کہتے۔ اس مہارت نے اُنہیں کئی اسناد دلوائیں اور وہ خوش دلی سے یاد کرتے ہیں کہ وہ تو امتحانی پرچوں پر بھی تصویری خاکے بنا دیا کرتا تھے جو بعض اوقات ممتحن حضرات کے لیے پریشانی کا باعث بنتے۔
بعد ازاں آپ نے ایف اے باغبانپورہ کالج سے کیا، پھر پنجاب یونیورسٹی سے بی ایف اے اور ایم ایف اے اور ایم فل کی ڈگریاں حاصل کیں۔ مغیث نے اپنی زیادہ تر پینٹنگز میں دریائے راوی کے روحانی اور خاموش ماحول کو پیش کیا ہے۔ وہ دن کے مختلف اوقات میں بدلتی ہوئی روشنی کے ذریعے دریا کے بدلتے مزاج کو بڑے حساس انداز میں دکھاتے ہیں خاص طور پر صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے اور شام کے وقت کی روشنی میں۔ ان کے کام کو دیکھ کر ناظر کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ صبح و شام کی دھند میں لپٹے ہوئے دریا کو خاموشی سے تکتا چلا جائے۔
پاکستانی فن کی تاریخ میں مغیث ریاض کا خاندان ایک معتبر حیثیت رکھتا ہے، اس خاندان نے نہ صرف روایتی فنی اقدار کو محفوظ رکھا بلکہ آج مغیث ریاض اپنے معاصر دور میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور فنی خدمات کے ذریعے اپنے خاندانی ورثے کو نئی جہت دے رہے ہیں اور فن کی اس روشن روایت کو مزید اُجاگر کر رہے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں فنِ مصوری ایک ایسا خاندانی ورثہ ہے۔ یہ تسلسل اس بات کا ثبوت ہے کہ جنوبی ایشیا میں فن صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک زندہ روایت ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ نئے رنگ اور نئی جہتیں اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ عبدالرحمٰن چغتائی، حاجی محمد شریف، صادقین اور مغیث ریاض جیسے فنکار اس تسلسل کی علامت ہیں، جنہوں نے اپنے فن سے ثقافت اور روایت کو زندہ رکھا۔ یہ ورثہ صرف ہنر نہیں، بلکہ اس خطے کی فکری اور جمالیاتی پہچان بھی ہے۔

