Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Anila Zulfiqar
  4. Khwab Kam Khwab

Khwab Kam Khwab

خواب کم خواب

رات بھر جاگنے کی وجہ سے طبیعت بہت بوجھل تھی اور سر درد کی ٹیسوں سے گونج رہا تھا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر کس جرم کی پاداش میں میرے قدم کمرے سے باہر جاتے ہوئے ہچکچا رہے ہیں۔ میں کیوں چور بن گئی ہوں؟ امی مجھے دیکھتے ہی کبھی شرمندہ ہو کر سر جُکا لیتی ہیں، تو کبھی منہ پھیر لیتی ہیں، تو کبھی ہمدرد بن جاتی ہیں۔ لیکن مجھ سے نظریں نہیں ملا پاتیں اور ابو گہری خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔

غرض کہ گھر بھر کے مکینوں کی نظروں میں میرے لیے بیچارگی ہے۔ گھر میں قہقہوں کی رمق مدھم پڑ گئی ہے۔ جیسے زندگی رک گئی ہو۔ گھر میں ہر چیز پر سکوت طاری ہے، جیسے اپنے وجود، اپنے ہونے پر شرمندہ ہوگئی ہو۔ عجیب سی سوگواریت ہے، جیسے کوئی انہونی ہوگئی ہو۔

خوشی اور غم لمحوں میں بدل جاتے ہیں۔ وقت تو رکتا نہیں لیکن اپنے انداز کی تیزی کو ضرور کچھ لمحوں کے لیے روک لیتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو: "سانس لے لو، ٹھہر جاؤ"۔ لیکن ایسے بے کل لمحوں کے سانس بہت بوجھل ہوتے ہیں جو جسم کے ہر حصے کو زخمی کر دیتے ہیں۔ زندگی میں خوشی اور غم شاید لمحوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ لمحوں کی طاقت زندگی کو بھرپور اور لمحوں میں تنہا کر دیتی ہے۔

زندگی ہموار سطح پر رواں دواں تھی، جیسے سمندر کی لہریں دھیمی دھیمی پُرسکون فضا میں سفر پر جا رہی ہوں۔ اچانک تلاطم آ جائے اور کچھ دیر بعد جس زور و شور سے فضا میں پانی کی لہروں نے شور مچایا ہو، وہ لہریں جھاگ بن کر بہہ گئیں ہوں۔ گھر بھر میں ایسا ہی تلاطم آیا، گھر بھر کی مالی و جذباتی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان لہروں کی لپیٹ میں گھر کی ہر جاندار اور بے جان شے آ گئی۔

ہر کوئی اپنے تئیں گھر کی شان و شوکت کو اعلیٰ دکھانے کے لیے انتھک کوشش کر رہا تھا۔ گھر کی آرائش، پردوں، صوفہ پوش، میز پوش سے لے کر گھر کی ہر شے کی از سر نو مرمت کی گئی۔ برتنوں کی چھانٹی کی گئی اور بہترین برتن الگ کر دیے گئے۔ غسل خانوں میں نئی اشیاء، تولیے، صابن دانی سے لے کر لوٹے تک کی جانچ پڑتال کی گئی۔ اس تیاری میں گھر کے لیے کئی نئی چیزیں خریدی گئیں۔ گھریلو بجٹ جو مہینے بھر کے لیے کافی تھا، وہ پندرہ دن میں ہی اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ لیکن ہر کوئی سرشاری کے نشے میں مگن تھا، جیسے خوشیوں کی نوید آ ٹپکے گی۔ ہر کوئی کوشاں تھا کہ میرے رنگ روپ کو چار چاند لگ جائیں، آنے والی نوید مجھ پہ فدا ہو جائے۔ ہر پل، ہر لمحہ میرا من کسی کے آنے کی دستک سے خوابوں کی نگری میں کھو جاتا، جہاں پُرسکون فضا، خوبصورت، جنت نظیر دنیا میری منتظر ہو۔

صبح ہی سے گھر میں گہما گہمی تھی۔ گھر کی صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دی جا رہی تھی۔ ہر شے کو ایسے سنوارا جا رہا تھا جیسے وہ ابھی بازار سے لا کر رکھی گئی ہو، بالکل نئی اور عمدہ۔ لذیذ کھانے بازار سے منگوائے گئے۔ پورا گھر اور گھر کے مکینوں کی تیاری دیدہ زیب تھی۔

گلی میں گاڑی رُکنےکی آواز آئی، سب چُو کنے ہو گئے۔ دروازے پر دستک دینے کی دیر تھی کہ ابو فوراً دروازے کی جانب لپکے۔ پہلی دفعہ ملنے والے مہمانوں کو گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ جلد ہی مہمانوں اور گھر والوں کی شناسائی ہوگئی۔ قہقہوں کی آوازیں آنے لگیں، خاطر تواضع شروع ہوگئی۔ ابو اور امی کا چہرہ مسکرانے لگا۔

انجانی گُدگُدی اور میرے من میں لڈو پھوٹنے لگے۔ آہستہ آہستہ خوابوں کی نگری میں قدم رکھنے لگی۔ منتظر اجنبی مہمانوں کے درمیان آبیٹھی۔

تیز نظریں جیسے میری ذات کے آر پار ہو رہی ہوں اور وہ میرے من کی ہر بات جان لینے کے متلاشی ہوں۔

ہاں، یہاں وہ لمحہ آ گیا جب زندگی کو ٹھہرنا تھا۔ مجھے جیتے جاگتے فرد کی طرح نہیں بلکہ ایک شے کی طرح پرکھا گیا۔ میرا رنگ، روپ، وزن اور قد معیار کے پلڑے میں جانچا گیا۔ تو میں بے وزن تھی، معیار کا پلڑا بھاری تھا۔

گھر بھر کی تیاری، جوش اور ولولے پر ٹھنڈی یخ اوس پڑ گئی۔ سارا گھر سیلا گیا۔ میرا ریت کا گھروندہ، بےرحمی سے مسل دیا گیا اور نا کردہ گناہ کی سزا مجھے سنا دی گئی۔

About Dr. Anila Zulfiqar

Dr. Anila Zulfiqar is a painter, fiction writer, and art teacher. She is an assistant professor in the Department of Fine Arts, University of the Punjab, Lahore. Her creative work is based on the cultural heritage of Lahore, women's experiences, and visual language. She has participated in art exhibitions at national and international levels. Fiction writing and critical essays on art are also important means of expression for her.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam