Janoobi Asia Ki Kala Aur Bartanvi Raj Ki Ilmi Musawari
جنوبی ایشیا کی کَلا اور برطانوی راج کی علمی مصوری (Academic Art)

جنوبی ایشیا کی تہذیب ہمیشہ فنونِ لطیفہ سے جڑی رہی ہے۔ یہاں کی کَلا صرف جمالیاتی اظہار نہ تھی بلکہ معاشرتی اقدار، مذہبی رسومات اور روزمرہ زندگی کا عکس بھی تھی۔ مصوری کو "چتر کاری"، مجسمہ سازی کو "مورتی کَلا" اور رنگوں کو اپنے مخصوص ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔ فن کی تعلیم روایتاً استاد اور شاگرد کے رشتے سے منتقل ہوتی تھی، جہاں مشق اور مشاہدہ اصل بنیاد تھے۔ یہ ایک زندہ روایت تھی جو براہِ راست عوام کی زندگی اور تجربے سے جڑی ہوئی تھی۔
ذرا تصور کریں کہ آپ ایک گاؤں کی گلیوں میں داخل ہوتے ہیں جہاں کسی تہوار کی صبح ہے۔ گھر کی دہلیز پر عورتیں چاول کے آٹے اور رنگوں سے "رنگولی" اور "کولم" بنا رہی ہیں۔ یہ محض نقش نہیں بلکہ دعائیں ہیں اور آنے والے دنوں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار ہے۔ بچے ہاتھوں میں برش اور مٹی کے رنگ لیے دیواروں پر پھول اور پرندے بناتے ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ دھرتی میں کَلا روزمرہ زندگی سے الگ نہیں بلکہ خود زندگی کا حصہ ہے۔
جنوبی ایشیا کی روایتی مصوری علاقائی تنوع اور روحانی علامتوں کی مظہر تھی۔ مغل اور راجپوت منی ایچر، وارلی مصوری، مدھوبنی، کالی گھاٹ، پتچترا اور تنجور اپنی مخصوص رنگ سازی اور تکنیک سے علاقائی شناخت کو محفوظ رکھتی تھیں۔ یہ فنی اسالیب اس خطے کی قدیم تاریخی اقداد سے منسلک ہیں۔
پَٹاچِتر کی ابتدا اڑیسہ میں پانچویں صدی قبل مسیح میں ہوئی، جس کا مطلب سنسکرت میں"کپڑے پر تصویر" ہے یہ فن زیادہ تر مذہبی کہانیوں اور تہواروں سے جُڑا ہوا تھا۔ مغربی بنگال میں یہ فن ایک الگ انداز میں پروان چڑھا۔ وہاں فنکار اسکرول پینٹنگز بناتے اور ان کے ساتھ گانے گاتے۔ یہ اسکرولز ہندو دیومالائی کہانیوں، قبائلی لوک داستانوں اور سماجی موضوعات پر مبنی ہوتے تھےاور انہیں ناظرین کے سامنے کھول کر کہانی سنائی جاتی تھی۔ یوں یہ فن بصری کہانی سنانے کی ایک روایت تھا۔ یہ چتر تہواروں کے جلوس کا حصہ بنتے۔
پِچوائی ایک روایتی فن جو راجستھان کے شہر ناتھ دوارہ سے شروع ہوا۔ یہ زیادہ تر بڑے سائز کی پینٹنگز جو کپڑے پر بنائی جاتیں، لفظ "پِچوائی" سنسکرت کے دو الفاظ "پِچھ"(پیچھے) اور "وائی" (لٹکانا) سے نکلا ہے، کیونکہ یہ تصاویر مندروں میں دیوتا کے پیچھے پس منظر کے طور پر لٹکائی جاتی تھیں۔ ہر تہوار پر پس منظر کی تصویر بدل جاتی ہے۔ یہاں فن زندگی اور عقیدت کا سنگم رہا ہے۔
آندھرا پردیش کی "کلیمکاری کَلا" میں کپڑے پر ہاتھ سے نقش و نگار بنتے ہیں۔ رامائن اور مہابھارت کے مناظر، درخت، پرندے، دیوی دیوتا سب کچھ قدرتی رنگوں سے سجا ہوتا ہے۔ یہ چتر صرف تصویریں نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی داستان ہیں جو ہر تہوار اور شادی میں استعمال ہوتے ہیں۔
راجستھان کے بھوپا قبیلے میں"پھاڈ چترکاری" کو چلتا پھرتا مندر کہا جاتا ہے۔ طویل کپڑے پر مقامی دیوتاؤں کی کہانیاں بنائی جاتیں اور رات کو گاؤں کے بیچ یہ کپڑا تان کر فنکار گانے لگتے۔ تصویریں اور آواز مل کر ایسا سماں باندھتیں کہ تہوار خود کَلا میں ڈھل جاتا۔
بہار کے میتھلا علاقے میں عورتیں گھروں کی دیواروں پر "مدھوبنی کَلا" کے نقش بناتی ہیں۔ یہ کَلا شادیوں، فصلوں اور تہواروں میں لازم سمجھی جاتی ہے۔ مہاراشٹر کی "ورلی کَلا" تو بس دائرے اور لکیروں سے بنی ہوتی ہے لیکن اس میں پورا گاؤں سانس لیتا ہے۔ کھیت، ناچ گانے، شادی بیاہ اور پوجا سب دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سادہ مگر علامتی زبان ہے جو تہواروں کو زندہ کرتی ہے۔
پاکستان کی سرزمین بھی رنگوں سے خالی نہیں۔ سندھ کی "اجرک کَلا" جیومیٹری ڈیزائن کے ذریعے میلوں اور تہواروں کا حصہ ہے۔ پنجاب اور پوٹھوہار میں شادیوں کے موقع پر عورتیں گھروں کی دیواروں پر رنگ سے تصویریں بناتی ہیں۔ باریک کڑھائی والے کپڑے، رلی، خوش رنگ مٹی کے برتن (خصوصاً نیلی مٹی کی کاریگری)، نفیس لکڑی کی نقاشی، ہاتھ سے بُنے قالین، دھات کا کام اور آئینے کا کام شامل ہیں، جو عموماً علاقائی ڈیزائن اور ثقافتی موضوعات کی عکاسی کرتے ہیں۔ وادیٔ کالاش میں لکڑی پر رنگین چتر میلوں اور رسومات کو سجانے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور شہروں میں بسنت کے موقع پر آ سمان رنگ برنگی پتنگ سے بھر جاتا جو بہار کی آمد کی خوشی منانے کا اعلان تھا۔
سندھ کے صحراؤں میں عورتیں مٹی کے گھروں کی دیواروں پر "چونہ کاری" اور رنگ بھرتی ہیں۔ بلوچستان میں اونٹوں پر کی جانے والی "کاشیدہ کلا" اور کپڑوں پر باریک کڑھائی خوشی اور میلوں کا حصہ ہے۔ پنجاب میں میلوں کے موقع پر "پھول کاری"، گھوڑوں کی رنگین آرائش اور دیہاتی دیواروں پر چترکاری جیتی جاگتی مصوری کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ گلگت بلتستان کے گھروں میں کی جانے والی لکڑی کی باریک "نقاشی" اور ہنزہ کی گھریلو گلکاری اپنی ثقافت کی پہچان ہے اور پاکستان کا مشہور "ٹرک آرٹ" سڑکوں کو رنگوں سے بھرتا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ جنوبی ایشیا کی یہ کَلا محض تصویریں نہیں بلکہ تہذیب کی سانس ہے۔ یہاں تہوار صرف گائے نہیں جاتے، بلکہ "چترکاری، مورتی کَلا، رنگولی اور کلیمکاری" میں ڈھل کر منائے جاتے ہیں۔ جہاں بھی جشن ہے وہاں رنگ ہے اور جہاں رنگ ہے وہاں کَلا ہے جو معاشرت، عقیدت اور روزمرہ زندگی کا آئینہ ہے۔ یوں جنوبی ایشیا کی "کلا" کو ہر تہوار، ہر رسم اور ہر دن رنگوں کی زبان میں لکھا جاتا ہے۔ یہ لوک کلا صرف عجائب گھروں تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر لمحے کا حصہ ہے، خواہ وہ دروازے پر بنائی گئی ایک رنگولی ہو یا سڑک پر دوڑتا ایک رنگین ٹرک۔
یہی زندہ روایت برطانوی راج میں کمتر تصور کی گی۔ یورپی اکیڈمیوں کے ڈھانچوں اور اجنبی اصطلاحات، مقامی استاد-شاگردی کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنی۔ جیسے فارسی ماہرین برسوں دربار اور عدالت میں باوقار منشی و مشیر رہے لیکن جب برطانوی دور میں"مقامی زبانوں کا قانون" نافذ ہوا اور فارسی کی جگہ انگریزی اور دوسری زبانیں رائج ہوئیں تو ان کا مقام کم ہو کر محض دوات بھرنے والے اور کاتب تک محدود ہوگیا، ویسے ہی مقامی فنکار اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بنا دیے گئے۔ ان کے پاس رنگ، اسلوب اور اظہار کی بھرپور روایت موجود تھی لیکن اجنبی پیمانوں کے سامنے کمتر ٹھہرے۔
برطانوی راج میں کلکتہ (1854ء)، مدراس (1854ء)، بمبئی (1857ء) اور لاہور (1875ء) میں آرٹ کے ادارے قائم ہوئے۔ ان مدارس میں یورپی فنونِ لطیفہ کی تاریخ اور جمالیات پڑھائی جاتیں، جس کے ذریعے ہندوستانی طلبہ کو مغربی فن کی تحریکوں اور انداز سے روشناس کرایا جاتا تھا۔ تدریسی طریقوں میں پلاسٹر کے نمونوں، جامد اشیاء (Still Life) اور جیتی جاگتی صورتوں سے نقل کرنا شامل تھا۔ طلبہ کو مغربی فنون کی تکنیکیں سکھائی جاتی تھیں جیسے خطی تناسب (Perspective)، سایہ سازی (Shading) اور پیکر تراشی (Modeling)، یونانی طرز کی مجسمہ سازی اور ماڈل ڈرائنگ۔
ان آرٹ کے مدارس کا نصاب یورپی علمی ماڈل پر مبنی تھا، جس میں ڈرائنگ، مصوری اور مجسمہ سازی پر زور دیا جاتا تھا۔ ان کا مقصد مغربی فنون اور اقدار کو فروغ دینا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فنکار ایسے تیار ہوئے جو حقیقت کی عکاسی مغربی معیار کے مطابق کرتے تھے۔ اس عمل میں مقامی روایت پس منظر میں چلی گی۔ یوں وہ فنکار جو اپنی زبان اور علامتوں کے وارث تھے، مغربی پیمانوں کے تابع بنا دیے گئے۔
برطانوی راج کے فنون کے مدارس کا بنیادی مقصد مقامی دستکاری کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنا تھا تاکہ اسے انتظامی اور صنعتی ضروریات کے مطابق استعمال کیا جا سکے۔ ان مدارس میں مقامی ہنر کو نظرانداز کرتے ہوئے مغربی فنی اصولوں کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ برطانوی نظام نے حقیقت نگاری کو "اصل فن" قرار دیا اور مقامی روایت کو پسماندہ دکھایا۔ انیسویں صدی میں جب انگریزوں نے برصغیر پر گرفت مضبوط کی تو مقامی ورثے کو محض دستکاری یا ابتدائی فن کہہ کر کمتر ثابت کیا۔ مقصد یہ تھا کہ یورپی جمالیات کو برتر ثابت کرکے اپنی بالادستی قائم رکھی جائے۔
اس دباؤ کے ردعمل میں بیسویں صدی کے آغاز پر "بنگال اسکول" کی تحریک اٹھی جس نے مقامی تکنیکوں اور روحانی جمالیات کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔ رابندرناتھ ٹیگور اور دیگر دانشوروں نے قومی فن کو پہچان دینے کا بیڑا اٹھایا۔ یہ تحریک دراصل اس سوال کا جواب تھی کہ کیا فن کی پیمائش صرف مغربی اصولوں سے ممکن ہے؟
جنوبی ایشیا ہمیشہ سے ہی فنون کا گہوارہ رہا ہے۔ لیکن برطانوی دور میں یہاں کے لوگوں پر مغربی آرٹ کے اصول اور معیار کو بھرپور پرچار کے ساتھ اعلی قرار دیا گیا اور تاثر یہ دیا گیا کہ مقامی لوگ آرٹ سے ناواقف ہیں، جبکہ اصل بات یہ تھی کہ مغربی زبان اور فن کا اظہار ان کے لیے اجنبی تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس خطے کے لوگ صدیوں سے فن، ہنر اور جمالیات کے ساتھ جیتے آئے تھے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی علامتی زبان اور رنگوں کو پھر سے مرکزی مقام دے سکتے ہیں؟ اور کیا آج کا جنوبی ایشیائی فن اب بھی مغربی پیمانوں کا مرہونِ منت ہے یا اپنی کھوئی ہوئی پہچان دوبارہ پا چکا ہے؟ اصل چیلنج یہی ہے کہ فن کو اس کی جڑوں سے جوڑا جائے تاکہ یہ صرف بصری حقیقت کا نہیں بلکہ تہذیبی سچائی کا بھی آئینہ دار بنے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان روایتی اور مقامی فنون کو صحیح مقام دیا جائے۔ اگر ان فنون کوآرٹ کےاداروں کے نصاب کا حصہ بنایا جائے تو نئی نسل نہ صرف اپنی تاریخ اور وراثت سے واقف ہوگی بلکہ وہ اس روایت کو آگے بڑھا کر ایک مضبوط شناخت بھی قائم کر سکے گی۔

