Fan, Tadrees Aur Insani Huqooq: Salima Hashmi Ka Fikri Safar
فن، تدریس اور انسانی حقوق: سلیمہ ہاشمی کا فکری سفر

سلیمہ ہاشمی کی شخصیت محض ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ ایک فکری روایت کا تسلسل ہے۔ وہ ایک ایسے گھر میں پروان چڑھیں جہاں لفظ محض اظہار نہیں اجتماعی شعور کی علامت تھا۔ ان کے والد، معروف انقلابی اور انسان دوست شاعر فیض احمد فیض، جن کی شاعری نے جبر، استحصال اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی اور سلیمہ ہاشمی کی فکری تربیت کا بنیادی سرچشمہ بنے۔ اُن کے گھر میں ادب، سیاست اور سماجی انصاف پر گفتگو معمول کی بات تھی۔ اسی ماحول نے سلیمہ میں انسانی حقوق، عورت کی آزادی اور برابری کا شعور بیدار کیا۔
آپ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان کے آرٹ کے منظرنامے کو محض وسعت ہی نہیں دی بلکہ اسے فکری گہرائی اور خودمختاری کی جانب گامزن کیا۔ فن کو محض نمائشی اظہار تک محدود نہیں رہنے دیا، بلکہ فن برائے فن کے تصور کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ 14 دسمبر 2025 میں سلیمہ ہاشمی نے اپنی 83ویں سالگرہ منائی، جس کے موقع پر روہتاس 2 گیلری، لاہور میں ایک "اوپن اسٹوڈیو" نمائش منعقد ہوئی۔ اس میں ان کے 2010 سے موجودہ دور تک کے فن پارے پیش کیے گئے۔ سلیمہ ہاشمی اپنے فن مصوری میں مختلف تکنیکیں استعمال کرتی ہیں۔ وہ خاکہ سازی، رنگوں، چسپاں کاری، تصویری عکاسی اور سطحی تجربات کے ذریعے اپنے خیالات کو بصری شکل دیتی ہیں۔ ان مختلف تکنیکوں کے امتزاج سے ان کے کام میں گہرائی، بناوٹ اور علامتی اظہار نمایاں ہوتا ہے، جو ذاتی احساسات کے ساتھ سماجی اور سیاسی شعور کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
سلیمہ ہاشمی نے تقریباً 30 سال نیشنل کالج آف آرٹس (NCA)، لاہور میں تدریس کی اور فائن آرٹس کے شعبے کی قیادت کی۔ بعد میں وہ کالج کی پرنسپل بھی رہیں اور تعلیمی و انتظامی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ بعد میں انہوں نے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی (BNU)، لاہور میں مریم داؤد اسکول برائے بصری فنون اور ڈیزائن قائم کیا، جہاں انہوں نے جنوبی ایشیا میں دور جدید کی بصری فنون کی تعلیم کے لیے نصاب اور بنیادی ڈھانچہ تیار کیا اور وہ BNU میں پروفیسر ایمرٹس بھی منتخب ہوئیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں 1999 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔
بطور استاد انہوں نے آرٹ اسکول کو محض ہنر سکھانے کی جگہ نہیں بلکہ ایک فکری تجربہ گاہ میں تبدیل کیا۔ نئی نسل کو صرف فن کی تکنیکی تربیت نہیں دی بلکہ انہیں سوچنے، سوال اٹھانے اور اپنے معاشرے کو سمجھنے کی صلاحیت سے رو شناس کروایا۔ پاکستانی آرٹ کی تعلیم میں تنقیدی شعور، مقامی شناخت اور عالمی تناظر کو یکجا کیا۔ ان کی رہنمائی میں طلبہ نے فن کو محض جمالیات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے سماجی مکالمے کا ذریعہ بنایا ایسا نظریہ دیا جو فن کو زندگی، سیاست اور سماجی حقیقتوں سے جوڑتا ہے۔
آپ کا کردار محض تدریس تک محدود نہیں۔ وہ ایک سرگرم سماجی کارکن اور ثقافتی شخصیت بھی ہیں۔ انسانی حقوق، عورتوں کے مسائل، اظہارِ رائے کی آزادی اور ثقافتی شناخت کے تحفظ کے لیے ان کی آواز ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ ایک اداکارہ اور ثقافتی کارکن کے طور پر بھی انہوں نے ایسے بیانیے کو فروغ دیا جو جمود کو توڑتا ہے اور معاشرے کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ان کی سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ فن محض تفریح نہیں بلکہ سماجی تبدیلی کا موثر ہتھیار ہے۔
سلیمہ ہاشمی کی خدمات نے پاکستانی فن کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے فنکاروں، خاص طور پر نوجوان اور خواتین فنکاروں کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں اظہار کے مواقع فراہم کیے۔ نمائشوں، مکالموں، تھیٹر اور تحریر کے ذریعے فن کو عوامی سطح پر متعارف کروایا، ان کی کوششوں سے پاکستانی آرٹ نے عالمی سطح پر اپنی شناخت بنائی، جہاں اسے نہ صرف سماجی حوالوں سے بلکہ خالص فنی اقدار کے ساتھ تسلیم کیا گیا۔
سلیمہ ہاشمی نے فن کو ایک آزاد اور زندہ عمل کے طور پر پیش کیا۔ فن کسی نظریے یا دباؤ کا محتاج نہیں۔ اسی وجہ سے آج پاکستان کے آرٹ میں تنوع، تخلیقی جرات اور اظہار کی آزادی نمایاں ہے، جس میں ان کا کردار نہ صرف اہم بلکہ ناقابل فراموش ہے۔

