Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Anila Zulfiqar
  4. Fan Ki Siasat, Barr e Saghir Ki Fanni Riwayat Aur Jadeed Maghrabi Tehreekon Ka Irtiqa

Fan Ki Siasat, Barr e Saghir Ki Fanni Riwayat Aur Jadeed Maghrabi Tehreekon Ka Irtiqa

فن کی سیاست، برصغیر کی فنی روایات اور جدید مغربی تحریکوں کا ارتقاء

جنوبی ایشیا کے آرٹ پر مغربی اثرات کے چرچے کا ذکر کریں تو یہ ایک فطری امر ہے کیونکہ یہ خطہ دو سو سال برطانوی راج کے زیر اثر رہا ہے۔ لیکن کیا اس سے پہلے اس خطے کی اپنی کوئی آرٹ کی تہذیب یا تاریخ نہیں تھی؟ برصغیر ایک ایسا خطہ رہا ہے جہاں فنونِ لطیفہ نہ صرف طرز و اسلوب میں مختلف تھے، بلکہ تکنیک اور موضوعات میں بھی بہت تنوع پایا جاتا تھا۔

یہاں کا فن فطری اور ارتقائی انداز میں پروان چڑھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر علاقے کا اپنا منفرد انداز رہا جو اُس علاقے کے خیالات، سوچ، روایات اور طرزِ زندگی کی نمائندگی کرتا تھا۔ اس خطہ کی تاریخ کو دنیا کے سب سے قدیم اور تہذیبی طور پر اہم خطوں میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں چار مذاہب ہندو مت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت نے جنم لیا۔ ان مذاہب نے اپنی بصری شناخت، روحانیت، تخیل اور علامتی اظہار پر مبنی مصوری، مجسمہ سازی اور فن تعمير کے ذریعے قائم کی۔ لیکن یہاں کا آرٹ محض مذہب تک محدود نہیں تھا۔ ہڑپہ کی تہذیب کا شمار دنیا کی پہلی "دنیاوی" تہذیب میں ہوتا ہے جس کی بنیاد مذہب پر نہیں بلکہ سماجی، معاشی اور فنی ترقی پر تھی۔

ماقبل تاریخ سے ہی ہم یہاں فن کے نقوش دیکھتے ہیں جیسے وادی سون، بھیمبیٹکا کی غاریں، مہرگڑھ اور ہڑپہ کی تہذیب۔ ہڑپہ کی تہذیب نے دنیا میں سب سے پہلے شہری منصوبہ بندی کا تصور متعارف کرایا، تمام انسانوں کو مساوی سہولتیں فراہم کیں اور عملی طور پر ہیومینزم "انسان مساوات" کے تصور کو نافذ کیا۔ جبکہ مغربی دنیا میں"انسان مساوات" کا تصور یونانی تہذیب میں پانچویں صدی قبل مسیح میں اُبھرا، جہاں فلسفیوں نے انسان، اس کی عقل اور اس کے حقوق پر زور دینا شروع کیا۔ ہڑپہ کی تہذیب میں یہ تصور ہمیں 2500 قبل مسیح میں ہی مل جاتا ہے۔

اجنتا اور ایلورا کی غاری مصوری اور مجسمہ سازی، گندھارا آرٹ میں یونانی اور مقامی ثقافت کے امتزاج سے تحلیق ہونے والے مجسمے، جین آرٹ میں مجسمہ سازی کے ذریعے جین مت کے اصولوں اور روحانی تعلیمات کی عکاسی، موریہ دور کا فن ستون، گنبد نما مقبرے، دہلی سلطنت کا فنِ تعمیر اسلامی، فارسی اور مقامی طرزوں کا حسین امتزاج، محرابیں، گنبد، مینار، خطاطی اور نفیس نقش و نگار کی نمایاں خصوصیات رکھتا ہے۔ مغلیہ عہد کا فن شاہی عظمت، نفیس نقش و نگار، باغات، خوبصورت عمارات اور اسلامی، فارسی و ہندُو روایات کے امتزاج کی نمائندگی کرتا ہے۔ غرض کے ہر زمانے میں فنِ مصوری، مجسمہ سازی اورفنِ تعمیر نے ایک منفرد شناخت قائم کی۔

اس خطے کے ہر علاقے کی اپنی مخصوص مصوری کی روایت موجودتھی۔ ان تمام فنون کی تخلیق میں مرد و خواتین دونوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ہاتھ سے کی جانے والی کاریگری اور تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت برصغیر ایک تخلیقی طاقت کا سر چشمہ تھا۔

برصغیر میں انگریزوں کا دور 1757 میں شروع ہوا، جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں کی حکومت اور تجارت پر قابض ہونا شروع کیا۔ 1857 کی تحریک آزادی کے بعد برطانیہ نے براہِ راست حکمرانی کی، اسی وقت برصغیر میں مغل دور کا فن، جیسے مغل منی ایچر، راجستھانی اور پہاڑی مصوری، اپنے عروج پر تھا۔ صدیوں پر محیط ایک تہذیبی ورثہ جسے نوآبادیاتی نظریے کے تحت مغربی مؤرخین اور ناقدین نے "مذہبی"، "غیر سائنسی" یا "کمتر" قرار دیا، تاکہ اپنی تہذیبی برتری کو ثابت کیا جا سکے۔

نوآبادیاتی دور میں برصغیر کے فن کو ایک محدود اور دستکاری کے طور پر پیش کیا گیا، جو یورپی آرٹ کی معیاری تعریف سے کم تر تھا۔ اس تنقید نے مقامی فنکارانہ روایتوں کی اصل گہرائی، روحانی اور ثقافتی پہلوؤں کو نظر انداز کیا۔ بصری حقیقت، قدرتی عکس اور مشاہدے کو ہی "اعلیٰ فن" سمجھا جاتا تھا۔ یہ رویہ ایک ایسا فریم ورک تیار کر گیا جس میں برصغیر کے فن کی اصل روح اور تخلیقی وسعت کو سمجھنا مشکل ہوگیا اور مغربی فن کے معیار کو عالمی معیار کے طور پر مسلط کیا گیا۔

نوآبادیاتی دور میں برصغیر کے فن کو اکثر محض "مذہبی فن" کہہ کر کم تر سمجھا گیا۔ مگر کیا فن کی قدر محض اس کے موضوع سے ہوتی ہے؟ مائیکل اینجلو نے سیسٹائن چیپل پر مذہبی مناظر مصور کیے مگر اُنکو عالمی شاہکار میں شمار کیا گیا۔ تو برصغیر کے فن کی روحانیت، علامتی گہرائی اور تخیل کو نظر انداز کیوں کیا گیا؟

کیا یورپی فن کے معیار کو برصغیر کے فن پر مسلط کرنا جائز تھا؟ جب کہ یہاں کے فنکاروں نے اپنی ثقافت، فلسفہ اور معاشرت کی عکاسی کے لیے منفرد اور تخلیقی انداز اپنایا۔ کیا صرف قدرتی عکس کو فن کی علامت سمجھنا مناسب تھا؟ کیا فن کا مقصد انسانی روح اور خیال کی عکاسی نہیں ہو سکتا؟ تو درحقیقت نوآبادیات کا نظریہ آرٹ "بصری مشا ہدے کا عکس" نے آرٹ کو محدود کر دیا۔

اگر ہم نوآبادیاتی دور کی تنقید اور برصغیر کی فنی تاریخ کا تجزیہ کریں تو ایک دلچسپ تضاد سامنے آتا ہے۔ ایک طرف برطانوی نقاد اور حکام برصغیر کے فن کو کمتر اور غیر ترقی یافتہ قرار دے رہے تھے اس کی تکنیکی مہارت اور فکری گہرائی کو نظرانداز کیا جا رہا تھا، جبکہ دوسری طرف انہیں بین الاقوامی نمائشوں میں پیش کر رہے تھے اور یورپ لے جا کر اپنی آرٹ کی کلیکشنز کا حصہ بنا رہے تھے۔ مقامی فنکاروں کو کمتر سمجھا گیا لیکن اُن کے فن پاروں کو قیمتی خزانے سمجھ کر مغرب میں محفوظ کیا گیا اور اس طرح برصغیر کا آرٹ بتدریج مغربی معا شرے میں متعارف ہوا۔

مغل شہنشاہ جہانگیر کے دور میں منی ایچر مصوری عروج پر تھی اور ان تصویروں کو اکثر مغربی سیاحوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین کو بطور تحفہ پیش کیا جاتا تھا۔ یورپی افراد نے ان نفیس فن پاروں میں گہری دلچسپی لی اور وقت کے ساتھ ان نایاب تصویروں کو یورپ منتقل کیا گیا۔

ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی اور دیگر تجارتی راستوں کے ذریعے یہ منی ایچرز یورپ پہنچے مایہ ناز مصور ریمبرانٹ Rembrandt بھی ان منی ایچرز سے متاثر ہوا اور اپنے فنی کیریئر کے آخری دور میں، یعنی 1650 کی دہائی میں، ڈچ فنکار ریمبرانٹ نے ایسی ڈرائنگز بنائیں جو مغل ہندوستان کی منی ایچر مصوری سے متاثر تھیں۔ یہ واحد موقع تھا جب اس فنکار نے کسی "انتہائی غیر ملکی ثقافت" کے فن پارے کے انداز کو اپنایا۔ ان ڈرائنگز میں مغل بادشاہ، امراء، درباری اور بعض اوقات خواتین اور عام لوگ دکھائے گئے ہیں۔ ریمبرانٹ کی ڈرائنگز میں انداز زیادہ سادہ اور محدود تھا، جس میں زیادہ توجہ شخصیات کے خدوخال اور ان کے "غیر معمولی" چہروں اور ملبوسات پر دی گئی تھی۔ آج تقریباً 23 ڈرائنگز موجود ہیں۔ ان ڈرائنگز سے دنیا بھر کے تجارتی اور ثقافتی تبادلوں کی مثال ملتی ہے۔

18ویں اور 19ویں صدی میں جب برطانیہ نے ہندوستان پر سیاسی اور ثقافتی قبضہ مضبوط کیا، تب انگریز اہلکاروں، مشنریوں اور ماہرینِ فن نے ان فن پاروں کو بڑے پیمانے پر اکٹھا کیا۔ ان فن پاروں کی نمائش لندن، پیرس اور دیگر یورپی شہروں میں کی گئی۔

1851 کی "عظیم نمائش" (Great Exhibition) جو لندن کے مشہور Crystal Palace میں منعقد ہوئی، برطانوی سلطنت کی صنعتی، سائنسی اور فنّی برتری کا مظاہرہ تھی، مگر اس میں برصغیر کے فن پارے غیر معمولی توجہ کا مرکز بنے۔ برصغیر سے آنے والی اشیاء میں بنارسی ریشم، کشمیری شالیں، سونے چاندی کے زیورات، پتھر کی تراش خراش، منی ایچر پینٹنگز، بدھ مت کے مجسمے اور دستکاری کے نادر نمونے شامل تھے یہ فن پارے مغربی دنیا میں محض "نوآبادیاتی عجائبات" کے طور پر نہیں دیکھے گئے بلکہ انہیں علمی، جمالیاتی اور تاریخی قدر و قیمت کے حامل نمونے سمجھا گیا، جس سے برصغیر کے فن کی مغربی تشریح و ذخیرہ اندوزی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

ولیم آرچر، William Archer، جان مارشل، John Marshall ارنسٹ بنیڈکٹ، Ernest Benedict، سر جان فائونٹن (Sir John Fawcett)، سر جارج کورتنی (Sir George Courtney)، سر ولیم ہوئل (Sir William H. Hoey)، جوزف برنر (Joseph Brunner)، جان لاک وُڈ کیپلنگ (John Lockwood Kipling) اور دیگر مؤرخین و کلیکٹرز نے ہندوستانی مصوری، بدھ فن اور ٹیکسٹائل آرٹ کو بڑی تعداد میں جمع کرکے مغربی عجائب گھروں اور گیلریوں کی زینت بنایا۔

ان فن پاروں کو برطانیہ اور یورپ کے عجائب گھروں، لائبریریوں اور تحقیقی اداروں میں محفوظ کرکے نہ صرف نوآبادیاتی طاقت کا اظہار کیا گیا بلکہ انہیں"مشرقی علمیات" (Orientalism) کے تحت علمی تحقیق کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ ان میں کچھ مجموعے ذاتی دلچسپی کے تحت بھی اکٹھے کیے گئے، کیونکہ برطانوی افسران کو ہندوستانی رنگوں، باریکیوں اور روحانیت سے بھرپور فن میں غیر معمولی کشش محسوس ہوتی تھی۔ تاہم، یہ مجموعے محض جمالیاتی رغبت نہیں بلکہ ثقافتی غلبے کی علامت بھی تھے، جنہیں برطانیہ لے جا کر اس بات کا تاثر دیا گیا کہ یورپ اس فن کو "محفوظ" کر رہا ہے۔ ان فن پاروں کی نمائش لندن، واشنگٹن، کوپن ہیگن اور دیگر شہروں کے عجائب گھروں میں آج بھی دیکھی جا سکتی ہے، جیسے کہ فریئر گیلری (واشنگٹن)، برٹش لائبریری، آرٹ انسٹی ٹیوٹ آف شکاگو اور ڈیوڈ کلیکشن (کوپن ہیگن)۔ یوں نوآبادیاتی دور میں فن کی جمع آوری، مشرقی ثقافت کی گرفت اور علمی برتری کا ایک ذریعہ بن گئی۔

کالونیل اینڈ انڈین ایگزیبیشن Colonial and Indian Exhibition مئی 1886ء کو ساؤتھ کینسنگٹن، لندن میں منعقد ہوئی اور یہ چھ ماہ سے زائد جاری رہی، جسے 55 لاکھ سے زیادہ افراد نے دیکھا۔ یہ نمائش برطانوی نوآبادیاتی سلطنت کے مختلف علاقوں سے لائی گئی شاندار اشیاء پر مشتمل تھی اور اسے ولی عہد (پرنس آف ویلز) نے ایک "سلطنتی سبق" کے طور پر منظم کیا تھا تاکہ انگلستان کی طاقت اور عظمت کو ظاہر کیا جا سکے۔ اس نمائش کا سب سے بڑا اور شاندار حصہ ہندوستانی سیکشن تھا، جو 1851ء کی نمائش کے انڈین پویلین سے پانچ گنا بڑا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یورپ میں آرٹ 18ویں اور 19ویں صدی میں"ویژول ریئلٹی" یعنی بصری حقیقت پسندی کی بنیاد پر تشکیل پا رہا تھا، تو پھر 20ویں صدی میں آرٹ کیوں ایک خیالی، داخلی اور علامتی سمت میں چلا گیا؟ کیا مغربی آرٹسٹ نوآبادیات کے آرٹ، خاص طور پر برصغیر کی مصوری، رنگوں کی شدت اور علامتی اظہار سے متاثر ہوئے؟

برطانوی سلطنت اپنی نوآبادیات کے آ رٹ سے متاثر ہوئی۔ پیکاسو Pablo Picasso افریقی قبائلی فن سے متاثر ہوا اور اس کے فن کے ایک دور کو "افریقی آرٹ کا عہد" 1906-1909کہا جاتا ہے۔ کیوبزم (Cubism) اور جیومیٹریکل اشکال کی بات کی جائے تو برصغیر کی علاقائی مصوری کی طرزیں جیسے کالی گھاٹ اور مدھوبنی میں انسانی اور جانداروں کی ا شکال اور اجسام کو اسٹائلائزڈ Stylized، اقلیدسی یا کیوبسٹ طرز سے مصور کیا گیا۔ یورپ میں یہ انداز بیسویں صدی میں"کیوبزم آرٹ موومنٹ" کے طور پر متعارف ہوا، مگر مدھوبنی اور کالی گھاٹ صدیوں پرانی دیسی اور مقامی مصوری کے اسلوب ہیں۔ فیگرز کو انفرادی اور Stylized انداز میں نئی طرز میں اجاگر کرنا برصغیر کے آرٹ کا خاصہ رہا ہے۔ یقیناً مغربی فن میں تبدیلی کا ایک بڑا سبب غیر یورپی تہذیبوں سے اثر پذیری تھا۔

برصغیر کے فنون خوبصورت اور شوخ رنگوں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ جیسے بہار کی مادھوبنی پینٹنگ، جس میں خوبصورت اور پیچیدہ ڈیزائن ہوتے ہیں اور قدرتی رنگ استعمال کیے جاتے ہیں۔ تمل ناڑو کی تانجور پینٹنگ بھی بہت رنگین ہوتی ہے، اس میں سونے کی ورق کاری اور آرائش ہوتی ہے۔ مغربی بنگال کی کالگھٹ پینٹنگ میں موٹے کنارے اور روشن رنگ استعمال ہوتے ہیں۔ اسی طرح وسطی ہندوستان کی گونڈ پینٹنگ میں بھی قدرتی رنگوں سے بنے چھوٹے نقطے اور لکیریں استعمال ہوتی ہیں جو بہت دلکش لگتی ہیں۔

مصوری کے اسالیب میں رنگوں کا استعمال، علامتوں کی کثرت اور دو جہتی کمپوزیشنز نے مغرب کی جدید آرٹ کی تحریکوں جیسے ایکسپریشنزم، (Expressionism (1905، فیووسم (1905) Fauvism اور سرئیلزم (1924) Surrealism کو متاثر کیا؟ مثال کے طور پر، ایکسپریشنزم (Expressionism) میں رنگوں کا بے باک استعمال، داخلی جذبات کی عکاسی اور حقیقت سے بغاوت نظر آتی ہے، جو کہ ہندوستانی مصوری میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ فیووسم (Fauvism) میں تیز اور غیر حقیقی رنگوں کا استعمال، جیسا کہ ہنری ماتیس Henri Matisse کے کاموں میں نظر آتا ہے، کیا یہ برصغیر کی وہ مصوری نہیں جہاں نیلا آسمان کبھی سرخ ہو جاتا ہے اور درخت سبز کے بجائے زعفرانی ہو جاتے ہیں؟ کیا یہ غیر فطری رنگوں کا استعمال مشرقی علامتی فکر سے متاثرہ نہیں ہے؟

سرئیلزم (Surrealism) میں خوابناک مناظر، بے ربط اشیاء اور خیالی دنیا کو مصور پیش کرتا ہے۔ یہ وہی انداز ہے جو قدیم ہندوستانی صوفیانہ فنون میں کئی صدیوں سے موجود تھا۔ جنوبی ایشیائی فن ہمیشہ تصوراتی، علامتی اور داخلی سچائی پر زور دیتے رہے ہیں، جس نے مغربی آرٹ کی "آبجیکٹو ریئلٹی" (Objective Reality) کے خلاف بغاوت کی ایک بنیاد فراہم کی۔

آرٹس اینڈ کرافٹس موومنٹ (Arts and Crafts Movement) جو 1860 کی دہائی میں قائم ہوئی، نے روایتی ہنر مندی، ہاتھ سے بنائی گئی اشیاء اور مقامی ثقافتی ورثے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ولیم مورس (William Morris) کو اس تحریک کا بانی تصور کیا جاتا ہے 1851 کی عظیم نمائش لندن میں ہندوستانی فن و دستکاری نے یورپی فنکاروں کو بہت متاثر کیا۔ ولیم مورس یورپی ڈیزائنر بھی ہندوستانی کپڑے، ڈیزائن اور رنگوں سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے جنوبی ایشیائی روایتی دستکاری کے طریقوں کو اپنے کام میں شامل کیا۔ ان کے مشہور ڈیزائنز جیسے "انڈین ڈایپر"، Indian Diaper "پومیگرینیٹ" Pomegranate اور "لٹل چنٹز" Little Chintz براہ راست ہندوستانی نمونوں سے متاثر تھے۔ جان لاک وُڈ کیپلنگ (John Lockwood Kipling) آرٹس اینڈ کرافٹس موومنٹ کے دور کے ماہر تھے، جنہوں نے ہندوستان میں اپنی ملازمت کے دوران مقامی فنون اور دستکاری کے مختلف قسم کی روایتی ہندوستانی دستکاری، نقاشی اور فنونِ لطیفہ کے نمونے مقامی کاریگروں سے حاصل کیے۔

آرٹ نووو تحریک (Art Nouveau Movement) (1890–1910) یورپ میں فطری اشکال اور پھولوں سے متاثر تھی، لیکن اس میں ہندوستانی فن اور دستکاری کا گہرا اور نمایاں اثر بھی شامل تھا۔ برصغیر کے پیچیدہ نقش و نگار اور ہاتھ سے تیار کردہ نمونے یورپی فنکاروں کے لیے نہ صرف تحریک کا ذریعہ بلکہ تخلیقی ماخذ بھی بنے۔

Aesthetic Movement فن کی ایک تحریک (1900-1860) برطانیہ میں ابھری۔ اس تحریک کا مرکزی خیال تھا کہ فن کا مقصد صرف خوبصورتی پیدا کرنا ہے، نہ کہ اخلاقی یا سماجی پیغام دینا۔ اس تحریک کے فنکار اور ڈیزائنرز نے "فن کے لیے فن" (Art for Arts Sake) کا نعرہ دیا اور فن میں جمالیاتی حسن کو سب سے اہم سمجھا۔ جنوبی ایشیا کے فنون ہمیشہ ہی سے جمالیات کا مظہر رہے ہیں۔

یہ تمام اثرات مغربی آرٹ میں برطانوی راج میں یورپ ہونے والی نمائشوں کے بعد نظر آتے ہیں اور یہ فطری امر ہے کہ فنکار ہمیشہ اپنے گردونواح میں ہونے والے واقعات سے متا ثر ہو تے رہے ہیں۔ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ یورپ صرف نوآبادیاتی دولت نہیں بلکہ فن و ثقافت سے بھی متا ثر ہوئے۔ یہ تحریکیں ہماری توجہ اس امر کی طرف دلاتیں ہیں کہ مغربی جدید فن محض یورپ کے اندرونی نظریات کا نتیجہ نہیں تھا۔ مغربی جدید آرٹ، جو بظاہر انفرادی، غیر روایتی اور داخلی جذبات پر مبنی ہے، درحقیقت کئی مقامات پر مشرقی نظریات، جمالیات اور روایات سے متاثر نظر آتا ہے۔

برصغیر کا فن محض ماضی کی یادگار نہیں، بلکہ مغرب کی جدیدیت کا ایک خاموش معمار بھی ہے۔ اس تاریخی اور فکری ربط کو سمجھنا نہ صرف آرٹ کی تاریخ کو نئے زاویے سے دیکھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ دنیا کی تہذیبی ہم آہنگی کو بھی بہتر انداز میں سمجھاتا ہے۔

About Dr. Anila Zulfiqar

Dr. Anila Zulfiqar is a painter, fiction writer, and art teacher. She is an assistant professor in the Department of Fine Arts, University of the Punjab, Lahore. Her creative work is based on the cultural heritage of Lahore, women's experiences, and visual language. She has participated in art exhibitions at national and international levels. Fiction writing and critical essays on art are also important means of expression for her.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan