Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Anila Zulfiqar
  4. Bhagora

Bhagora

بَھگوڑا

"ارے تم آگئے! تم تو دو ماہ کی چھٹی پر گئے تھے، اتنی جلدی واپس آگئے؟ دو ہفتے بعد ہی؟ کیا ہوا؟ خیریت تو ہے؟ تمہاری تو شادی تھی؟ شادی ہوگئی تمہاری؟"

خدا کے لیے سانس تو لینے دو بیچارے کو! عزیز صاحب بولے۔ "ایک تو تم عورتیں بھی نہ، ہر بات کی کھال اتارتی ہو۔ ہوگی کوئی مجبوری، چھٹی پر گیا تھا تو مصیبت پڑی ہوئی تھی۔ اب آگیا ہے تو کچہری لگا لی۔ یہ کیا، وہ کیا!

بیگم بولیں، لو بھلا میں نے تو صرف پوچھا ہی تھا۔ ہر وقت آپ میرے ہی پیچھے پڑے رہنا اور آپ کو کوئی کام نہیں۔

اچھا، اچھا دو کپ چائے بناؤ۔ موسی! چائے پیو گے نا؟

جی صاحب!" موسی کی آواز یوں آئی جیسے کسی کنوئیں سے بول رہا ہو۔

یار موسی، خیریت ہے نا؟" عزیز صاحب فکر مندی سے بولے۔ "تمہاری رنگت کیوں پیلی پڑ گئی ہے؟ بنگلہ میں ںسب ٹھیک ہے نا؟

جی بابو، سب ٹھیک ہے، مزے میں ہے۔

اور اگلے ہی لمحے وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔

بیگم بولیں، دیکھیں نا، کتنا پریشان لگ رہا ہے، جیسے کسی نے نچوڑ لیا ہو۔ کیسا خوش باش، کھلکھلاتا بنگلہ دیش گیا تھا، کہہ رہا تھا میری شادی ہو رہی ہے، امّاں بہت خوش ہے۔ اپنا ٹھکانا بن گیا ہے اور اب نجانے کیوں چہرہ ہی اتر گیا ہے اس کا۔

عزیز صاحب بولے، اچھا، میں دیکھتا ہوں۔

عجیب اتفاق تھا، عزیز صاحب گھر کے جس کمرے میں جاتے، جہاں موسی ہوتا، وہ فوراً جگہ بدل لیتا۔ جیسے پکڑائی ہی نہیں دے رہا ہو۔

چائے تیار ہوئی تو عزیز صاحب نے آواز دی۔

"موسی، چائے پی لو!"

"صاحب، من نہیں۔ "

"اچھا ٹھیک ہے۔ "میری بات ہی سن لو۔

وہ کمرے میں آتے ہی فرش پر بیٹھ گیا، جیسے برسوں کا تھکا ہوا ہو۔

عزیز صاحب بولے، "میں نے تمہیں تین روز پہلے ہی کالج میں دیکھ لیا تھا۔ اب تو انتظامیہ بڑی خوش ہوگی کہ تم جلدی آگئے۔ "

جی صاحب، ایئرپورٹ سے سیدھا کالج ہی گیا تھا۔

کیوں بھائی، اتنی کیا جلدی تھی؟ کالج کے بغیر اُداس ہو گئے تھے کیا؟

نہیں صاحب، من ہی چاہ رہا تھا، اس لیے سیدھا کالج آگیا۔

اور تمہارا سامان؟

میرا سامان؟ میں تو سب کچھ بنگلہ میں چھوڑ آیا۔

ارے امّاں ٹھیک تھیں تمہاری؟ اوہ ہو! اب سمجھ آیا۔ نئی نویلی بیگم یاد آ رہی ہے، اس لیے دل نہیں لگ رہا!

ساتھ ہی عزیز صاحب ہنس پڑے۔ "کوئی نہیں یار، شروع شروع میں ایسا ہی ہوتا ہے، پھر سب ٹھیک ہو جاتا ہے"۔

کون سی بیگم صاحب؟ موسی بولا

ارے تم شادی کے لیے نہیں گئے تھے؟

جی بابو، شادی کے لیے گیا تھا۔ لیکن مہندی کی رات لڑکی بھاگ گئی!

کیا؟ لڑکی بھاگ گئی؟ ارے کیوں بھئی؟ وہ تو تمہارے ماموں کی لڑکی تھی!

نہیں صاحب، وہ کہتی ہے میں "بَھگوڑا" ہوں۔ شادی کے بعد بھاگ جاؤں گا، ابھی نو سال بعد آیا ہوں۔ پھر نجانے کب واپس آؤں۔ مجھے ایسے بَھگوڑے سے شادی نہیں کرنی اور ساری زندگی انتظار کی سیج پر نہیں گزارنی۔

موسی نے ایک لمبی آہ بھری اور بولا صاحب: "میرا سارا بچپن اور جوانی یہ جملہ سنتے ہی گزر گئی، کام کرو، زندگی ڈگر پر آ جائے گی۔ میں نے ساری جوانی زندگی کو ڈگر پر لانے کے لیے قربان کر دی۔ لیکن زندگی نے ایسی قلہ بازی ماری ہے کہ ڈگر کا رُخ ہی بدل گیا۔ دھن، باڑی، ناڑی کے حصول کے لیے، مجھے نہیں پتا میں نے نو سال کیسے گزارے۔ چھٹی کب ہوتی ہے، عید کب آتی ہے، تہوار کیسے منائے جاتے ہیں۔ مجہھے کوئی پرواہ نہیں۔ پردیس کی راتیں بہت لمبی اور گہری ہوتی ہیں۔ دن بھر کام کرنے کے بعد بھی نیند نہیں آتی۔ ہمیشہ پودے کو بھی نئی زمین میں جڑ بنانے اور کھڑے ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ہر پل امّاں کی آواز سنائی دیتی ہے، کبھی محلے کی رونق، کبھی بہن بھائیوں کی ہنسی یاد آتی ہے۔ نیند کے پنچھی تو دیس میں ہی رہ جاتے ہیں۔ پھرآہستہ آہستہ آنسو بھی خشک ہو جاتے ہیں، صرف اس خواب پر کہ زندگی ایک دن ڈگر پر آ جائے گی۔

گھر میں خوشی کے شادیانے بج رہے تھے، امّاں خوشی سے نہال تھی، بہن بھائی اترائے پھر رہے تھے، مٹھائیوں کے تھال سجے تھےلیکن بابو، میں وہاں نہیں تھا۔ میرا وجود، میرا نام، میری پہچان سب ختم ہوگئی۔ کچھ بھی ویسا نہ رہا، نہ رشتے، نہ ناتے۔

میرے عزیزوں کو لگتا تھا جیسے میرے وجود سے پیسے جھڑتے ہوں گے۔ میرے اٹھنے بیٹھنے سے نوٹ برستے ہوں گے۔ ہر کوئی طلب گار تھا۔ میری پہچان بس اتنی رہ گئی کہ میں باہر سے آیا ہوں اور خوب پیسہ کماتا ہوں۔

اور صاحب، وہ صحیح کہتی تھی۔ میں بَھگوڑا ہوں۔

میں اُسے یہاں لا نہیں سکتا، وہاں خاکروب کی نوکری کر نہیں سکتا۔

ہاں میں گلی، گلی، نُکڑ نُکڑ جھاڑو پھیروںگا، صفائی کروں گا، پیسہ کماؤں گا۔ زندگی کو ڈگر پر لانے کے لیے نہیں، سب کو خوش کرنے کے لیے۔ رعب ڈالنے کے لیے۔

صاحب! اندھی بانٹے گی، کتے کھائیں گے

اور میں؟

دو دیسشوں کا کتّا

بَھگوڑا

About Dr. Anila Zulfiqar

Dr. Anila Zulfiqar is a painter, fiction writer, and art teacher. She is an assistant professor in the Department of Fine Arts, University of the Punjab, Lahore. Her creative work is based on the cultural heritage of Lahore, women's experiences, and visual language. She has participated in art exhibitions at national and international levels. Fiction writing and critical essays on art are also important means of expression for her.

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz