Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Anila Zulfiqar
  4. Aik Lamha, Teen Zaviye

Aik Lamha, Teen Zaviye

ایک لمحہ، تین زاوئیے

آرٹ ہمیشہ ہی سے اپنے وقت کا نمائندہ رہا ہے اور وقت کے ساتھ تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ جو آنے والی نسلوں کو گزرے زمانے کے حالات، سوچ اور فکر سے آگاہ کرتا ہے۔ حال ہی میں پاکستان نیشنل کونسل برائے آرٹس میں ایک نمائش منعقد ہوئی جس کا عنوان "وقت کا ایک لمحہ" منتخب کیا گیا۔ نمائش میں رکھے گئے فن پارے، مصوروں کی معاشرتی، ثقافتی، سیاسی، روز مرہ زندگی اور فطری منظر کے موضوعات میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ در حقیقت یہ تصاویر دیکھنے والوں کیلئے گزرے وقت کے لمحے ہیں جن کو مصوروں نے رنگ، شکل اور احساس کے ذریعے ہمیشہ کیلئے محفوظ کر لیا ہے۔

یہ نمائش مکتلف پس منظر اور شہروں سے تعلق رکھنے والے تین مصوروں کے فنی سفر کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرتی ہے۔ ہر مصور اپنا جداگانہ نظریہ اور خیالات رکھتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آرٹ میں قدر مشترک ہے کہ وہ "انسانی تجربات" ہیں جن کو مصور احساسات، تاثرات کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ موجودہ نمائش میں ہر فنکار نے اپنے ذاتی تجربے، ماحول، فطری مناظر، ثقافت اور تاریخ کو بیان کیا جاتا ہے جو انسان سے جڑے ہیں۔

وقت، یاداشت اور تجربے کی کسوٹی پر آرٹ تخلیق ہوتا ہے اور ناظر ان آرٹ کے شاہکاروں سے ماضی، حال اور مستقبل کی کڑیوں کو ملاتے ہیں اور جمالیاتی ذوق کے ساتھ شعور کی دہلیز بھی عبور کرتے ہیں۔ نمائش میں ملک کے تین مایہ ناز مصوروں نے اپنا کام رکھا۔ جن میں ڈاکٹر راحت نوید مصور، جمی انجینئر اور آمنہ پٹوڈی شامل ہیں۔ تینوں مصوروں کے فنکارانہ اسلوب، موضوعات ایک دوسرے سے منفرد ہیں۔ جس کی بنا پر ناظر کے لئے نمائش دلچسپ ہے۔ ہر فنکار انفرادی سوچ اور اندازِ فکر کو نمایاں کر رہا ہے۔

ڈاکٹر راحت نوید کے کام کے موضوعات میں "خود نگاری" یعنی مصورہ کے اپنے زندگی کے مختلف ادوار کے پوٹریٹس شامل ہیں۔ ہر پوٹریٹ اپنے زمانے کی عکاسی کر رہا ہے۔ اُن کا آرٹ درحقیقت مصورہ کی سوانح حیات کو بیان کرتا ہے۔ جو ان کی زندگی کے ہر دور، فیشن، عمر کے ساتھ بدلتے چہرے کے تاثرات، ظاہر کر رہا ہے تو کہیں مصورہ کا روحانیت کے ساتھ تعلق کو اُجاگر کرتا ہے۔

راحت نوید مسعود کا فنی سفر تقریباً چار دہائیوں پرمحیط ہے۔ وہ تقسیم ہند کے بعد پیدا ہوئیں اور اُن کا تعلق اُس پہلی نسل سے ہے جنہوں نے ملک کی ابتدائی جدوجہد کو قریب سے دیکھا۔ اُن کے والد مایہ ناز وکیل، سیاستدان اور سماجی کارکن تھے۔ عوامی معاملات اور سماجی خدمت میں سرگرم عمل تھے۔ اُن کا گھر سیاستدانوں اور مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا مرکز تھا جہاں ادبی، سماجی اور سیاسی اجلاس ہوتے تھے۔ بچپن میں وہ ان مکالموں کو سنتی تھیں اور قانون، قیادت اور سماجی تبدیلی کے باہمی تعلق کو براہ راست محسوس کرتی تھیں۔ یہ تجربات اُن کے نقطہ نگاہ کی تشکیل میں اہم ثابت ہوئے۔

راحت نوید مسعود پاکستان کی پہلی مصورہ ہیں۔ جنہوں نے بڑی تعداد میں اپنے پوٹریٹس تخلیق کئے۔ آرٹ کی تاریخ میں سیلف پورٹریٹ یعنی "خود ساختہ تصویر" ایک دلچسپ موضوع رہا ہے جب کوئی فنکار اپنی تخلیق کرتا ہے تو وہ صرف اُس کے چہرے، نقش اور ساخت پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ اُس کے پس منظر میں، فکری، جذباتی اور حساساتی تاثرات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ تاریخ میں پچھلی کئی دہائیوں سے فنکار خود کو آرٹ میں پیس کر رہے ہیں اور ہر دور میں اِس فنکارانہ اسلوب کے پس منظر میں مختلف اسباب اور محرکات کار فرما رہے ہیں۔ سب سے بنیادی پہلو کہ فنکار خود کو تصویر میں پیش کرکے اپنی شناخت کا اظہار چاہتا ہے۔

راحت نوید کے اکثر پوٹریٹس میں خودی کی تلاش کا فلسفہ نمایاں نظر آتا ہے۔ میں کون ہوں یہ شاید انسانی تاریخ کا سب سے پرانا سوال ہے۔ فنکار جب خود کو دیکھتا ہے تو وہ نہ صرف چہرہ دیکھتا ہے بلکہ روح کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ راحت کے پوٹریٹس میں بھی یہی کیفیت نظر آتی ہے جو بہت گہری اور پیچیدہ ہے۔ مصورہ کیلئے یہ خود شناسی کا ذریعہ ہیں تو دیکھنے والے کے لئے بیتے زمانے کے حالات، تجر بات سے آگاہی حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں۔

آمنہ پٹوڈی اپنی فنی تخلیق کے بارے میں کہتی ہیں کہ اُن کا فن خوشی اور غمی کے باہمی تعلق سے عمل میں آتا ہے۔ جذباتی اور احساساتی لمحے مصورہ کے فنی اظہار کی وجہ بنتے ہیں۔ ان تجربات کی بنا پر وہ فن پارے مصور کرتیں ہیں جو خالصتاً آمنہ کے ذاتی، انفرادی اور وجدانی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

تخلیقی عمل کی کیفیت کو جاننا، تخلیق کاروں کیلئے ہمیشہ ہی سے ایک پیچیدہ سوال رہا ہے۔ بعض اوقات اپنی تخلیقات میں فنکار ایسے انکشافات کرتے ہیں اور اس طرح کے خیالات، الفاظ اور علامات کا اظہار کر دیتے ہیں جو محسوس ہوتا ہے کہ ذاتی تجربے اور علم کا حصہ نہیں بلکہ با وقتِ تخلیق اس طرح لپک جاتے ہیں جو تخلیق کا رُخ ہی بدل دیتے ہیں۔ اس کیفیت کو الہامی یا باطنی تجربہ کہا جاتا ہے۔ جو ذات کی نا گزیر گہرائیوں سے وجود میں آتا ہے۔

آمنہ پٹوڈی کا فن پارہ "غزہ"میں انسانیت کی فریاد کو افراتفری اور تباہی کے درمیان اُجاگرکیا گیا ہے۔ رنگوں کو جذباتی، نفسیاتی کیفیت کی علامت کے طور پر مصور کیا گیا ہے۔ تاریکی، خوف، غم کے ساتھ اُمید کی کرن بھی پھوٹتی ہے جو بتاتی ہے کہ مشکل کے بعد آسانی ہے۔ اُن کے فن پارے ورثے، شناخت اور روحانیت جیسے موضوعات کو اُجاگر کرتے ہیں۔ جن میں روایتی اور جدید تکنیکوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔

جمی انجینئر پاکستان کے معروف مصور، سماجی کارکن ہیں۔ ان کا فن تاریخی اور انسان دوستی جیسے موضوعات پرمبنی ہے۔ تقسیم ہند کے مناظر ان کی پہچان بن چکے ہیں۔ جو انہوں نے متاثر کن تفصیل سے پیش کیئے۔ جمی انجینئر کے آرٹ کا مقصد تخلیق کرنا نہیں بلکہ سماجی شعور کو بھی اُجاگر کرنا ہے۔

جمی انجینئر اپنی زندگی اور آرٹ کی تخلیق کے حوالے سے کہتے ہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا مصور اللہ پاک کی ذات ہے اور میں ہمیشہ اللہ پاک سے متاثر رہا ہوں۔ میں خود کو اپنے آپ کو آرٹ کا طالبعلم سمجھتا ہوں۔ جب تک زندہ ہوں سیکھتا رہوں گا اور خود کو بہتر بناتا رہوں گا۔ میں خود کو پاکستان کا خادم کہتاہوں کیونکہ میں ساری زندگی اپنے ملک کی خدمت کے لئے کوشاں رہا ہوں۔

جمی انجینئر کے فن پاروں نے برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے واقعات کو تصویروں میں محفوظ کیا ہے۔ یہ تاریخ کے وہ واقعات ہیں جو لاکھوں لوگوں کی قربانی، ہجرت، جدائی اور دکھوں کی داستان سناتے ہیں۔ مہاجرین کے قافلے، خونریز فسادات اور بے گھری کے درد کو انتہائی حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ تصاویر ماضی میں عوام کی قربانیوں کی یاد دہانی کرواتی ہیں۔

نمائش میں رکھے گئے فن پارے وقت کے وہ لمحے ہیں جو تخلیق کا باعث بنے۔ جو انفرادی، فطری اور وجدانی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ نمائش اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ناظر نمائش گاہ میں ذاتی، سیاسی اور تاریخی تجربہ کو دیکھتے ہوئے انسانی زندگی کی مختلف کیفیتوں کو محسوس کرتاہے، جن کو تخلیقی لمحوں نے کینوس کی سطح پر محفوظ کر دیا ہے۔

About Dr. Anila Zulfiqar

Dr. Anila Zulfiqar is a painter, fiction writer, and art teacher. She is an assistant professor in the Department of Fine Arts, University of the Punjab, Lahore. Her creative work is based on the cultural heritage of Lahore, women's experiences, and visual language. She has participated in art exhibitions at national and international levels. Fiction writing and critical essays on art are also important means of expression for her.

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari