Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Ahmed Batth
  4. Nafsiyati Masail Aur Hamare Ravaiye

Nafsiyati Masail Aur Hamare Ravaiye

نفسیاتی مسائل اور ہمارے رویے

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں پر اگر ہمیں کوئی بھی ذہنی طور پر پریشان شخص مل جائے یا اگر کوئی شخص کسی ماہر نفسیات کے پاس محض اس غرض سے جارہا ہو کہ اس کی پریشانی ختم ہوجائے تو ہم اسے فورا پاگل کا خطاب دے دیتے ہیں ذہنی پریشانوں کا اگر بر وقت علاج نہ کروایا جائے تو وہ بڑھ کر ہمیں پاگل ضرور بنا سکتی ہے۔ اس لئے یہ سوچ کہ لوگ کیا کہیں گے ہمیں ماہر نفسیات سے مشورہ کرنے سے خود کو روکنانہیں چاہیے۔

زندگی کے جس دور میں ہم شب روز گزر رہے ہیں یقینا مادی لحاظ سے انتہائی ترقی یافتہ دور ہے جو سہولتیں دور قدیم میں بادشاہوں کو بھی نصیب نہ تھی وہ آج ایک عام آدمی کو بھی میسر ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ کئی الجھنوں، نفسیاتی بیماریوں اور معاشرتی مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے ماہرین نفسیات کہتے ہیں سماجی اور معاشی مسائل ہی بیماریوں کا پیش خیمہ ہیں۔ انسانی نفسیات کا انحصار اس کے اردگرد کے ماحول پر منحصر ہے، کچھ لوگ بہت جلد غصہ کر جاتے، کچھ مزاج کے تھو ڑے کڑوے ہوتے، کچھ کو جلد رونا آ جاتا۔ کسی انسان کا رویہ اس بات کی گواہی ہوتی ہے کہ وہ کس قسم کی آب و ہوا میں سانس لیتا ہے اس کے آس پاس رہنے والے افراد کن خصائل کے حامی ہیں اور اسے جن مسائل کاسامنا ہے وہ کس نوعیت کے ہیں۔

حقیقت میں روز مرہ زندگی میں ہماری چھوٹی چھوٹی چیزیں یا انتخاب بھی ہمارے مزاج پر بہت زیادہ اثرات مرتب کرتے ہیں ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا فرد ڈپریشن میں مبتلا ہے۔ عام اصطلاح میں ذہنی تناو کو ڈپریشن کا نام دیا جاتا ہے ڈپریشن ذہنی تناو کی وہ علامت ہے جو کسی بھی فرد کو عمر کے کسی بھی حصے میں ہوسکتی ہے یہ ذہنی دباو ہر انسان کے لیے مختلف ہو سکتا ہے۔ عام حالات وواقعیات میں پیدا ہونے والی الجھنوں اور مسائل سے انسان کے مزاج پر جو بوجھ پڑتا ہے اسے ڈپریشن کہتے ہیں یہ بوجھ اگر وقتی نوعیت کا ہوا تو زیادہ پریشانی کی بات نہیں اور اگر یہ کفیت تسلسل سے جاری رہے تو یہ انسانی نفسیات کو شدید متاثر بھی کر سکتی ہے۔

ڈپریشن کی علامت میں بے چینی طبیعت کا بو جھل پن بغیر کسی وجہ کے غصہ آناچڑچڑا پن نیند کا نہ آنا یا بہت زیادہ نیند آنا بھی ڈپریشن کی علامت ہو سکتی ہے ڈپریشن میں مبتلا افراد تنہائی کا شکار ہو نے لگتے ہیں۔ خود کشی کا بڑتا ہوا رجحان ڈپریشن کی ہی علامت ہے۔ کوئی بھی ایسا رویہ جو اضطرابی و بے چینی کے سبب رونما ہونفسیاتی بیماری کی ابتدائی شکل ہے۔ علم نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کے ڈپریشن میں مبتلا رہنے کی ایک سے زیادہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مالی مسائل تعلیمی مشکلات، خاندانی الجھنیں، معاشرتی نا ہمواری کسی بھی فرد کو ڈپریشن میں مبتلا کر سکتی ہیں نفسیاتی مسائل کی ایک بڑی وجہ والدین کا بچوں کے سامنے گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑا بھی ہے جس سے بچے لازمی طور پر متاثر ہوتے ہیں اور مختلف نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

نفسیاتی مسائل رہن سہن اوربنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کی وجہ سے بھی پیدا ہو سکتے ہیں بہتر طرز زندگی اور بہتر تربیت انسان کی کردار سازی میں اہم ثابت ہوتی ہے اس کی شخصیت میں ٹھہراو اور بردباری پیدا کرتی ہے۔ اس کو پر اعتماد بناتی ہے اور معاشرتی و مالی مسائل کو حل کرنے میں مدد کرتی ہے۔ جبکہ جن لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں ان میں جلن، حسد، بغض اور دوسروں پر ناجائز تنقید کرنے جیسے نفسیاتی امراض پیدا ہوتے ہیں جو کہ پاگل پن اورخودکشی جیسی کفیت کو جنم دیتے ہیں کوئی بھی نفسیاتی مسائل سے نمٹنے کے لئے بہت ہمت کے ساتھ ساتھ افراد خانہ کا مثبت رویہ بہت مدد گا ثابت ہو سکتا ہے اگر آپ کو لگے کہ کوئی ایسا مریض آ پ کے اردگرد موجود ہے تو اسکو سمجھنے کی کوشش کریں اس کی دلجوئی کریں اسے تنہائی کا احساس نہ ہونے دیں اس کو ہمت دیں حدیث کے مطابق کسی مریض کی عیادت عین عبادت ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی نے فرمایا کہ رسول پاکﷺنے فرمایا "تم کسی مریض کے پاس جاو تو موت کے بارے میں اس کی فکر کو دور کر دو اس لئے کہ یہ بات اس کے دل کو خوش کر دے گی "حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مریض سے کہا جائے کہ آپ فکر نہ کریں، انشاء اللہ آپ ٹھیک ہو جائیں گے آپ زندہ رہیں گے ایسی باتیں نہ کی جائیں جو اس کے دل کو تکلیف پہنچانے والی ہوں یا اس کے فکرواندیشہ میں اضافہ کرنے والی ہوں اس حدیث میں انسان کے نفسیاتی پہلو کو سامنے رکھا گیا ہے۔ ہر انسان کو چاہیے کہ اپنے گھر، محلے، آفس میں موجود ایسے لوگون سے محبت سے پیش آئے ان سے گفتگو کی جائے ان کو احساس دلایا جائے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ایسا رویہ نہ اپنا یا جائے جو نفسیاتی مسائل میں اضافے کا سبب بنے۔

ایسے امراض سے چھٹکارہ پانے کے لئے خاندان اور قریبی دوستوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر دوستوں اور خاندان والوں کی بھرپور توجہ حاصل ہو تو آدھی سے زیادہ بیماری تو ویسے ہی ختم ہو جاتی ہے ایسے مریض کو چاہیے کہ ورزش معمول بنائے، نماز پڑھنے کی عادت اپنائے خود کو زیادہ سے زیادہ مثبت کاموں میں مصروف رکھے، اگر نفسیاتی مسائل بڑھنے لگیں تو فورا ماہر نفسیات رابطہ کریں، ہر انسان کی یہ اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرے حسد، بغض اور جھوٹ سے خود کو بچا کر اور سادہ زندگی کو اپنا کر بہت سی نفسیاتی بیماریوں سے بچا سکتاہے۔

Check Also

Wo Shakhs Jis Ne Meri Zindagi Badal Dali

By Hafiz Muhammad Shahid