Aik Minute
ایک منٹ
ایک منٹ رکیے گا ذرا! بات تو سن لیں۔
کل رات کچھ مصروف تھا تو ایک منٹ بھی نہ مل سکا کہ اس بدقسمت حادثے کے متعلق کچھ سوچ سکوں لیکن اب سحری کے بعد بیٹھا ہوں تو رہ رہ کے خیال آ رہا وہ ایک منٹ بلکہ کئی ایک منٹ جو ہم ہنسی، مزاح اور ٹھٹھے میں ضائع کر دیتے ہیں اور کبھی سوچا بھی نہیں انکے متعلق، لیکن کہیں ان 60 سیکنڈوں کو میزان میں رکھو تو زندگی بھی ہلکی محسوس ہوتی ہے۔
دراصل بات کچھ یوں ہے کہ ہم طالبعلم ذات لوگوں کی زندگی میں ایک منٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے بلکہ یوں کہیے کہ ہمارے 90 فیصد کام تو آخری ایک منٹ کے کندھوں پر ہی منزل تک پہنچتے ہیں۔ ہم زندگی کا ایک عرصہ امتحانی مراکز اور پیپر سنٹر میں گزارتے ہیں جہاں ہماری وقت کے ساتھ جنگ چل رہی ہوتی، اصل مسئلہ یہ نہیں کہ پیپر نہیں آتا بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ کچھ آتا تو ہے نہیں اب یہ 3 گھنٹے کیسے گزریں گے، لیکن پھر جیسے ہی وہ تین گھنٹے گزرتے ہیں اور پیپر واپس کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے تو نا جانے کہاں سے جوابات کی یوں آمد ہونے لگتی ہے گویا کتاب ہم نے ہی لکھی تھی اور ہر طرف سے آواز گونجتی ہے
"سر بس ایک منٹ اور"
انصار نقوی (طیارے میں سوار صحافی) کا بیٹا کل جب باپ کے نقش قدم پر چلتا ہوا ماس کمیونیکیشن کا امتحان دینے بیٹھا ہوگا اور اسے بھی آخری وقت پر یوں ہی جواب یاد آئیں گے کہ کتاب اسی کی تو لکھی ہوئی ہے لیکن میں سوچتا ہوں کہ جس کے باپ کو ایک منٹ کی مہلت نہ ملی وہ بدقسمت کیسے کہے گا
"سر بس ایک منٹ اور"
فوجی اداروں میں ڈسلپن ہی تو سب سے اہم ہوتا ہے، جب آرڈر آ گیا تو یس سر کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہی موجود نہیں پھر ایک منٹ کا تو سوال بھی پیدا نہیں ہوتا، بالاچ لاشاری (طیارے میں سوار کیڈٹ) نے بھی جب سامنے دیکھا کہ موت کھڑی ہے تو ایک منٹ توقف کے بغیر موت کو گلے لگا لیا ہو گا لیکن اسکی ماں کہ جو منحوس کرونا کے باعث بیٹے کی پاسنگ آوٹ پریڈ میں نہ جا سکی اور آج بیٹا پہلی دفعہ افسر بن کر گھر آ رہا تھا، ساری زندگی ان الفاظ کی کشمکش میں گزار دے گی۔
"بس ایک منٹ اور"
اس بدبخت طیارے کے حادثے میں بچ جانے والے خوش بخت ظفر مسعود اب اپنی نسلوں کو بھی بتاتے رہیں گے کہ کیا قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے جب سوال ہو:
"بس ایک منٹ اور"
سینکڑوں افراد کی زندگیاں داو پہ لگا دی اس ایک منٹ نے اور قدرت کا کھیل دیکھیے کہ ایک منٹ پہلے آپ چاہے افطار کی میز پر لینڈ کر جائیں لیکن روزہ افطار نہیں کر سکتے، ادھرتو ایک منٹ بھی نہ دیا کہ لینڈ ہی کر جاتے۔
اب کیا لکھوں کہ یہ تحریر میرے آوارہ خیالات ہیں، بھئی اگر ایک منٹ اس بدقسمت طیارے کو مل جاتا تو شائد یہ ہمارے امتحانی کمرے کا پہلا ایک منٹ ہوتا جب میں کچھ نہ لکھ پاتا۔
اب میں فجر ادا کرلوں کہ قدرت تو ایک منٹ بھی نہیں دے گی اور میری نماز قضا ہو جائے گی۔