Ye Middle Class Muhabbat Karne Wale
یہ مڈل کلاس محبت کرنے والے
یہ جو مڈل کلاس کے والدین ہوتے ہیں۔ یہ محبت کے نام پر زندگی اپنے لیے مشکل بھی بناتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی۔ ان کی محبتیں یہ " مت کرو، وہاں مت جاو، وہ لڑکا ٹھیک نہیں" یہ روکنے کی ہر محبت کا بھرپور اظہار ایسے ہی کرتے ہیں اور کرتے بھی اتنے بھونڈے طریقے سے کہ سامنے والے کو لگے کہ اس پر مسلسل شک کیا جا رہا ہے۔ ان کی محبت سے شک نکال دیں تو لگے گا کہ انہیں محبت ہی نہیں۔
یہ محبت میں بالکل بھی expressive نہیں ہوتے۔ محبت بھی ڈانٹ ڈپٹ کو لازم جانتے ہیں، پیسے تو دے رہی ہوں مگر حساب ایک پیسے کا لے لوں گی۔ جب خود کماو گے تو پوچھیں گے؟ ادھر بچہ گیا اور ادھر دعاؤں کی قطار لگا دی۔ صندوقچی میں صدقے کے پیسے ڈال دیئے۔
یہ ایک دوسرے کے لیے زندگی بھر قربانیاں دیتے ہیں مگر شرماتے ہیں کہ اس کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ قربانیوں میں کسی بہانے سے خود کو غائب یا زیادہ سے زیادہ مائنس کرنا چاہتے ہیں۔ بیٹا جوگرز کی فرمائش کرے تو پیسے جمع کرتے رہتے ہیں۔ وہ تو فرمائش کرکے بھول جاتا ہے مگر جن کے کانوں میں یہ فرمائشی پڑھتی ہے۔ وہ تو یادداشتوں کی ایک کان ہوتی ہے۔ مہنگے والے جوگرز لے آتے ہیں۔ کتنے کے ہیں؟ یہ بھی نہیں بتاتے، کہاں سے لیے؟ تو اصل بات نہیں بتاتے۔ ارے وہ کیا ہے کہ اتفاق سے آفس والے مجیب صاحب اپنے بیٹے کے لیے لے رہے تھے۔ مجھے ایک دم تمھارا خیال آ گیا۔ زیادہ مہنگے نہیں۔ ابھی پیسے نہیں دیئے ہیں۔
بھائی بہن کو سلائی کی ایک ریل لا کر نہیں دے گا۔ سہیلی کی گھر نہ لے جانے کے سو سو بہانے بنائے گا۔ اسے چڑانے کے لیے سو طرح کے نام رکھے گا۔ بس نہیں چلے گا کہ بس گھر میں رہے۔ بہن بھائی پر ایسے نظر رکھے گی جیسے ماں ہو، بھائی کی ہر وہ جھوٹی سچی شکایت لگائے گی کہ جس سے بھائی برائی سے بچا رہے۔
میاں بیوی کا کیس سب سے دلچسپ ہوتا ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر سارے شوہر یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ محبت وغیرہ کچھ نہیں۔ شادی ہوگئی، بچے ہو گئے اچھے سے گزارا ہو رہا ہے۔ بیوی بھی دن بھر کام میں جٹی رہتی ہے۔ محبت کے بول بول لینے کا وقت اس کا پاس بھی نہیں۔ جو وقت ہے وہ بھی گھر کی اندرونی سیاست میں اس کے ساتھ ہونے والی بپتا سنانے میں گزر جاتا ہے۔
گھر میں سب جمع یوں تو شوہر بیوی کی طرف کم ہی دیکھتا ہے اور اس سے بھی کم بات کرتا ہے۔ بیوی تو خیر شوہر کو ایسی اچٹتی نظر سے دیکھتی ہے جیسے کوئی پڑوس کا آدمی گھر میں آ گیا ہو۔ سب کو چھوڑیں اگر شوہر پر نزاع کا عالم ہو اور سب کھڑے یوں۔ یہ اس وقت بھی بیوی سے کم ہی بات کرتا ہے۔ اس خیال سے کہ اس پر بیوی کو فوقیت دینے کا الزام نہ لگ جائے۔
میاں بیوی کی محبت اس وقت کھلتی ہے جب کوئی بیمار پڑتا ہو۔ یہ کم بخت اسے بھی محبت کے خانے میں نہیں جانے دیتے، کہتی ہے، اب ان کی طبیعت اتنی خراب ہے۔ پتہ نہیں، بچوں نے گھر کا کیا حال کیا ہوگا۔ دیکھا یہاں بھی بات گھوما گئی۔ سب کو چھوڑیں، خدا سے دعا مانگتے وقت بھی کسی گوشے میں یہی چھپا ہوتا کہ خدا کو بیوی کی شوہر سے محبت کا پتہ نہ چل جائے۔
شوہر تو کبھی رومانس پرور ہو جاتا ہے لیکن بہت زیادہ نہیں۔ اسے شبہ ہوتا کہ زیادہ رومانس جیب پر بھاری پڑے گا۔ اگر کبھی کسی کی شادی میں غلطی سے دونوں کی تصویر ساتھ کھنچ رہی ہو تو میاں بیوی سے اتنا فاصلہ رکھتا ہے جیسے بائی چانس بس میں برابر کی سیٹ پر دو انجان مسافر ساتھ ہو گئے ہوں۔ محبت کو ریکارڈ پر لانے تو گویا ان کے ہاں جرم ہے۔ فیملی فوٹو ہو تو ہلکا سا مسکرا لیتے ہیں۔
میرا اپنا خیال ہے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ یہ سالوں سے ایسے ہی ہیں۔ جتنا سمجھا لیں یہ محبت کی زبان سمجھتے نہیں ہیں کیونکہ بات وہی ہے کہ یہ محبت بھی نفرت اور اجنبیت کے انداز میں کرتے ہیں۔ اسے پوری زندگی چھپا کر رکھتے ہیں۔
ان کے ہاں تو بچوں سے بھی ڈانٹ کر بات کرنا محبت اور اپنائیت کا کھلم کھلا اظہار ہے۔ یہ تو بچے کی پیدائش پر بھی سکڑے سکڑائے، نامعلوم سی شرماہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ پہلا بچے کی پیدائش ہو اور اگر کوئی پوچھ لے تو پہلے ہلکا سا مسکراتے ہیں، نظریں جھکاتے ہیں۔ دونوں ہاتھ ہلکے سے مسلتے ہوئے کہتے ہیں: بس وہ۔۔ ہوگیا۔
ہم کیسے لوگ ہیں جن سے محبت کا حق ہے، جن پر محبت کا حق ہے۔ ہم ان سے ہی اپنی محبت کو چھپاتے ہیں۔