Wo Khud Aik Raaz Lekin Apne Bandon Ka Sab Se Bara Raazdar Hai
وہ خود ایک راز لیکن اپنے بندوں کا سب سے بڑا رازدار ہے

میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب میں میٹرک میں تھا۔ وہ مغرب کے وقت ہماری گلی سے گزرتے۔ سب ہی لڑکوں کو سلام کیا کرتے۔ چہرے پر بشاشت نہ تھی لیکن وہ اسے مسکراہٹ سے ڈھانپ لیا کرتے تھے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ وہ دفتر سے واپسی پر بس اسٹاپ سے اتر کر ہم سے اگلے بلاک میں اپنے گھر جایا کرتے ہیں۔
لگتا تھا کہ کسی ادارے میں کلرک وغیرہ ہوں گئے۔ وقت کے ساتھ عمر ڈھلی تو پینٹ شرٹ کی جگہ شلوار قمیض نے لے لی۔ عمر چہرے پر عیاں ہونے لگی۔ سلام سے آگے کبھی کلام نہ ہوا تھا۔ میں نے محلہ چھوڑ دیا۔ ان میں ایسی کوئی یاد رکھنے والی بات ہی نہ تھی۔ کبھی ان کا خیال ہی نہ آیا۔ نام تک تو جانتا نہیں تھا۔
ایک دن مجھے مل گئے۔ سر پر ٹوپی، سفید شلوار قمیض، ہلکی ہلکی داڑھی۔ پہلے تو میں پہچان نہیں پایا۔ وہ مجھے پہچان گئے تھے مگر نظر انداز کرنے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں خود ان کے پاس گیا۔ انہوں نے کتراتی نظروں سے مجھے دیکھا مگر میں تو ان کی نظروں میں گھسا جا رہا تھا۔ ان کو سالوں بعد دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی تھی۔
قریب ہی پارک تھا۔ میں انہیں وہاں لے گیا۔ حال احوال پوچھا تو بولے: اوپر والے کا شکر ہے۔ آواز میں نقاہت سے زیادہ اداسی تھی۔ میں نے پوچھا: کیا کرتے ہیں؟ بولے: ریٹائرڈ ہو گئے۔ چپراسی گئے، چپراسی آئے۔ یہ مجھے پہلا جھٹکا تھا کیونکہ چہرے و لباس سے وہ کم از کم کلرک تو دکھتے تھے۔
مزید جاننا چاہا۔ کچھ دیر مجھے دیکھتے رہے پھر شاید انہیں یقین ہوگیا کہ اب ملنا کہاں ہوگا۔ گویا ہوئے: بیٹی کو طلاق ہوگئی۔ بچے شادیوں کے بعد بیویوں کے ہو چلے اور چلے گئے۔ اب گھر میں بیوی، بیٹی، نواسی اور میں ہوں۔ گھر کی گاڑی جیسے تیسے چل رہی ہے۔ میں نے پوچھا۔: یہاں کیسے انا ہوا؟ کہنے لگے: وہ ایک صاحب کے پاس کام سے آیا تھا۔ وہاں سے نکلا، سامنے مسجد ہے۔ بس ابھی وہاں سے نماز پڑھ کر باہر ایا اور تم میرا مطلب ہے آپ مل گئے۔
میں نے کچھ دیر ان کے چہرے اور سر پر موجود سفید ٹوپی کو غور سے دیکھا تو میرے دیکھنے کے انداز کو سمجھ گئے۔ بولے: اپنوں نے دور کیا تو پھر میں اس کے پاس چلا گیا جو ہر وقت میرے ساتھ ہوتا ہے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ انہوں نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی۔ میں نے کہا: یہ احساس کب ہوا؟ جواب آیا: جب تک دنیا داری میں رہے۔ کام چلتا رہا۔ ہمیں خدا رمضان میں یا جمعے کے جمعے یاد آیا۔ وہ بھی بس روایتی طریقے سے۔ ڈھنگ سے، دل سے دعا تک نہیں مانگی۔ وہ دے رہا تھا۔ ہم اسے بھولے بیٹھے تھے۔ حالات نے پلٹا کھایا تو ہمیں خدا یاد آیا۔ وہ بھی اپنے حالات سے چھٹکارا پانے کے لیے۔ نماز دعا کی لالچ میں پڑھنے لگے۔
ان کی باتیں اور انداز بیان بڑا سحر انگیز تھا۔ بولے: پریشانی میں نماز شروع کی اور سمجھا کہ دو تین روز میں ہی سب کچھ سنبھل جائے گا۔ دل کو عبادت میں سکون تو ملا لیکن مسئلہ بلکہ یوں کہو مسائل حل نہیں ہوئے۔۔ میں نے نماز کے ساتھ تسبیحات اور دعائیں شروع کر دیں لیکن بات وہیں کی وہیں رہی۔ اس کی حکمت کا کبھی نہیں سوچا۔ بس اپنی دعاؤں کے جلد از جلد قبول ہونے کی فکر میں رہا۔
ایک مولوی صاحب نے کہا عبادت خشوع و خضوع کے ساتھ کیا کرو۔ اس دوران کچھ بھی مت سوچا کرو۔ میں نے نماز پڑھی اور خدا سے کہا: مالک میں خشوع وخضوع کہاں سے لاؤں؟ گھر میں پانچ لوگ ہیں۔ آمدنی اتنی کم ہے کہ مہینے کا سامان ا جائے تو بڑی بات ہے۔ تیرے حضور اپنا کیس ہی تو لے کر آتا ہوں۔ ذہن وہیں اٹکا رہتا ہے۔ اتنی یکسوئی نہیں لا نہیں پاتا کہ نماز مسئلوں سے خالی ہو۔
معاملہ چلتا رہا۔ اکثر خود سے سوال کرتا اور اپنی عقل کے مطابق خدا کی طرف سے جواب دیتا۔ کبھی تو خود کو مطمئن کر دیتا اور کبھی نہیں۔ بہت گھبرا جاتا تو خدا سے شکوے شکایت شروع کر دیتا۔ اگر کوئی میرے یہ شکوے شکایت سن لے تو میرا گلا ہی پکڑ لے۔ ایک دن میں نے خدا سے کہا: مجھے بتا میں تجھ سے نہ کہوں تو کہاں جاؤں۔ تو شاید مجھ سے ناراض ہو جاتا ہو۔
میں نے کہا: کیا آپ مایوس ہو گئے ہیں؟ فوراََ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولے: نہیں بھائی خدا کی رحمت سے مایوسی تو کفر ہے۔ میں اداس ہو جاتا ہوں تو پھر شکوے شکایت کرتا ہوں۔ انسان خدا سے نہیں کہے گا تو کس سے کہے گا؟ آپ تو ماشاء اللہ پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ ایک بات بتائیں۔ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ حال کہتے ہیں۔ وہ دوا دیتا ہے۔ افاقہ نہیں ہوتا تو اسی کو جا کر بتاتے ہیں۔ کبھی کبھی مرض بڑا ہو تو علاج میں وقت لگتا ہے۔ اب اگر میرا خدا ابھی اتنا نہیں دے رہا جتنا میں مانگ رہا ہوں تو میں اپنی بات تو کروں گا۔ کچھ دیر خاموش ہو کر بولے لیکن میں نے اب یہ کہنا چھوڑ دیا ہے۔ اصل میں میری دور کی نظر کمزور ہے بلکہ ہے ہی نہیں۔ وہ اگر میری پوری دعا قبول نہیں کر رہا تو اسے معلوم ہے ناں، کب کیا اور کتنا دینا ہے۔
چلتے چلتے میں نے پوچھا: آپ کا نام کیا ہے؟ بولے عبد الرحیم۔ اب تم بتاؤ وہ مجھ پر رحم نہیں کرے گا۔ ہاتھ ملاتے ہوئے ایک عجیب بات کہہ گئے: وہ زیادہ دے۔ کم دے اس کی مرضی۔ میرے لیے یہی بڑے اطمینان کی بات ہے۔ وہ میری سب سنتا ہے لیکن کسی کو اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا۔ وہ خود ایک راز ہے لیکن اپنے بندوں کا سب سے بڑا رازدار ہے۔
عبد الرحیم صاحب چلے گئے لیکن مجھے خدا، بندہ اور دعا سمجھا گئے۔ کتنے ہی ذہن میں پھنسے سوالوں کے جواب دے گئے۔ یہ جو سمجھانے کی عطا انہیں ملی ہے۔ یہ فقط قرب خدا سے حاصل ہوتی ہے۔

