Wo Barishon Mein Phone Karne Wale Kya Hue?
وہ بارشوں میں فون کرنے والے کیا ہوئے؟
سالوں پہلے کی بات ہے۔ کراچی میں صبح سے بارش ہورہی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت بڑھتی چلی جارہی تھی۔ شام کو اس کے بابا (والد مرحوم) کا فون آگیا۔
بابا: ہاں میاں۔۔ ابھی تک آفس میں ہو؟
وہ: جی بابا!
بابا: بس اب گھر آنے کی کرو۔ سارا شہر جھل تھل ہو رہا ہے۔ گھٹنوں گھٹنوں پانی جمع ہے۔
وہ: مجھے پتہ ہے۔
بابا: کیا پتہ ہے۔ باہر نکل کر سڑکوں کا حال دیکھا ہے۔ ابھی میں بڑی مشکلوں سے گھر پہنچا ہوں۔ تمھارے علاوہ سب بچے گھر آچکے ہیں۔
وہ: آپ فکر نہ کریں۔ میں کسی نہ کسی طرح آ جاؤں گا۔
بابا: کیسے آجاو گے؟ روڈ پر بسوں ٹیکسیوں کا نام و نشان نہیں اور ایک بات تو بتاو؟ یہ گاڑی گھر پر سجانے کے لئے لی ہے کیا؟ اتنے پیسے ہیں کہ رکشہ ٹیکسی میں آسکو۔
وہ: ہو جائیں گے۔
بابا: جیب میں ہوں گے تو ہوں گے۔ بارش کا زمانہ ہے۔ گھر سے زیادہ پیسے لے کر نکلا کرو۔ تمھاری یہ بے دھیانی کی عادت جائے گی نہیں۔
وہ: بابا میں نے کہا ناں ہو جائیں گے۔ آفس میں کوئی موٹر سائیکل والا کہیں راستے میں اتار دے گا۔
بابا: کہہ دیا ہے اس سے۔ کہیں وہ تمھیں چھوڑ ہی نہ آئے۔
وہ: جی جی کہہ دیا ہے۔
اب بابا کا غصہ ذرا تھمتا تو کہتے: سنو تمھاری ماں نے آلو بھرے پراٹھے بنائے ہیں۔ تم آجاو گے تو پکوڑے بھی تل لیں گے۔ بارش رک جائے تو بیوی بچوں کو لے کر آسکو تو آ جاتا۔ گھر پہنچتے ہی فون کرنا کہ گھر پہنچ گئے۔
***
ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ٹیلی فون آپریٹر نے کہا کہ آپ کی وائف کا فون ہے۔
اہلیہ: ارے آپ ابھی تک آفس میں ہیں؟
وہ: بس نکلنے کی کررہا ہوں۔ بابا کا فون بھی آیا تھا۔ امی نے آلو بھرے پراٹھے بنائے ہیں اور پکوڑے بھی تل رہی ہیں۔
اہلیہ: اچھا تو کیا سیدھے وہیں جائیں گے؟ اور میں نے جو آلو کا رسا اور پوریاں بنا کر رکھی ہیں۔ پہلے بتانا تھا۔
وہ: پہلے کیا بتاتا۔ ابھی بتایا ہے بابا نے۔
اہلیہ: بابا کا فون دو مرتبہ یہاں بھی آچکا ہے۔ آپ کا پوچھ رہے تھے۔ پانچ مرتبہ آفس کال کر چکی ہوں۔ اب کہیں جا کر نمبر ملا ہے۔ آپ کو تو خیال ہی نہیں آتا۔ گھر میں بیوی بچے اکیلے ہوں گے۔
وہ: ارے بس۔۔ کیا بتاوں کال کرنے کی سوچ رہا تھا۔
اہلیہ: اچھا سنیں۔ پھر میں بچوں کو بھی تیار کرا دیتی ہوں۔ اپنی گاڑی پر ہی چلیں گے؟
وہ: ہاں بھائی بارش میں کون سی سواری ملے گی۔
اہلیہ: تو یہ گاڑی گھر میں کھڑی کرنے کے لئے لی ہے کیا؟ عجیب آدمی ہیں آپ بھی۔ گھر میں گاڑی ہے اور صاحب بسوں میں آ جا رہے ہیں۔ میں تو کہتی ہوں بیچ ہی دیں۔
وہ: بابا بھی یہی کہہ رہے تھے۔
اہلیہ: اچھا بس فون رکھیں اور آنے کی کریں۔ سنیں! واپسی پر تھوڑی دیر کے لئے میں اپنی امی کے ہاں بھی ہو لوں گی۔
***
موسلادھار بارش آج بھی ہورہی ہے۔ سڑکوں پر پانی بھی بہت جمع ہوگا۔ وہ آفس میں ہے اور موبائل فون اس کے ہاتھ میں ہے۔ ایک اشارے میں کال مل سکتی ہے لیکن وہ جانتا ہے اب یہ کالز نہیں آئیں گی۔ زمانہ آگے چلا گیا ہے۔ اس کے چاھنے والے یہ لوگ ایسی جگہ جا سوئے ہیں جہاں ٹیکنالوجی تمام تر ترقی کے باوجود نہیں پہنچ سکتی۔
ہنس ہنس کے سناتی ہے جہاں بھر کے فسانے
پوچھیں کبھی تیرا تو رو پڑتی ہے بارش
ڈانٹ بھری محبت کے ساتھ، ہلکی سی ناراضگی میں رچی محبت کے ساتھ۔
وہ بارشوں میں فون کرنے والے کیا ہوئے؟