Toham Parasti Se Kab Niklenge?
توہم پرستی سے کب نکلیں گے؟

نہیں۔۔ تو تم سے پوچھ کون رہا ہے؟
ہمارے ابا بننے کی کوشش مت کرو!
اب تم ہمیں بتاو گے کہ کرنا کیا ہے؟
میں نے گھر میں یہ جملے بہت سنے ہیں اور جب تک زندہ ہوں امید رکھتا ہوں کہ عورتوں سے اسی طرح جھاڑ کھاتا رہوں گا۔ اب ایسا کیا ہے یہ کچھ سننے کو ہر بار ملتا ہے؟ یہ ہے گھر کی تقریبات میں بقول چچی "بے تکا" بولنا۔ آپ مت گھبرائیں مجھ جیسی بے ٹکی مخلوق ہر گھر میں پائی جاتی ہے اور خوب سنتی ہے اور باز نہیں آتی ہے۔
شادی میں مختلف تقاریب ہوتی ہیں۔ ہمارے خاندان میں شادی کے دوران سب سے اہم جھاڑو ہوتی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جھاڑو دینے کا مسئلہ ہوتا ہوگا؟ بالکل نہیں صغری ماسی زندہ باد۔ جھاڑو کو خود پتہ نہیں ہوتا کہ سب سے بے قیمت چیز جو ایک کونے میں پڑی رہتی ہے، سب کی نظر آتے جاتے اسی پر ہوتی ہے۔ اگر وہ لیٹی ہے تو فکر مکاوا اور اگر جھاڑو کھڑی ہے تو شور مچ جاتا ہے۔ کوئی بھی اسے فوراََ لٹا دیتا ہے۔ ایک ایک سے پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ بڑی بوڑھیوں کے چہروں پر اضطراب ہوتا ہے۔ ایسے میں ہم جیسا کوئی جائے تو ہنس کر پوچھے اس میں کیا قیامت آ گئی۔ کسی بچے نے کر دی ہوگئی مگر ہماری کون سنتا ہے۔ فوراََ صدقہ دیا جاتا ہے۔ دعائیں پڑھی جاتیں اور جو دونوں میں سے کوئی کام نہیں کرتیں، مزید ڈراتی ہیں: بس ایک ہی دعا ہے سب ساتھ خیریت کے ہو جائے۔ ساتھ ہی ایک دو ہولناک قصے سناتی ہیں۔
آپ ہوچھیں گے کہ کھڑی جھاڑو سے کیا ہوتا ہے؟ تو جناب کھڑی جھاڑو سے یہ وہم پلتا ہے کہ یہ بہت بڑی بدشگونی ہے۔ شادی کے گھر میں کوئی موت واقع ہو سکتی ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ایک کھڑی جھاڑو زندگی موت کا فیصلہ کرے گی؟
ایک گھر میں ڈھولکی ہو رہی تھی۔ لڑکیاں شادی بیاہ کے گیٹ گا رہی تھیں۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ ایک دم لڑکیوں کی مدھر کھنکتی اور دل موہ لینے والی آوازیں "ہائے اوی" میں تبدیل ہوگئیں۔ امیر خسرو کا گیٹ "اماں مورے باوا کر بھیجو ری" گایا ہی رہی تھیں کہ گھر میں روز کی آنے والی بلی صاحبہ مانو بھی کیٹ واک کرتی آ گئی اور ڈھولکی "ہولکی"۔ میں تبدیل ہوگئی۔ مانو کو بھگایا لیکن وہ روز کی آنے والی پھر آ دھمکی اور دھمکی دی کہ میں تو آوں گی۔ بالاخر فیصلہ ہوا کہ مانو نہیں مانے گی۔ ایک بچے نے اس بلی کو پکڑا اور صحن میں مرغی کے ڈربے میں نظر بند کر دیا۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ شادی بہت کامیاب ہوگئی۔ بس جناب عورتوں نے کہا کہ بلی کو مرغی کے ڈربے میں بند کرنا نیک شگون ہے۔ اس دن سے اس خاندان میں شادی ہو تو ڈھولکی والے دن ایک مرغی کا ڈربہ لایا جاتا ہے اور ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک بلی قید کردی جاتی ہے جس کی رہائی ڈھولکی کے بعد ہوتی ہے۔ جس کو اصل عمر قید ہونی ہوتی ہے وہ برات والے روز سہرا بندھنے تک آخری بار کھلا پھر رہا ہوتا ہے۔
یہ رسم تو اکثر خاندانوں میں عام ہے کہ لڑکے کی سہرا بندھائی کے وقت سات سہاگنوں کے ماتھے پر سہرا دو ایک سیکنڈ کے لیے لگایا جاتا ہے اور اگر بیچ میں کوئی بیوہ عورت کھڑی ہو تو اسے نظر انداز کرکے ساتھ والی عورت کے ساتھ یہ عمل انجام دیا جاتا ہے۔ میں نے خود ایک ایسے موقع پر ایک خاتون کی آنکھوں میں پیچھے پٹتے ہوئے نمی دیکھی ہے۔ کیا خوشی کے موقع پر کسی انسان کی اس سے بڑی کوئی تذلیل ہو سکتی ہے۔ کیا بیوہ ہونا اس کے اختیار میں تھا جو یہ کریہہ طرز جہل اختیار کیا جائے؟ ویسے بھی دنیا میں بیواوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کس کس کو ہٹائیں گے۔
اگر کسی گھر میں موت ہو جائے تو سوئم والے دن 7 لوگائیاں (سہاگنیں) پان کی گلوری منہ میں رکھ کر دروازے سے باہر جا کر تھوکتی ہیں۔ اس وہم کے تحت کہ اب اس گھر میں مزید کوئی موت واقع نہ ہو۔ مراد موت کا فرشتہ اس گھر کا رستہ نہ دیکھ لے۔ بھائی عقل کو ہاتھ لگائیں کیا پان تھوکنے سے بھی موت ٹلی ہے۔ صدقہ دیں تاکہ سب کی سلامتی رہے۔
کچھ گھرانوں میں ایک ایسی رسم ہے کہ جو میں نے دیکھی تو نہیں ہے (خدا کا شکر ہے) مگر اس کا آنکھوں دیکھا حال سنا ہے۔ شوہر کے انتقال کے تیسرے روز یعنی سوئم کے آخر میں بیوہ کو ایک کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ سب عورتیں جمع ہوتی ہیں، بھائی آکر بہن کے سر پر سفید چادر ڈالتا ہے اور اس وقت جو آہ و بکا اور سسکیاں ہوتی ہیں وہ شوہر کی میت اٹھنے سے کسی طرح کم نہیں ہوتی ہیں۔ ممکن ہے اس سفید چادر ڈالنے کے عمل میں عفت و پاکیزگی کا کوئی نکتہ یا توجیہہ ہو مگر جو طریقہ کار ہے وہ انتہائی دلسوز ہے۔
میں کلچر مخالف بالکل نہیں، اس میں زندگی کے بہت سے دلفریب رنگ ہیں۔ بہت رنگا رنگی ہے بس ان میں سنگینی نہ ہو۔ عقائد سے متصادم نہ ہوں۔ ہر وہ رسم و رواج جو عقل کے پیمانے پر پورا نہ اترے اور محض توہمات واہیات سے زیادہ کچھ نہ ہو۔ سب سے بڑھ کر کسی انسان کی توہیں یا تذلیل ہو رہی ہو۔ اسے ٹرک کر دیں۔ ہر خاندان میں نہ جانے ایسی کتنے رسم و رواج ہوں گے جن کی تعداد ممکن ہے لاکھوں میں نکل آئے لیکن ہم ان سے کب نکلیں گے؟
ہم کب بدلیں گے؟ مجھے نہیں معلوم؟ وقت کا انتظار کرتے ہیں لیکن وقت تو کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ خوشی اور غم تو زندگی کا حصہ ہیں لیکن رسم و رواج کی یہ حصے داریاں؟

