Suno, Tum Sare Mard Aik Jaise Hote Ho
سنو، تم سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہو

مجھے اس کی کھلتی رنگ، تراش خراش بہت پسند تھی۔ وہ میرے ساتھ خوب سجتی۔ جو بھی اسے میرے ساتھ دیکھتا، دیکھتا رہ جاتا۔ مجھے لگتا سب میرے بہانے سے اسے دیکھ رہے ہیں۔ وہ کبھی کبھی مجھے چھیڑتی اور کہتی: میرے بہانے سے تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ میں ناراض ہوتا تو اور قریب آ جاتی اور میں اپنی ناراضی بھول جاتا۔
میری ماں کو شروع میں تو وہ بہت اچھی لگی مگر آئے دن اس کا ساتھ میرے ماں کو زہر لگنے لگا۔ جل کر کہتیں: اگر اس سے ہی اتنا عشق تھا تو باقیوں کو کیوں لے کر آئے تھے۔ نکال پھینکو گھر سے باہر۔ کیوں گھر میں جمع کر رکھا۔ دے دو۔۔ تو کسی اور کا بھلا ہو۔ میں اس کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلتا۔ کبھی کبھار میرے دوست مجھے چھیڑنے کے لیے اسے ہاتھ لگتے، اس سے چھیڑ چھاڑ کرتے تو میرا موڈ آف کا جاتا۔ لگتا وہ بھی سمٹ سمٹ جا رہی ہے۔
میں ماں کی سنتا ضرور مگر مانتا نہیں۔ میں باقیوں کو بھی اپنی رضامندی سے لایا تھا۔ ماں کو تو لانے کے بعد بتایا اور اپنے کمرے میں لے گیا۔ کبھی کسی نے ماں سے میری شکایت نہیں کی مگر ماں کی انصاف پسندی یہ تھی کہ سب کو برابر موقع دو۔
وہ میری پسندیدہ تھی۔ اس لیے جب بھی ماں کے ہاتھ چڑھتی تو اس کا بھرکس نکال دیتی۔ پہلے کوٹتی اور پھر وہ رگڑا دیتی ہے کہ اس کی جان نکال دیتی۔ جگہ جگہ سے مسلی ہوئی ہوتی۔ میں اسے تسلی دیتا۔ گرمی سے، نرمی سے، تسلی سے اسے پھر سے پہلے جیسا کر دیتا۔ وہ خوش ہو جاتی۔ چاھے کوئی بھی دیکھے وہ مجھ سے چپکی رہتی۔
یہ سنجوگ زیادہ دن نہ چلا۔ ایک دن ماں نے کہا کہ اب اس میں پہلی جیسی بات نہیں رہی ہے اور واقعی ایسا ہی تھا۔ اب وہ، وہ نہ رہی تھی۔ اس کی چمک دمک کا سورج غروب ہو چکا تھا۔ میرا بھی اس سے دل بھر چکا تھا۔ پھر ایک دن میں خاموشی سے اس سے الگ ہوگیا۔ اب کوئی اور مجھے پسند آ گئی تھی۔ میری ماں بھی اسے پسند کرتی تھی۔ اب اس کا میرا ساتھ چل رہا ہے۔
ایک دن وہ مجھے پرانے کپڑوں کی گھٹری میں مل گئی۔ میلی کچیلی، بے پناہ سلوٹیں۔ جگہ جگہ سے اڑا ہوا رنگ۔ عجیب سی بدبو آ رہی تھی۔ پہلے تو میں پہچان بھی نہیں پایا۔ لگا کہ کہیں دیکھا ہے۔ سیدھا کیا تو سب کچھ یاد ا گیا لیکن پھر اس کی بوسیدگی اور بدبو ناقابل برداشت ہو چلی تھی۔ میں نے جلدی سے اسے گھٹری میں واپس رکھ دیا۔ اس نے بس اتنا کہا: سنو! تم سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہو۔

