1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Azmi/
  4. Sunen, Aaj Kya Pakaun

Sunen, Aaj Kya Pakaun

سنیں، آج کیا پکاوں

گزرے دنوں میں ماں باپ کی کھانے پر نوک جھونک کھانے سے زیادہ مزا دیتی تھی۔ روز صبح آفس جاتے تو ماں پوچھتیں: سنیں، آج کیا پکاوں؟

باپ: (آفس جانے کا رعب) مطلب۔۔ میں اب آفس جاتے ہوئے آپ کو بتاوں کہ کیا پکے گا؟

ماں: کیسی باتیں کرتے ہیں۔ رات پوچھوں تو کہتے ہیں۔ یہ کوئی پوچھنے کا وقت ہے۔

باپ: (ہاتھ میں گھڑی لگاتے ہوئے) مجھے ہو رہی ہے دیر جو جی میں آئے پکا لینا۔

اب باپ رات کو کھانے کی میز پر بیٹھے ہیں۔ ماں نے پہلے مصالحے والی بھنڈی لا کر رکھی۔ اس کے بعد آلو گوشت اور تھوڑے سے دوپہر کے بچے دال چاول۔ باپ نے سب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ اب جو باپ کے جی میں آئے وہ کہا جائے گا۔

باپ: (جھنجھلاہٹ سے) اب اس میں سے، میں کیا کھاوں؟

ماں: (بڑی چاہ سے) سب آپ کے لیے ہے جو چاھیں کھا لیں۔

باپ: (چڑ کر) مطلب میں یہ سوکھی بغیر سالن کی مصالحے سے بھری بھنڈی۔ پیٹ میں آگ لگا دے گی۔

ماں: (مسکراتے ہوئے) تو یہ آلو گوشت لے لیں۔ اس میں تو شوربہ بھی ہلکا ہے۔

باپ: گائے کا گوشت اور میں؟ تمھیں سب پتہ ہے ڈاکٹر نے منع کیا ہے گائے کا گوشت۔ آلو کم بادی ہیں؟

ماں: (چہرے پر ہلکی سی ناگواری) چلیں رات کا وقت ہے ہلکا کھانا کھانا ہے تو یہ دال چاول لے لیں۔

باپ: (باقاعدہ ناراضگی) ایک شخص دن بھر کا تھکا ہارا گھر میں آئے۔ ایک وقت کھانا کھائے اور آپ اس کے آگے رکھ دیں۔ دوپہر کے باسی ڈال چاول۔۔ اچھی طرح معلوم ہے میں رات کو چاول نہیں کھاتا۔

اب ماں کا پارہ بھی چڑ جاتا ہے: میں شام سے پاگلوں کی طرح باورچی خانے میں لگی ہوں اور آپ ہیں کہ مزاج ہی نہیں مل رہے۔

باپ: مزاج ملنے کی کیا بات ہے۔ وہی سب پکانا جو میں نہیں کھاتا۔

ماں: صبح پوچھا تو تھا۔ کیا کروں؟ بتائیں؟

باپ: ٹینڈے، دال بھرے کریلے، آلو کی قتلیاں، بگھارے بینگن اور ہاں وہ گوار کی پھلی۔

ماں: اچھا۔۔ کون کھاتا؟ بچے تو ہاتھ نہ لگاتے۔ پوری ہنڈیا بھری رہتی۔ آپ باپ بیٹے مل کر طے کرلیں کیا کھانا ہے؟ کسی کے مزاج ہی نہیں ملتے یہاں۔

باپ: اس میں مزاج ملنے کی کیا بات ہے؟ اور ایک بات بتاو۔ تم نے پچھلے ہفتے گوار کی پھلی بنائی۔ زہر مار کی ہے میں نے۔

ماں: اس میں ایسا کیا ڈال دیا جو زہر ہوگئی؟

باپ: وہ۔۔ وہ تم نے ایک تو صحیح طرح اسے بھونا نہیں اور اوپر سے اس پر تل بھی نہیں ڈالے۔

ماں: (تلملا کر) اس وقت کیوں نہ بولے۔

باپ: وہ برابر والی کے ہاں سے مچھلی بریانی جو آ گئی تھی۔ ابھی تک منہ میں ذائقہ ہے۔۔ واہ!

ماں: اچھا اس کی سڑی بھسڑی بریانی پر واہ اور ہم جو یہاں پکا پکا کر مرے جا رہے ہیں اس پر آہ۔

باپ: تو اس میں برا ماننے والی کیا بات ہے۔ ذائقہ زبان پر آتے ہی بولتا ہے۔

ماں: (طنز سے) ایسا کریں آپ وھیں رہنے لگیں اور اس کے ہاتھ کے کھانے ہی کھائیں۔

باپ: اب تم جذباتی ہو رہی ہو۔

ماں غصے سے آٹھ کر چلی جاتی ہے۔ باپ روکتے رہ جاتے ہیں۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد مصالحے والی بھنڈی نکال کر پہلا نوالہ کھاتے ہی کہتے ہیں: ہے تو مزے کی۔ کچھ بھی ہے بیگم کا لہجہ تلخ ہے لیکن ہاتھ میں ذائقہ ہے۔

اتنی دیر میں بیٹا آ جاتا ہے۔ کھانوں کی طرف دیکھ کر کہتا ہے: یہ امی نے کیا پکا لیا؟ اور وہ ہیں کہاں؟

باپ: تمھیں اپنی ماں کا ذرا بھی احساس نہیں۔ دن بھر لگی رہتی ہے۔ کمرے میں کچھ دیر لیٹنے گئی ہیں۔

بیٹے کی آواز سن کر ماں آجاتی ہے۔ بیٹا منہ بنا کر کہتا ہے: امی یہ کیا بنا لیتی ہیں آپ۔ پیسے دیں میں باہر سے کچھ لے آتا ہوں۔

باپ: یہ نہیں چلے گا یہاں جو گھر میں پکا ہے وہ کھاو۔ (ماں کی طرف دیکھ کر) یہ بھنڈی اور آلو گوشت کھا کر دیکھو۔ انگلیاں چاٹتے رہ جاو گے۔ واہ کیا ذائقہ ہے۔۔ واہ!

ماں: (بیٹے سے) تمھارے لئے انڈا آملیٹ بنا دوں؟

باپ: انڈا آملیٹ کیوں بنا دوں؟

باپ: (بیٹے سے) تمھاری امی تو ایسا کھانا بناتی ہیں کہ آس پڑوس کی عورتیں تعریف کرتی ہیں۔ برابر والی تو تمھاری امی کی دیوانی ہے۔ میاں جتنا ماں کے ہاتھ کا کھانا کھانا ہے کھا لو۔۔

ماں: (طنز سے) بیوی آ گئی تو پھر ماں کے ہاتھ کا کھانا گیا۔

باپ: میں نے یہ تو نہیں کہا۔

ماں: مگر سمجھا تو میں نے یہی ہے۔

بیٹا اپنے کمرے میں جا چکا ہے۔ ماں جانے لگتی ہے۔ باپ پوچھتا ہے: اب کہاں؟ میں کھانا کھا تو رہا ہوں۔

ماں: بیٹے کے لیے آملیٹ بنانے۔

باپ: میں نے اتنی تقریر کی مگر تم نے آملیٹ کا نام تک نہ لیا۔

ماں: دنیا میں کچھ محبتیں صرف اولاد کے لئے ہوتی ہیں۔

باپ: یہ کس نے کہا؟

ماں: آپ کی والدہ مرحومہ نے۔ وہ بھی کئی بار!

Check Also

Aisi Bulandi, Aisi Pasti

By Prof. Riffat Mazhar