Shampoo Ka Tv Ishtihar Aur Baal Nadard
شیمپو کا ٹی وی اشتہار اور بال ندارد
ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں ہماری بھی جان پر بن آتی ہے اور اس وقت امداد غیبی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ایڈورٹائزنگ سے وابستہ افراد جانتے ہیں کہ کلائنٹ سے کانسپت منظور کرانا کبھی کبھی سوہان روح بن جاتا ہے۔ اگر بریف Focussed اور To the point نہ ہو یا کلائنٹ خود کلیئر نہ ہو تو کریٹیو کی زندگی عذاب میں آجاتی ہے۔ ویسے کلائنٹ سروس کی سکینڈ ہینڈ بریف (میں جسے لنڈا بریف کہتا ہوں) جس میں وہ اپنی ذاتی Creativity کو کلائنٹ کی بنا کر پیش کرتا ہے وہ بھی کام کو ٹریک سے ہٹا دیتی ہے۔
ٹی وی اشتہار کو دیکھنے والے ایک ہی بار میں اشتہار کو پسندیدگی اور نا پسندیدگی کے خانہ میں رکھ دیتے ہیں جو ان کا حق ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ایک اشتہار کے پیچھے کتنے ہفتے یا مہینے لگے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے اسٹرٹیجی پھر آئیڈیا، کانسپٹ اور اسٹوری بورڈ۔ ان تمام مراحل کے بعد Pre-Production Meeting جس میں تمام جزئیات یعنی لوکیشن، میل اور فیمیل ماڈلز کا انتخاب بالخصوص فیمیل ماڈلز کا لباس، میک آپ حتی کہ ہیئر اسٹائل تک طے کیا جاتا ہے۔ تمام تر منصوبہ بندیاں اپنی جگہ لیکن جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی کے سان گمان میں نہیں ہوتا۔ تمام تر حفاظتی اور کمرشلاتی احتیاطیں چشم زدن میں زمیں بوس ہو جاتی ہیں۔ مصیبتیں، پریشانیاں اور ناگہانیاں ہمارے استقبال کے لئے فرش راہ ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ بچ نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں اور کبھی ایسی غیبی امداد ہوتی ہے کہ ذہن سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ایسی کیا نیکی کردی جو آج آڑے آگئی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے (جو کہ کئی دفعہ کا ذکر ہے) ایک شیمپو کا کانسپٹ کلائنٹ نے منظور کر لیا۔ اب بات چلی شوٹنگ کی جس کے لئے لاہور کے ایک اسٹوڈیو میں کانسپٹ کی مناسبت سے دیو ہیکل دروازے والی کھلی جگہ کا انتخاب کیا گیا۔ آدھا اشتہار پرانے دور (بلیک اینڈ وائٹ) اور آدھا نئے دور (کلر) پر مبنی تھا۔ شوٹنگ میں دو روز رہ گئے تھے مگر پرانے دور کے لئے فیمیل ماڈل فائنل نہیں ہو پارہی تھی۔ ایک دن پہلے دوپہر میں لاہور ہی کی ایک لمبے بال والی ماڈل منظور کرائی اور شام کی فلائٹ سے عازم لاہور ہوگیا۔ مطمئن تھا کہ اب تمام انتظامات مکمل ہیں۔
رات میں ڈائریکٹر صاحب کو بتایا کہ یہ ماڈل منظور ہوئی ہے۔ ڈائریکٹر نے Arranger کو لڑکی کا نام بتایا اور کہا کہ صبح شوٹ ہے۔ اب دوسری طرف سے Arranger نے بم پھوڑ دیا۔ پتہ چلا کہ تصویر 6 ماہ پرانی ہے اور اب اس لڑکی کے بال بہت چھوٹے ہیں۔ ہمارے تو پسینہ چھوٹ چھاٹ گئے۔ صبح شوٹنگ اور فیمیل ماڈل کے سر پر بال نہ دارد۔ طرفہ تماشا جو ہونے والا ہے وہ یہ کہ صبح کلائنٹ صاحب مع فوج شوٹنگ پر تشریف لانے والے ہیں۔ ہم سب کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ ڈائریکٹر نے کہا: فکر نہ کریں۔ بالوں ہر گھٹنوں تک کی ایکسٹینشنز لگا دیں گے۔ کمپیوٹر پر ایسی کاریگری کریں گے کوئی پکڑ بھی نہیں پائے گا۔ میں نے کہا: کلائنٹ شوٹ پر موجود ہوگا اس کی آنکھوں میں دھول کیسے جھونکیں گے؟ ڈائریکٹر صاحب نے بڑے سکون سے کہا کہ شوٹنگ آگے بڑھا دیں۔ ایڈورٹائزنگ ایجنسی یہاں پھنس جاتی ہے اور ہم بری طرح پھنس چکے تھے۔ شوٹنگ بہانہ کرکے ملتوی کر دیتے اگر کلائنٹ نہ آرہا ہوتا۔ فیصلہ ایکسٹینشنز کے ساتھ شوٹنگ کرنے کا ہوا۔ رات سوچتے سوچتے کٹ گئی۔ ذہن ماڈل کی زلفوں پر اٹکا رہا۔ رہ رہ کر اس کی زلفوں میں گرہ گیر ہوتے گئے۔
زلفیں اتنی نہ بڑھاو ہے بہت زار و نحیف
بیڑیاں چاہیئں ہلکی تیرے دیوانے کو
صبح ہوئی۔ شوٹنگ میں جگہ جگہ نا گہانی لکھی تھی۔ ڈائریکٹر صاحب بلا کے ٹھنڈ پروگرام تھے۔ بادشاہوں کے دور کا بازار دکھانا تھا۔ انہوں نے رسیاں باندھ کر چادریں لٹکا دیں اور اپنے طور پر بازار سجا دیا۔ جان جل کر رہ گئی لیکن عین وقت پر کوئی بڑی تبدیل ممکن نہیں تھی۔
شوٹنگ سے پہلے کیا دیکھتے ہیں کہ خواتین برقع اوڑھے پھر رہی ہیں۔ میں حیران کہ ان کا یہاں کیا کام؟ ڈائریکٹر کے اسسٹنٹ سے پوچھا کہ یہ عورتیں یہاں کیوں مٹر گشتی کر رہی ہیں؟ تو اس نے مٹر گشتی پر ایک نامعقول لطیفہ سنا کر دوستی کرنے کی کوشش کی۔ میں نے کہا کہ مغلوں کے زمانے تک برقع نہیں آیا تھا۔ پالکی میں خواتین آیا جایا کرتی تھیں۔ اسسٹنٹ نے کہا یہ عورتیں تو خاص طور شوٹنگ کے لئے Hire کی گئی ہیں۔ میں نے کہا کہ ان کے برقع اتارو۔ اب جو برقع اتارے تو اندر سے مرد برآمد ہوئے۔ تو تو میں میں ہوگئی اس غلط بیانی پر لیکن معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
مجھے اپنی ہی بات سے یاد آیا کہ بازار تو ادھورا ہے اور کسی ایک چیز سے بھی اس دور کی عکاسی نہیں ہو رہی، پالکی دکھا کر اس زمانے کا تاثر قائم ہوسکتا ہے۔ کوئی بندہ پالکی لانے کو تیار نہیں۔ ڈائریکٹر کی نوابیت قائم و دائم تھی اور ہمارے ہوش وحواس اڑے ہوئے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ ڈائریکٹر تو کمرشل دے کر چلا جائے گا اور اگر کلائنٹ نے اس میں تبدیلی کا کچھ کہہ دیا یا یہ کہہ دیا کہ آپ نے جو کچھ کانسپٹ سناتے وقت بتایا تھا اس میں وہ سب کچھ نہیں تو ایجنسی کو تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
کسی نے بتایا کہ اسٹوڈیو کے قریب ہی ایک مشہور اداکارہ کے گھر کے قریب پالکیاں شوٹنگ کے لئے کرائے پر ملتی ہیں۔ ہم پہنچے تو وہاں بنا دلہن کے پالکیاں ہی پالکیاں تھیں جو پسند آئی اس کا کرایہ 5 ہزار روپے اور لےجانا لانا ہماری ذمہ داری۔ جس سے پالکی لینے گئے وہ بھی پر مزاح شخص تھا۔ میں نے کہا کہ 5 ہزار زیادہ ہیں تو مسکرا کر بولا: 5 ہزار میں ایک 0 بڑھا دین تو دلہن بھی ساتھ دے دوں گا۔ بس ایک شرط ہے دلھن اور پالکی ایک ساتھ واپس کرنا ہوں گی۔ میں نے چڑ کر کہا اور اگر میں 5 ہزار میں ایک 0 کم کر دوں تو فورا بولا کہ 2 بندے ساتھ کر دوں گا دلھن جہاں سے چاہو پھڑ لو۔ پھڑے گئے تو تھانہ کا خرچہ پانی آپ کی ذمہ واری۔ میں ایک غیر مانوس شخض سے اس کی حاضر جوابی اور زندہ دلی پر مسکرا کر رہ گیا۔ خیر پالکی آگئی یوں سمجھیں کہ پالکی پلکوں پر رکھ کر لایا تھا کیونکہ پالکی والے نے کہہ دیا تھا ٹوٹ پھوٹ آپ کی ذمہ واری ہوگی۔
ماڈل آئی تو اس کے بال گھٹنوں سے نیچے جا رہے تھے۔ جی چاہ رہا تھا کہ نوچ کر پھینک دیئے جائیں۔ ایکسٹینشنز تھیں کسی وقت بھی پکڑے جا سکتے تھے لیکن کیا کرتے کوئی Option نہیں تھا۔ ساری Arrangements ہوچکی تھیں۔ شوٹنگ کینسل کریں تو خرچہ ڈبل۔ کلائنٹ کو بتائیں تو مصیبت کہے گا کیسے پروفیشنلز ہیں جس ماڈل نے بال کٹوا دیئے وہ approval کے لئے دی ہی کیوں؟ ایک طرف گھاٹی ہے تو ایک طرف کھائی جو ہونے والا ہے اس کا اندازہ سب کو ہے لیکن خمیازہ صرف میں نے بھگتنا ہے۔
کچھ دیر بعد کللائنٹ مع فوج ظفر موج وارد شوٹنگ ہوئے۔ مجھے لگا اب شوٹنگ مجھ پر ہوگی۔ ان کے لئے کرسی میز اور کھانے پینے کا سامان سجا دیا گیا۔ جگہ کافی تھی انہیں شوٹنگ کی جگہ سے اتنا دور بٹھا دیا گیا کہ اصلی اور نقلی بالوں کا فرق پتہ نہ چل سکے۔ کچھ دیر بعد کلائنٹ نے کہا کہ ماڈل کے بال تو بہت گھنے اور بڑے لگ رہے ہیں۔ ذرا بلائیں ہم بھی تو دیکھیں۔ یہ ایک عام سی بات ہے اگر کلائنٹ شوٹنگ پر آئے تو اس کی ڈائریکٹر اور تمام ماڈلز سے ملاقات کرائی جاتی ہے۔ کلائنٹ گھنے لمبے بالوں والی ماڈل کے بال دیکھنا چاھے اور ہم بہانہ پر بہانہ کئے جائیں کہ شوٹ ہو جائے تو ملواتے ہیں۔ ہم جانتے تھے کہ ہونے کیا والا ہے۔ اس روز لاہور کا موسم ہلکا یلکا ابر آلود تھا مگر ہمارا دھیان اس طرف کہاں تھا۔ جو مینہ منہ پر برسنے والا تھا ہم تو اس کے لئے "جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو" پڑھ رہے تھے۔
کلائنٹ کا اصرار بڑھتا گیا۔ ہم نے دور سے اسسٹنٹ کو اشارہ کیا کہ ماڈل کو بھیجو اور جل تو جلال تو پڑھنا شروع کردیا۔ ابھی ماڈل ایک دو قدم ہی چلی تھی، یقین جانیں بغیر کسی مبالغہ کے کہہ رہا ہوں کہ موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ اب اللہ جانے یہ ماڈل کی ایکسٹینشنز والی سیاہ زلفوں کا جادو تھا یا ہماری دعا کی قبولیت کا وقت، کھلی جگہ تھی سب اٹھکر بھاگے۔ پھر کہاں کی ماڈل اور کہاں کی شوٹنگ۔ کلائنٹ نے پوچھا تو ہم نے کہا کہ ماڈل کے کپڑے اور بال بری طرح بھیگ گئے ہیں۔ وہ میک آپ وین میں ہے۔ بال سکھا رہی ہے۔
کلائنٹ بھی جلدی میں تھا، بولا: ٹھیک ہے ملنے کئی کوئی ضرورت نہیں۔ شوٹنگ بہت اچھی جا رہی ہے۔ خاص طور پر ماڈل کے بال دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ ہم نے کہا: سر سلیکشن بھئی تو آپ ہی کی ہے۔ کلائنٹ نے جو یہ تعریف سنی تو پر کیف ہنسی سے پہلے میری اور پھر اپنی فوج کی جانب دیکھا اور شان بے نیازی سے روانہ ہو گئے۔ آپ نے دیکھا ایک شوٹنگ میں کتنی ناگہانیاں آجاتی ہیں۔ ہم نے پروردگار کا شکر ادا کیا کہ بال بال بچ گئے۔
لالہ مادھو رام جوہر کا یہ شعر پڑھنے کو بار بار دل چاہ رہے ہے۔ آپ بھی سن لیجئے۔
برسات کا مزہ ترے گیسو دکھا گئے
عکس آسمان پر جو پڑا ابر چھا گئے