Karachi, Khushgawar Yaadon Se Abad Aik Bache Ka Shehar
کراچی، خوشگوار یادوں سے آباد ایک بچے کا شہر

میں نے جب سے گھٹنیوں گھٹنیوں چلنا سیکھا۔ تب سے وہ میرے ساتھ ہے۔ میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ موسم بدلیں تو بدلیں وہ نہیں بدلتا۔ چلچلاتی گرمی ہو یا کڑکتی سردی، خزاں کی اداسی ہو یا بہار کی رنگینی۔ اس کی ہم نشینی نہیں جاتی۔ میں سے ایک بار چھوڑ گیا تھا۔ مجھے آخر تک منانے، سمجھانے آیا۔ میں نے کہا: اب تیرے ساتھ میرا گزارا نہیں۔ کہنے لگا: پاگل ہوا ہے۔ اچھے برے دن ساتھ گزارے ہیں۔ یہ مشکل دن بھی گزار لے۔ دیکھنا پھر سب کچھ اچھا بلکہ پہلے سے اچھا ہو جائے گا۔
میں نے اس کی ایک نہ مانی اور چلا گیا مگر میں اس سے دور جا کر اور بھی قریب ہوگیا۔ ہر گھڑی اس کی یاد ستانے لگی۔ جس راستے پر چلتا تو لگتا یہ قدم مجھ پر قرض ہیں۔ سانس لیتا تو لگتا کہ گھٹن سی ہے۔ اس کے بغیر ایک عجیب الجھن سی رہتی۔ پہلی بار جو اس سے اتنی دور گیا تھا۔ پتہ نہیں تھا کہ اب کب اور کتنے دن کے لئے آنا ہوگا۔
ایک بار رات گئے آیا۔ جاگ رہا تھا۔ اسے خبر ہوگئی۔ ائیرپورٹ سے نکلتے ہی مل گیا۔ بڑا خوش ہوا۔ بولا: آ گیا۔ اب جانا نہیں۔ جانا میں بھی نہیں چاھتا تھا لیکن مجبوری تھی۔ اب وہ ناراض ناراض سا لگا۔ میں نے اسے سمجھایا: میری مجبوری سمجھ، تجھ سے دور جا کر میں خود بھی اداس رہتا ہوں۔ خاص طور ہر تیرے ساتھ گزاری شامیں بہت یاد آتی ہیں۔ تیری یادوں کی خوشبو ذہن کیا، نتھنوں میں بسی رہتی یے۔ مسکرایا: بس شامیں اور خوشبو اور وہ دن جب جیب میں پیسے کم ہوتے لیکن بس کا کرایہ بھی نکل آتا اور ہوٹل میں کھانا بھی ہو جاتا۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
میں نے اسے یقین دلایا: یقین جان موقع ملتے ہی لوٹ آوں گا پھر تو ہوگا اور میں۔ اوپر صاف شفاف آسمان کی طرف دیکھ کر بولا: تجھ سے پہلے بھی بہت گئے۔ کہتے تو یہی ہیں کہ دل نہیں لگتا۔ آتے ہیں تو بہت روتے دھوتے ہیں لیکن چلے جاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ تو نے دوستیاں بھی کتنوں سے کر رکھی ہیں۔ تیرے پاس میرے لئے پہلے جیسا وقت اب کہاں ہوگا۔ ہنسا۔۔ بہت زور سے ہنسا: یہ تو کیا، کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔ وقت تو میں سب کو دیتا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ وقت پڑنے پر میرے ہی دشمن ہو جاتے ہیں جبکہ میں تو سب کے لئے سینہ و دل کشادہ رکھتا ہوں۔ دن ہو یا رات کو بھی آجائے۔ میں نے کبھی کسی کو منع نہیں کیا۔ میں تو امیر غریب کی تفریق بھی نہیں کرتا۔
ایک دن سوچنے بیٹھا تو لگا کہ اس سے بھی کیا عجیب تعلق ہے میرا جو لفظوں میں بیان ہی نہیں ہو سکتا۔ میں نے سوچا وہ کہاں کہاں میرے کام نہ آیا۔ اسکول میں داخلہ ہو تو اس کا ساتھ۔ کالج جاؤں تو وہ ساتھ ساتھ۔ جہاں جہاں حوصلہ ٹوٹے تو وہ جوڑے۔ ہمت بندھائے، نئے راستے سجھائے۔ اچھے دنوں کی آس دلائے۔ کتنے لوگوں کی مثالیں دے۔ دیکھ وہ کیا تھا کیا ہوگیا۔ وہ بھی ایسے ہی حالت سے گزرا تھا۔ میں نے اسے بھی سمجھایا تھا۔ وہ سمجھ گیا۔ تو بہت کم حوصلہ ہوتا جا رہا ہے۔
جب مجھے پہلی ملازمت ملی تو مجھ سے زیادہ وہ خوش ہوا۔ کہنے لگا: دیکھنا اب تو عزت، دولت، شہرت سب کمائے گا۔ بس ایک بات کا خیال رکھنا میری طرح سب کے کام آنا۔ غریب پرور رہنا۔ کسی سے ہاتھ مت کھینچنا۔ میں نے کہا تیرے ساتھ پلا بڑھا ہوں۔ تیری خوش بو تو آنی ہے۔ اداس ہوگیا: سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کچھ بڑے مطلب پرست ہوتے ہیں۔ میں نے کہا: تو بہت سادہ لوح یے۔ لوگ تیری قدر نہیں کرتے۔ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا: میرے مزاج ہی ایسا ہے۔ مجبور ہوں۔ میں نے چھیڑتے ہوئے کہا: تو بہت پھیلتا جا رہا ہے، اب تو اپنا بالکل بھی خیال نہیں رکھتا۔ عجیب ذومعنی ہنسی چہرے پر آگئی: دیکھ لے ابھی تک آنکھوں ہر چربی نہیں چڑھی ہے۔ تم سب اگر اپنے اپنے حصے کا خیال رکھنے لگو تو سمجھو میرا خیال رکھ رہے ہو۔ مجھے پہلی بار اس کی مسکراہٹ کے پیچھے بے بسی نظر آئی۔
میں ایک دن واپس آگیا۔ تپاک سے گلے ملا۔ آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ لوگوں کو بتایا کہ میں آگیا ہوں۔ اس نے صحیح کہا تھا حالات بہتر ہوتے گئے۔ کہنے لگا: دیکھ دکھ سکھ زندگی کے ساتھ ہیں مگر اپنوں کو کون چھوڑتا اور بھولتا ہے۔ میں نے طے کر لیا کہ اب میں اسے چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گا۔
شہر دوستوں کی طرح ہوتے ہیں اور جب کراچی جیسا عزیز از جان دوست ہو تو کیا کہنے! گھٹنیوں چلنے سے قدم قدم چلنے تک یہ قدم بقدم میرے ساتھ ہے۔

