Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Azmi/
  4. Kahin Aap Biyah Logi Ke Student To Nahi

Kahin Aap Biyah Logi Ke Student To Nahi

کہیں آپ بیاہ لوجی کے اسٹوڈینٹ تو نہیں

زمانہ طالب علمی میں سائنس لی تو فزکس، کیمسٹری اور میتھس لی تاکہ کسی مضمون کے باعث جی کہنے کی عادت ہی نہ پڑے۔ بیالوجی سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ کبھی اس کی لیبارٹری کی طرف پیر رکھا تو ابکائی سی آئی لیکن جناب یہ خبر نہ تھی کہ بیاہ (شادی) کے بعد ایک ایسا مضمون پڑھنا پڑے گا جس میں ہمیں ابکائی تو نہ آئے گی لیکن دن میں تارے اور رات میں ایک نسائی سورج ضرور نظر آنے لگے گا۔ اس مضمون کو بیاہ لوجی کہا جاتا ہے۔ اردو میں بیالوجی کو علم حیاتیات جبکہ بیاہ لوجی کو علم باقیات کہا جاتا ہے۔

یہ دنیا کا واحد مضمون ہے کہ جس کے لیے آٹھویں پاس ہونا ضروری نہیں۔ بس آپ کو آٹھ آٹھ آنسو بہانا اور بہتے دیکھنا آنا چاہیئں۔ یہ مضمون ہوم ٹیوشن میں پڑھایا جاتا ہے۔ ہوم ٹیوشن کے باوجود ذہنی ماحول کلاس کا ہوتا ہے۔ بیاہ لوجی میں ٹیچر کی نیچر بہت اہم ہے اس لیے عالمی سطح پر خاتون ٹیچر کو ہی اس کا میل مانا جاتا ہے اور انہیں اس ضمن میں ایک نااہل کو پڑھانے کے لیے سب سے اہل تصور کیا جاتا ہے۔

پہلے کلاس ٹیچر کا انتظام گھر کے بزرگ کیا کرتے تھے۔ اس لیے اسٹوڈنٹ تنگ آ کر کہہ دیا کرتا تھا کہ میں تو اس کلاس ٹیچر سے پڑھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اب کیونکہ اسٹوڈنٹ اپنی کلاس ٹیچر کا انتظام خود کرتے ہیں اس لیے گھر والے انتقاماً کہتے ہیں اور پڑھو اور اگر پاس ہوئے تو ہمارے لیے فیل ہی سمجھنا۔

آپ اتنے بے وقوف تو نہیں کہ اب تک کلاس ٹیچر کو نہ سمجھے ہوں گے۔ وہ خاتون جو آپ کے عقد مسنونہ میں دو بول کر پڑھا کر آپ کو بیاہ دی جاتی ہیں وہ کلاس ٹیچر کہلاتی ہیں اور شوہر اس کا واحد اور " حملہ و جملہ حقوق بحق ٹیچر محفوظ " اسٹوڈنٹ کہلاتا ہے۔ جو کچھ کلاس ٹیچر رٹائے اسے بیاہ لوجی کہا جاتا ہے۔ کلاس ٹیچرز کا یہی کہنا ہے کہ یہ طوطے کی طرح رٹنے والا مضمون ہے۔ اب کلاس ٹیچر کو کون بتائے کہ طوطے کی طرح رٹنے والا طوطا چشم بھی تو ہو سکتا ہے۔

کچھ اسٹوڈنٹس کہتے ہیں کہ ہم بیاہ لوجی کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ کلاس ٹیچر کا یہی کہنا ہے کہ اس مضمون میں دماغ نہیں دل لگائیں تاکہ اچھے نمبروں سے پاس ہوں۔ کچھ اسٹوڈنٹس منہ پر اور اکثر دل میں کہہ دیتے ہیں" دل ہے کہ مانتا نہیں" تو کلاس ٹیچر یہی کہتی ہے کہ اس وقت کیسے مان گیا تھا۔ اکثر اسٹوڈنٹس تفریح میں آکر جوابا کہتے ہیں" دل تو پاگل ہے "۔ کلاس ٹیچر کہتی ہے تو پھر اس وقت کیوں کہا تھا " یہ دل آپ کا ہوا "۔

بیاہ لوجی رٹانے میں بڑی بڑی یونیورسٹز کی طرح وزیٹنگ پروفیسرز بھی آتے بلکہ آتی ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق آپ کے دھمال پور (سسرال) سے ہوتا ہے۔ اگر کلاس ٹیچر کو لگے کہ اسٹوڈنٹ کو جلدی سبق یاد نہیں ہوتا یا سمجھ کر بھی آنا کانی کر رہا ہے تو اس فیکلٹی کی وزیٹنگ پروفیسر بذریعہ موبائل آن لائن بھی کلاس ٹیچر کو سبق یاد دلانے اور سکھانے کے طریقے بتا دیتی ہیں۔

بیاہ لوجی کی سب سے خاص بات یہ یے کہ اس میں کلاس نہیں ہوتی بلکہ لی جاتی ہے۔ آپ نے ون مین آرمی سنا ہوگا۔ بیاہ لوجی کو ون وومن کلاس کہا جاتا ہے۔ ویسے تو استاد کا درجہ باپ برابر ہوتا ہے لیکن یہاں کلاس ٹیچر باپ نہیں بلکہ باپ رے باپ ہوتی ہے۔ کلاس ٹیچر اپنی ساری نظریں اور کوششیں اسٹوڈنٹ پر مرکوز رکھتی ہے۔ اس لیے اکثر اسٹوڈنٹ کلاس ٹیچر سے ذرا دور دور رہتے ہیں لیکن رات کے وقت یہ مضمون رٹانا سب سے ثمر آور ہوتا ہے کیونکہ اسٹوڈنٹ اس وقت پوری طرح قبضہ ہیبت میں ہوتا ہے، باہر سے کسی قسم کی کمک پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے جو دھما چوکڑی مچانی ہے وہ اندر ہی مچا لیں۔

بیاہ لوجی دنیا کا واحد مضمون ہے کہ جس میں اسٹوڈنٹ کو آخری سانس تک رٹایا جاتا ہے بلکہ اکثر کلاس ٹیچرز تو سانس نہ آنے کے بعد بھی کہتی ہیں" سن رہے ہو ناں"۔ اسٹوڈنٹ زندگی بھر لاکھ کہتا رہے کہ سب رٹ لیا ہے مگر کلاس ٹیچر کو اس کے کند و گند ذہن ہونے کا شک نہیں جاتا۔ کلاس ٹیچر کسی بھی وقت بھی محسوس کرے کہ اسٹوڈنٹ اس کے پڑھائے گئے سبق سے غافل ہو رہا ہے تو وہ پھر نئے سرے سے کورس کا آغاز کر دیتی ہے۔ اگر لگے کہ وہ آج فریش لگ رہا ہے تو فورا ری فریش کورس کرا کے اسے تھریش کر دیتی ہے۔

میں نے متعدد اسٹوڈنٹس کو زندگی بھر اس مضمون میں" ٹیچر کے ہاتھوں" فیل ہوتے دیکھا ہے۔ کلاس ٹیچرز کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ اتنی جان ماری کے باوجود اسٹوڈنٹ، کورس اور میری منشاء کے مطابق امتحان پاس نہیں کر پاتے۔ بہتر تھا کسی جانور پر وقت لگا دیتیں۔ کلاس ٹیچر کو کون سمجھائے کہ جسے آپ وقت لگانا کہہ رہی ہیں۔ اسٹوڈنٹ اسے وقت پڑنا کہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ طوطا سمجھ کر پڑھاتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ انسان بن کر پاس ہو جائے۔

بیاہ لوجی میں تھیوری اور پریکٹیکلز دونوں ہوتے ہیں۔ رات میں تھیوری کی کلاسز اور دن میں پریکٹیکلز۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوران پریکٹیکل اسٹوڈنٹ کی ناقص الدماغی کو دیکھتے ہوئے سب کے سامنے viva بھی لے لیا جاتا ہے۔ ویسے اسٹوڈنٹ کے گھر والوں کے نزدیک، اس مضمون میں نااہلیت ہی قابلیت کی شرط ہے۔ کلاس ٹیچر اس مضمون میں کسی کو ممتحن بنانا پسند ہی نہیں کرتی۔ اس کا کہنا ہے کہ جو پڑھائے وہی امتحان لے اور طے کرے کہ اسٹوڈنٹ نے کتنا اور کیا سمجھا۔ مجھے حفیظ جالندھری یاد آنے لگتے ہیں:

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

ایک مرتبہ بیاہ لوجی کی چند کلاس ٹیچرز کو جمع کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ اپنے تجربات، تغیرات اور تحیرات شیئر کریں۔ کسی کا تجربہ کسی سے ملتا نہ تھا۔ تو یہ بات طے ہوئی کہ اس مضمون میں کلاس ٹیچر ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ اسٹوڈنٹس میں بھی ایک سے ایک فنکار چھپا ہوتا ہے۔

کچھ اسٹوڈنٹ زندگی بھر کلاس ٹیچر کو یہ یقین دلائے رکھتے ہیں کہ میری نکیل آپ کے ہاتھ میں جب اور جہاں چاہیں گاڑ دیں۔ یہ عقیل شوہر سارا کھیل اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ اگر آپ اپنے اسکول اور کالج کے دوستوں سے متعلق سوچیں تو کلاس کے ڈفر لڑکے پریکٹیکل لائف میں بہت کامیاب ہوئے۔ کلاس کے پڑھاکو لڑکے کوئی خاص نام اور دام نہیں بنا پاتے۔ بیاہ لوجی میں یہ بات سب سے زیادہ صادق آتی ہے کہ بیاہ سے قبل جن اسٹوڈنٹس کو بہت زیادہ سیدھا، مؤدب اور مہذب سمجھا جاتا ہے وہی اتنے ہی ٹیڑھے ثابت ہوتے ہیں۔ جن کے متعلق دھمال پور کا خیال ہوتا ہے کہ یہ کلاس ٹیچر کو تگنی کا ناچ نچا دے گا وہ بیاہ کے دوسرے دن صبح ہوتے ہی کلاس ٹیچر کے اشاروں پر ناچ رہا ہوتا ہے۔

یہ دنیا کا عجیب مضمون ہے جس میں کلاس ٹیچر اور اسٹوڈنٹ میں سے کسی ایک کو فیل یا پاس ہونا ہوتا ہے۔ بیاہ لوجی کا کوئی طے شدہ کورس نہیں۔ کلاس ٹیچر حالات و واقعات اور اسٹوڈنٹ کی شوہرانہ ذہنیت کا اندازہ لگا کر اپنے کورس کی آوٹ لائن طے کرتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر اسٹوڈنٹ اپنی پر آ جائے تو کلاس ٹیچر کے اپنے آوٹ ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ حقیقت میں اگر دونوں ذہین ہوں تو بیاہ لوجی کا ایک جوائنٹ کورس بناتے ہیں جس میں کلاس ٹیچر اور اسٹوڈنٹ دونوں میں سے کوئی بھی کسی کو کسی بھی وقت رٹا سکتا ہے۔

Check Also

Faramosh Karda Saniha Ojhri Camp Aaj Ke Tanazur Mein

By Nusrat Javed