Hum Sab Tea Bags Hi To Hain
ہم سب Tea Bags ہی تو ہیں
ایک عرصہ سے مغرب کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی ٹی بیگ والی چائے کا رواج عام ہو چکا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک جگہ جانے کا اتفاق ہوا تو ٹی بیگ والی چائے میرے سامنے رکھ دی گئی۔ میں ٹی بیگ سے رنگ، خوشبو اور ذائقہ کشید کرنےکے لئے اسے بار بار گرم پانی میں ڈبکیاں دینے لگا۔ اس کا رنگ کھلتا چلا گیا اور خوشبو نے بھی اپنا رنگ جما دیا۔ پہلے ہی گھونٹ میں ذائقہ بھی بہتر لگا۔ ایک دم خیال آیا کہ ہم سب بھی تو ٹی بیگ ہی ہیں۔ انگریزی میں Hot Water سے مراد مشکل حالات ہوتے ہیں۔ اگر آپ اردو میں اسی معنی کے ساتھ بات سمجھیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب تک آپ مشکل حالات کا سامنا نہیں کریں گے آپ خود کو پرکھ نہیں پائیں گے۔ اپنے آپ کو دریافت نہیں کر پائیں گے۔
بات تو دل کو لگی مگر پھر ذہن میں آیا کہ میرے اپنے پاس اس کے لئے کوئی حوالہ بھی ہے۔ ذہن کو ٹٹولا۔ تو پھر وہی 1988 نکل کر سامنے آ گیا۔ پھر میں سوچنے لگا کہ اس سال نے میرے سوچ کے زاوئیے بدل دیئے۔ زندگی کو بند گلی سے نکال کر عملیت پسندی کی شاہراہ کا مسافر بنا دیا۔ جذباتیت کی جگہ عملیت نے لے لی۔ عزت کے نام پر قائم نام نہاد خیالات اپنی موت آپ مرنے لگے۔ پھر اور بھی بہت کچھ سمجھ میں آنے لگا۔ منافقت اور مصلحت، سیاست اور حکمت، قناعت اور کاہلی، انا اور عزت نفس کے درمیان کا بال برابر کا فرق شعور کے Magnifying Glass لگا کر بہت بڑا لگنے لگا۔
آئیے! ٹی بیگ کے حوالے کے لئے چلتے ہیں ایک ہفتے چلنے والی اپنی پہلی ملازمت کے بعد اپنی دوسری جائے ملازمت پر۔ ابھی تین ماہ ہی ہوئے تھے کہ اس ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا سب سے بڑا کلائنٹ چلا گیا۔ اب پتہ نہیں یہ ہمارے نیک قدموں کا کیا دھرا تھا یا ایجنسی کا برا وقت ہی شروع ہوچکا تھا۔ ایک بڑے کلائنٹ پر چلنے والی ایجنسیز ایک دم ہی نیچے آتی ہیں۔ کاسٹ کٹنگ کی باتیں شروع ہوتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مشورہ وہ ملازمین دیتے ہیں کہ جو بڑی بڑی تنخواہ لے رہے ہوتے ہیں۔ چھری چلتی ہے تو کم تنخواہ والے نئے ملازمین یا نچلے درجے کے اسٹاف پر جو کئی سالوں سے کم آمدن پر گھر کا راشن پورا کر رہے ہوتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ رہی کہ زندگی میں پہلی مرتبہ ہم یہاں پہلے نمبر پر آ گئے۔ تذلیل کا سنہرا موقع ہاتھ دکھانے کو تیار تھا۔ مسئلہ یہ رہا کہ جو صاحب لائے تھے ان کی وجہ سے براہ راست تو کچھ نہ کہا گیا لیکن اوچھے ہتھکنڈے کا استعمال کیا گیا یعنی کہ ہمیں گرمیوں کی تپتی دوپہر میں ٹین والی چھت کے استقبالیہ (ریسیپشن) پر ریسیشنسٹ کم ٹیلی فون آپریٹر کی جگہ پر بیٹھنے کا کہہ دیا گیا گو کہ اس کام کے لئے پہلے سے خاتون موجود تھیں۔ اب اللہ جانے اس خاتون کو حالات کا اندازہ ہوگیا تھا۔ اس نے تنخواہ لی اور پھر آفس کا منہ نہ دیکھا اور ہمیں اس عہدہ جلیلہ پر "ہونق افروز" کر دیا گیا۔ مانا کہ ہم شعبہ تخلیق میں نووارد تھے مگر اس تکلیف کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ تخلیق کاری میں ہمارے لیے یہ تخریب کاری چھپی ہوگی کبھی نہ سوچا تھا۔ سوچتے بھی کیسے؟ ہمیں تو تخلیق میں سوچ کے نئے دروازے وا کرنے کے لئے رکھا گیا تھا۔
اب تک تو لکھتے ہوئے مجھے بھی لطف آ رہا ہے۔ پہلے بتاتے ہوئے ہچکچاتا تھا اب اپنا ہی مذاق اڑاتے ہوئے بہت چہچہا رہا ہوں۔ سیٹ پر بیٹھنے کے بعد اذیت، شرمندگی، خجالت اور نہ جانے کون کون سے لفظوں نے دماغ کو ماوف کرنا شروع کردیا۔ 8 گھنٹے کی ملازمت کیا تھی کوئے ملامت تھی۔ اب افتخار عارف کا مصرعہ یاد آرہا ہے۔
رزق واجب ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے
ہم محفل گریز، تنہائی پسند اور اکھڑ پیدائشی ہیں اس لئے اس کام کے لئے انتہائی ناموزوں تھے۔ آفس کے لوگ آتے جاتے عجیب نظروں سے دیکھتے تو خود سے بڑی شرمندگی ہوتی۔ وزیٹرز کا آنا زہر لگتا۔ بھائی جب ایجنسی میں کام نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے تو آتے کیوں ہو؟ مگر ہماری سنتا کون؟
میں دو تین دن میں ہی اس صورت حال سے بہت کبیدہ خاطر ہوگیا۔ ہمت جواب دینے لگی۔ ایک دن مصمم ارادہ کیا کہ بس آج آخری دن ہے۔ کل سے پھر گھر گھسنے ہو جائیں گے۔ میرے پاس ملازمت چھوڑنے کی بہت واضح وجہ موجود تھی۔ گھر والوں کو بتاتا اور اپنی اور اپنے خاندان کی اعلی نسبی کا رونا روتا تو والدین کہتے کہ کل سے جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ تو سیدھی سیدھی بے عزتی ہے۔ سب کچھ میری موافقت میں تھا لیکن پھر ذہن نے پلٹ کھایا۔ یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا کہ جب میں نے حالات اور مستقبل کا دور رس جائزہ لیا اور یہ طے کیا کہ یہاں سے بھاگ جانا اس وقت فرار پسندی (Escapism) سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر میں آج بھاگ گیا تو زندگی بھر نامساعد حالات دیکھنے ہی راہ فرار اختیار کروں گا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ مجھے زندگی بھر کے لئے تو ریسپشن کی سیٹ پر نہیں بٹھایا گیا۔ یہ صورت حال وقتی ہے مگر یہی کل وقتی تجربہ بھی دے رہی ہے جو زندگی میں میرے بہت کام آئے گا۔ اب میں اسی سیٹ پر ایک بالکل بدلا ہوا انسان تھا۔
میں نے طے کر لیا تھا کہ اس سیٹ پر نئی ملازمت تلاش کرنا آسان رہے گا۔ اس زمانے میں (1988) میں ٹیلی فون ہی سب کچھ تھا۔ کون تھا مجھے روکنے والا، اب میں فارغ وقت میں ٹیلی فون ڈائریکٹری میں سے مختلف ایڈورٹائزنگ ایجنسیز میں بے دھڑک فون ملا دیا کرتا اور وہاں ملازمت سے متعلق پوچھتا۔ موقع ملتا تو وہاں کے کریٹیو ڈیپارٹمنٹ میں بھی کسی سے بات کر لیا کرتا۔ ملازمت ملے نہ ملے مگر ان کے ذہن میں کہیں نہ کہیں میرا نام پڑا رہ جاتا۔ فریڈرک صاحب سے بھی رابطہ اسی طرح ہوا تھا۔ انڈسٹری میں کافی افراد ایسے ہیں جن سے بعد میں میری بہت اچھی رفاقت رہی اور آج بھی ہے لیکن انہیں یہ پتہ نہیں کہ میری ان سے پہلے بات ٹیلی فون پر ہوئی جب میں ملازمت کی تلاش میں تھا۔
خیر ایک دن ندیم فاروق پراچہ کو فون ملا دیا۔ اس کہا کہ تم نے بڑے موقع سے فون کیا۔ ہمارے ہاں جگہ خالی ہے۔ کل سیکنڈ ہاف میں میں تمہارا انٹرویو کرا دیتا ہوں۔ اندھا کیا چائے دو آنکھیں۔ ہم دوسرے دن وہاں پہنچے، انٹرویو ہوا اور اسی وقت 6 سو روپے اوپر ملازمت کی پیشکش کر دی گئی مگر شرط یہ رکھی گئی کہ فورا آنا ہے۔
انکار کی گنجائش کہاں سے ہوتی۔ پہلی والی ایجنسی میں تو ہمارے بیٹھنے کی جگہ نہیں بن رہی تھی۔ انٹرویو 14 تاریخ کو ہوا اور 15 سے ہم نے نئی ایجنسی جوان کر لی۔ پرانی ایجنسی سے 14 دن کی تنخواہ لینے بھی نہیں گئے۔ نہ انہوں نے پلٹ کر پوچھا اور نہ ہی ہم نے کبھی کوئی رابطہ کیا۔
اگر میں حالات کے زیر اثر آکر فرار اختیار کرتا تو ممکن ہے یہ سب نہ لکھ رہا ہوتا۔ واقعی ہم سب ٹی بیگ ہیں جنہیں ایک نہ ایک دن زندگی کے گرم پانی میں ٹی بیگ کی طرح اتر کر ڈبکیاں کھانی ہوتی ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ یہی ہے کہ جو شخص زندگی میں برا وقت نہیں دیکھتا وہ اچھا وقت بھی نہیں دیکھتا۔ زندگی بس روٹین میں ہی چلتی رہتی ہے۔