Hakim Mohammed Said Se Juri Yaadon Ke Sath, Jamil Siddiqui
حکیم محمد سعید سے جڑی یادوں کے ساتھ، جمیل صدیقی
کہتے ہیں کہ بانی ہمدرد پاکستان حکیم محمد سعید (شہید) ایک ہی وقت میں کئی کئی صفحات بہت برق رفتاری سے لکھ دیا کرتے تھے۔ یہ 60 کی دہائی کی بات ہے۔ حکیم صاحب اپنے کمرے کی مخصوص نشست پر پیٹھے تحریر میں مصروف ہیں۔ نہایت عرق ریزی سے سینہ قرطاس پر لفظوں کی مالا سجائی جارہی ہے۔ کچھ صفحات لکھ کر حکیم صاحب ملازم کو آواز دے کر بلاتے ہیں۔ ملازم صفحات اٹھا کر باہر بیٹھے ایک نوجوان کے حوالے کرکے چلا جاتا ہے۔
کئی صفحات لکھنے کے بعد حکیم صاحب کمرے سے باہر نکلتے ہیں اور پوچھتے ہیں"لڑکے ابھی کتنے صفحے ٹائپ کر لئے"۔ نوجوان تمام صفحات کو پن لگاتے ہوئے کہتا ہے "تمام صفحات ٹائپ ہو چکے ہیں حکیم صاحب"۔ حکیم صاحب حیرت سے نوجوان کو دیکھتے ہیں اور اتنی تیز رفتاری سے ٹائپ کرنے پر اسی وقت 25 روپے بطور انعام دیتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب نوجوان کی تنخواہ 125 روپے ماہوار ہے۔ کسے پتہ تھا کہ یہ نوجوان آنے والے وقتوں میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ڈائریکٹر ٹریڈ ہمدرد کے عہدے پر پہنچے گا اور ہمدرد پاکستان میں 59 سال 6 ماہ کی طویل ترین ملازمت کا اعزاز حاصل کرے گا۔
یقینا اب آپ اس نوجوان سے ملنا بھی چاھیں گے۔ یہ ہیں اس وقت کے جوان رعنا جمیل صدیقی۔ تعلق میر کی اجڑی دلی سے ہے۔ حکیم محمد عثمان کے اکلوتے فرزند، بڑے ناز و اندام سے پلے۔ لڑکپن میں ہجرت کرکے کراچی کو مسکن بنایا۔ والد کا انتقال ہوا تو غریبی نے گھر میں ڈیرے ڈال لئے۔ جمیل صاحب کو میٹرک کرنے کے فورا بعد ملازمت کرنا پڑ گئی۔ ہمدرد میں آپ کے ایک خالو ہوا کرتے تھے۔ وہ انہیں ہمدرد لے آئے اور آپ مطب ہمدرد (برنس روڈ) میں شعبہ تشخیص و تجویز میں بطور اردو ٹائپسٹ منسلک ہو گئے۔ حکیم صاحب جب کچھ تحریر کرتے تو آپ کو اپنی رہائش گاہ ہمدرد ہاوس واقع شکارپور کالونی بلوا لیا کرتے۔ درج بالا واقعہ اسی ذیل میں ہے۔ حکیم صاحب جمیل صدیقی کی ٹائپانہ صلاحیتوں کے معترف تھے۔ جب اردن کے شہزادے سے شائستہ اکرام اللہ کی صاحبزادی آنسہ ثروت کی شادی طے ہوئی تو جمیل صدیقی کو جہیز کی فہرست ٹائپ کرنے کے لیے بھیجا گیا۔
جمیل صدیقی کے والد کا انتقال ان کے لڑکپن میں ہوگیا تھا۔ خاندانی حسب و نسب، خون کی تاثیر اور والد کے انتقال کے بعد والدہ کی تربیت جمیل زندگی کا اثاثہ ہے لیکن آپ کے بقول حکیم صاحب نے ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ شاید ان کی شخصیت کا اثر ہی رہا ہوگا کہ جمیل صاحب سفید شرٹ، سفید پتلون اور سفید جوتے پہنا کرتے تھے۔ حکیم صاحب ہمیشہ سفید شیروانی، سفید پائجامہ اور سفید جوتے پہنا کرتے تھے۔ جمیل صدیقی جب بھی حکیم محمد سعید کا تذکرہ کرتے ہیں تو واقعات کا ایک انبوہ کثیر ہوتا ہے جو اگر آپ لکھنے بیٹھیں تو پوری کتاب درکار ہوگی۔ بلا شبہ حکیم محمد سعید کی شخصیت ہی اتنی انسان دوست تھی۔
گو ایک یہ مضمون جمیل صدیقی کے حوالے سے ہے لیکن حکیم محمد سعید کی انسان شناسی و انسان دوستی کا ایک واقعہ لکھے بغیر رہا نہیں جا رہا۔ یہ واقعہ مجھے ایک بار جمیل صاحب نے ہی سنایا تھا۔
ایک مرتبہ کافی سال پہلے ہمدرد کے پروٹوکول ڈیپارٹمنٹ کے ایک صاحب سے ہمدرد کے کسی بڑے افسر نے بدتمیزی کردی۔ حکیم صاحب کو بہت دکھ ہوا لیکن اس کا مداوا ایک منفرد اور دوسروں کے لئے بڑے سبق آموز انداز سے کیا۔ میرا دعویٰ ہے کہ بڑے سے بڑا صاحب دل بھی ایسا نہیں کرسکتا۔ جمیل صاحب نے جو کچھ بتایا من و عن تحریر کررہا ہوں۔ حکیم صاحب نے ایک "معافی نامہ" اس شخص کے نام لکھا اور معافی اس طرح مانگی گئی جیسے کوئی ادنیٰ کسی اعلی سے مانگتا ہے۔ یہ معافی نامہ ہمدرد کے نوٹس بورڈ پر تین دن آویزاں رہا تاکہ ہر کس و ناکس اسے پڑھ لے۔ اس کے بعد حکیم صاحب خود اس شخص کے گھر گئے اور اسے انتہائی عزت و احترام سے ہمدرد واپس لے کر آئے۔
جمیل صدیقی کا خاندانی پیشہ مسیحائی رہا۔ باپ دادا جڑی بوٹیوں سے علاج کرکے لوگوں کو شفا یاب کرتے رہے۔ جمیل صدیقی نے یہ پیشہ تو اختیار نہ کیا مگر اپنی انسان دوستی اور صلہ رحمی سے لوگوں کی مشکلات کم کرتے رہے۔ اپنی شگفتہ مزاجی سے لوگوں کو ہنساتے رہے اور ہنسی علاج غم ہے کی عملی تصویر بنے رہے۔ نبض شناس و جہاں دیدہ ہیں۔ دافع رنج ہیں، بذلہ سنج ہیں۔ شوہروں کے لیے دل میں خاص ہمدردی کا جذبہ ہر وقت موج زن رہتا ہے۔ کہتے ہیں موج زن کو کبھی ایک ساتھ نہ لکھو دو لفظی لکھو تو پڑھنے میں مزہ آتا ہے۔ آپ کا ایک قول باعث فخر شوہراں ہے کہ جب تک آپ کی بیوی آپ پر شک کرتی رہے۔ آپ سمجھ لیں کہ آپ جوان ہیں۔ اسی طرح آپ کا یہ فرمانا "یہ ہماری اخلاقی و معاشرتی ذمہ داری ہے کہ کم از کم ایک بیوہ چھوڑ کر جائیں" جلی حروف میں لکھ کر قبرستان کے گیٹ پر لگا دینے کے قابل ہے تاکہ گھر جاتے زندہ شوہر یہ جان لیں کہ لیڈیز فرسٹ والی بات صرف اس وقت تک ہے جب تک آپ کی سانس چل رہی ہو۔
یہ تو ہوگئے جمیل صاحب کے اقوال زریں جو ان کی جواں فکر سوچ کے غماز ہیں۔ اب ذرا دیکھتے ہیں کہ جب ہم ان سے براہ راست ملتے ہیں تو شخص سے شخصیت کس پیرائے میں سامنے آتی ہے۔ خوش شکل، خوش قامت، خوش بیان، خوش لباس، خوش مزاج، خوش تدبیر اور خوش اوقات۔ اب آپ ہی بتائیں جب اتنی ساری خوش صفاتی ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو کون ہوگا جو آپ سے مل کر خوش نہ ہوگا؟ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ جیسے ہم جمیل صاحب کے لنگوٹیا یار دوستوں میں آتے ہیں تو ایسا بالکل بھی نہیں۔
یہ جو ایڈورٹائزنگ کی عجیب و غریب دنیا ہے اس میں بہ شکل کلائنٹ ہر طرح کے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ ہم تھے تلاش کلائنٹ میں، قسمت ہمیں ہمدرد کے در تک لے گئی جہاں جمیل صاحب، ڈائریکٹر ٹریڈ موجود تھے۔ ادبی ذوق کے حامل جمیل صآحب روایتی کلائنٹ سے یکسر مختلف نکلے اور پھر ہم ان کے حلقہ ارادت می ایسے شامل ہوئے کہ نکل ہی نہ پائے۔
جمیل صاحب سے ہماری ملاقات 2-2001 میں ہوئی۔ جمیل صاحب گفتگو میں حفظ مراتب کا پورا خیال رکھتے ہیں لیکن اپنی بات پوری کہہ جاتے ہیں۔ بات سے بات نکالنے اور سننے والے کو اپنی "ڈھب" پر لے آنا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ آپ صرف نام کے ہی جمیل نہیں صورت و سیرت میں بھی جمیل ہیں۔ ممکن ہی نہیں کہ آپ ان سے ملیں ان کی شخصیت کے اسیر نہ ہو جائیں۔ ایک دن ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی بیٹھا: "سر جوانی کیسی اور کیسے گزاری؟"۔ ایک قہقہہ لگایا اور بولے: "شباب ختم ہوا ایک عذاب ختم ہوا"۔
جمیل صاحب معاملہ فہمی اور فراخ دلی کا حسین امتزاج ہیں۔ جمیل صاحب نے ایک دن قصہ ماضی چھیڑتے ہوئے عجیب واقعہ سنایا جو بڑی حیرانی کا باعث تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 80 کی دہائی میں آپ ہمدرد زونل آفس (واقع برنس روڈ) میں ہوتے تھے۔ زونل آفس جس بلڈنگ میں تھا وہاں ایک ہوسٹل بھی تھا جس میں چند ایک جرائم پیشہ افراد بھی رہا کرتے تھے۔ ایک دن ہوسٹل میں قیام پذیر، دو مسلح افراد جمیل صدیقی کے پاس آ دھمکے اور کہنے لگے کہ ہمیں قتل کی دیت دینے کے لئے 3 لاکھ روپے درکار ہیں۔ جمیل صاحب ان کے ساتھ بہت عزت و احترام سے پیش آئے اور کہا کہ MD صاحب اہنے اختیارات میں رہتے ہوئے 20 ہزار روپے تک دے سکتے ہیں پھر اپنی گاڑی کی چابی انہیں دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہ گاڑی لے جائیں اور اسے فروخت کرکے اپنے پیسے پورے کر لیں۔ یہ کہنا تھا کہ وہ دونوں افراد ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ جمیل صاحب کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے؟ جس شخص کو چابی دی تھی۔ اس نے چابی واپس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مختلف لوگوں سے بہانے بہانے سے رقم لی ہے لیکن آپ جیسے شخص سے پہلی مرتبہ واسطہ پڑا ہے۔
جمیل صاحب ادب و آداب کے آدمی ہیں۔ کتب بینی خاص الخاص شوق ہے۔ ایک زمانے میں روزنامہ جنگ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم لکھتے رہے ہیں۔ یقینا دلی والوں کی اردو دانی سے کس کو انکار ہے۔ بقول ظہیر حسن دہلوی: دلی والوں کا اس حد تک زبان پر ناز کرنا درست ہے کہ ان کا تعلق زبان کے منبع و مخرج سے ہے۔ دلی سے تعلق اور حکما کے خاندان سے ہونا، تحریر کی خو بو تو آنی ہی تھی۔ اس پر صحبت بھی شعراء و ادبا میں رہی۔ ایک زمانے میں ہمدرد میں آپ اور قمر ہاشمی ایک میز کے فاصلے سے ساتھ ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ قمر ہاشمی آپ سے عمر میں بڑے تھے اور خاصا بڑا حلقہ احباب رکھتے تھے۔ ان کے پاس شاعر لکھنوی، ابراہیم جلیس، سحر انصاری وغیرہ کا آنا جانا تھا۔ مشہور شاعر دلاور فگار تو ناظم آباد میں آپ کے ہم محلہ تھے۔
ادبی شوق کو اور ہوا ملی اور آپ تحریر کی طرف آ نکلے۔ لکھا وہی جو طبیعت تھی۔ مطالعہ وسیع ہے لیکن کتب بینی کا رعب مار کر تعریف و توصیف کا مطالبہ نہیں کرتے۔ محفل پسند ہیں مگر مخصوص لوگوں میں۔ خلوت و جلوت دونوں میں پر بہار اور زندگی آثار شخصیت کے مالک ہیں۔ سادگی سے گہری بات کرنا اور وہ بھی غیر اہم انداز سے۔ یہ وصف اور ظرف کم لوگوں میں ہوتا ہے ورنہ یہاں تو لوگ سنی سنائی باتیں ایسے بتاتے ہیں جیسے ذاتی سوچ کا حاصل ہیں اور تمام جملہ حقوق بحق سرکار محفوظ ہیں۔
جمیل صاحب بالکل بھی خوشامد پسند نہیں اگر کوئی ملنے آ جائے تو بڑے "خوش آمدی" ہیں۔ جمیل صاحب زندگی کی 80 بہاریں تو دیکھ چکے ہوں گے۔ میں نے کبھی ان سے ان کی عمر کا پوچھا نہیں۔ میرا خیال ہے عورت سے کسی بھی عمر میں اور مرد سے اس کے بڑھاپے میں عمر پوچھنا ذہنی پسماندگی کے زمرے میں آتا ہے۔ میں بھی 50 سے اوپر کا ہوں۔ اگر کوئی انکل یا چاچا کہہ دے تو دل کرتا ہے اس سے کہوں"جا۔۔ جا" تو بھائی عمر کے معاملے میں جیسا اپنے لئے سوچو ویسا ہی دوسروں کے لئے۔ تم لوگوں کو عزت دو۔ پروردگار تمہاری عزت رکھے گا۔ جمیل صاحب لوگوں کی عزت رکھنے کا ہنر جانتے ہیں چاھے وہ اخلاقی ہو یا سماجی یا پھر معاشی۔ اللہ خوش رکھے جمیل صاحب کو! اس مادہ پرست معاشرے میں ایسے لوگ بطور تبرک رہ گئے ہیں۔ آپ جمیل صدیقی سے ملیں گے تو احساس ہوگا کہ وہ صلہ رحمی، ہمدردی اور انسان دوستی کا تبرک بلا تخصیص بانٹ رہے ہیں۔
(جمیل صدیقی صاحب کا چند برس قبل انتقال ہو چکا ہے۔ یہ مضمون ان کی زندگی میں لکھا گیا تھا۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا)۔