Boutique Clinic, Aaj Ke Aaj Ilaj
بوتیک کلینک، آج کے آج علاج
دنیا میں انسان آیا ہے تو بیمار بھی ہوگا۔ بیمار ہوگا تو علاج معالجہ بھی کرائے گا۔ ایلو پیتھک، ہومیو پیتھک، یونانی یہ تو عام ہیں۔ اس کے علاوہ نہ جانے کتنے طریقہ ہائے علاج ہیں۔ پانی، نمک، پھل، سبزیوں وغیرہ سے علاج تو صدیوں سے رائج ہے۔ ویسے دنیا کا سب سے مؤثر علاج طعنے تشنوں سے ہوتا ہے جو عورتیں آپس میں خود ہی کر لیتی ہیں اور صحت یاب بھی ہو جاتی ہیں۔
ڈاکٹرز یا معالج بلا تفریق مریضوں کا علاج کرتے ہیں لیکن جب رشتوں کے مابین علاج کی بات ہو تو پھر رشتے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے گھر میں ہی باتصدیق علاج دریافت کر لیا جاتا ہے جو تیر بہدف ثابت ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز یا معالج مرض کا جبکہ رشتے کے تعلق سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے۔
ہمارے ایک دوست ہیں، کہتے ہیں: شادی ہوئی، شروع کے دو تین سال بیوی بیمار پڑتی تو ڈاکٹر کے لے جاتے۔ کافی پیسا خرچ ہو جاتا مگر آسانی سے افاقہ نہ ہوتا۔ پھر میں نے۔ MBVS کرنے کا سوچا اور خود ہی اپنے آپ میں داخلہ لے لیا۔ خود ٹیچر، خود اسٹوڈنٹ اور صرف کیس بھی ایک تھا۔ دن بھر آفس میں ہوتا۔ گھر آکر کلاس اٹینڈ کرتا۔ کوئی سیکھانے والا نہ تھا۔ کبھی کوئی تگڑم لڑاتا ہے تو کبھی کوئی ہنر آزماتا۔ خوب دل لگا کر پڑھا، سمجھا، دن رات کچھ نہ دیکھا اور پھر بیوی کے بیمار پڑنے پر دنیا کا سب منفرد، کارگر اور نایاب علاج دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ علاج پر خرچہ اپنی جگہ، وہ تو ہر حال میں ہونا ہے لیکن اب زندگی سکون سے گزر رہی ہے۔ فیس ایکسپریشن کی نبض دیکھتا کر بتا دوں کہ کب، کیسے اور کہاں ہوگا؟
میں نے پوچھا: اس ڈگری کا بیوی کو پتا ہے؟
بولے: پتا تو ہوگا مگر انجان بنتی ہے یہ تو خیر ہر عورت کا مسئلہ ہے۔ وہ بیمار پڑتی ہے تو میں آس پاس کی تاریخیں دیکھتا ہوں، اس سے بیماری کی شدت اور علاج پر اخراجات کا اندازہ لگا لیتا ہوں۔ ایک ہی بار میں %100 شفا ہوتی ہے۔
مجھے بھی خوشی ہو رہی تھی: واقعی آپ جیسا شوہر اللہ ہر ایک کو دے۔
فورا بولے: مگر ایسی بیوی ہر ایک کو نہ دے۔
میری دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی: تو بھائی ڈاکٹر تو آپ خود ہیں پھر کیا مسئلہ ہوتا ہوگا؟
کہنے لگے: یہیں سے تو مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ہوں، تشخیص کرتا ہوں۔ پہلے بتایا ناں، علاج پر تو خرچہ آنا ہی ہے بھائی۔ بس مجھے یہ پتا ہوتا ہے کہ کہاں جانا ہے۔
جہاں میں نے کہا چلو، سمجھو آدھی بیماری تو گئی، بس پھر تم تیاری دیکھو۔ کوئی دیکھے تو مجھے مریض سمجھے۔
میں نے کہا: آپ تو خود ڈاکٹر ہیں۔ کہیں لے جانے کی کیا ضرورت ہے؟
مسکرائے: بھلے مانس، میں ڈاکٹر ہوں۔ بیماری تشخیص کرتا ہوں۔ میڈیسن تو باہر سے ہی لینی پڑتی ہے۔ اس میں مریض کا ساتھ جانا ضروری ہے۔ اگر وہ نہ جائے تو ممکن ہے وہ علاج سے ہی انکاری ہو جائے یا دیکھتے ہی ری ایکٹ کر جائے اور کہے کہ مر بھی جاؤں تو اسے ہاتھ نہ لگاؤں۔ جہاں ہم جاتے ہیں وہاں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مریض دیکھ کر صرف وہ کچھ سامنے رکھا جاتا ہے کہ جو مریض کو سوٹ کرتا ہو۔
میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کون سی میڈیسن کہ مریض کا ساتھ جانا ضروری ہو۔ مریض کو تو میڈیسن سے مطلب ہے۔
دوست نے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: میں جانتا ہوں تم کیا سوچ رہے ہو۔ یہ میڈیسن مریض اپنی مرضی سے خریدتا ہے۔ کوئی اور لے آئے تو ہاتھ نہیں لگاتا بلکہ طبیعت اور بگڑ جاتی ہے۔ میں تو صرف Dose کی مقدار طے کرکے اسے بتا دیتا ہوں۔ کہاں سے لینا ہے کا انتخاب وہ خود کرتی ہے۔
میں نے پوچھا: کیا کوئی خاص فارمیسی جاتی ہیں اور سال میں کتنی بار ایسا ہوتا ہے؟
گویا ہوئے: ایک تو رمضان کے مہینے میں اور ایک بقر عید پر۔ ویسے اس کے علاوہ دو تین مرتبہ اور۔ ہاں بھائی بہت خاص الخاص جگہ جاتے ہیں۔ بیوی پر رسک کون لے۔ دوسری پر پھر ٹائم لگاو۔
میں نے تائید کی: رمضان میں افطاری بھاری پڑ جاتی ہے اور بقر عید پر زیادہ گوشت سے بھی اثر پڑتا اور موسم بدلیں تو طبیعت خراب ہو ہی جاتی ہے۔
بہت معنی خیز انداز میں مسکرائے: لگتا ہے آپ کا ذہن بھی میری طرح سوچنا شروع کر رہا ہے۔ بس تم یوں سمجھو، وہ جس کا کہے، لے جاتا ہوں۔ کہتی ہے آج کل ہر چیز میں دو نمبری۔ سب کچھ کاپی ہو رہا ہے۔ اس لیے جینوئن جگہ جائیں گے۔
میرا تجسس بڑھ رہا تھا: تو پھر آپ لے جاتے ہیں؟
بہت اطمینان سے بولے: ہاں اپنی کسی بھی پسند کی بوتیک لے جاتی ہے۔
میں نے تقریبا چلا کر کہا: بھائی وہ بیمار اور آپ بوتیک؟
بولے: بیویوں کی اکثر بیماریوں کا علاج وہیں ہوتا ہے۔ میں نے۔ MBVS کرکے یہ جانا کہ عورتوں کا سب سے فوری اور تسلی و تشفی بخش علاج وہیں ہوتا ہے۔ بوتیک تو شوہروں کو دھوکا دینے کے لیے کہا جاتا ہے۔ میں تو انہیں بوتیک کلینک کہتا ہوں۔
اب مجھے دوست کی عقل پر شک ہونے لگا: لیکن وہاں تو لیڈیز سوٹ ملتے ہیں بھائی؟
اس نے میرا ہاتھ دباتے ہوئے کہا: ہاں تو میں کون سا وہاں مچھلیاں پکڑنے جاتا ہوں۔ کوئی کچھ کہے مگر اس کے علاؤہ سب نسخے نقص بھرے ہیں۔ صرف یہی علاج عورتوں کو سوٹ کرتا ہے۔ تین سوٹ دلوا دو۔ صبح، دوپہر اور رات کی خوراک کی طرح۔ پہلی خوراک میں بیمار ہٹا کٹا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
میں نے پوچھا: پھر ہوتا کیا ہے؟
اس نے آسمان کی طرف دیکھا: بوتیک سے سوٹ لے کر ایسی ہشاش بشاش نکلتی ہیں جیسے ڈریس لگوا کر آئی ہوں۔ کہتی ہیں علاج کرنا تو کوئی آپ سے سیکھے۔ میں کہتا ہوں اور جیب خالی کرنا کوئی آپ سے۔
میں نے سوچا اب تک میں کیا کر رہا تھا؟
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے تو سہی
یہ الگ بات کہ والٹ پہ گراں ہے تو سہی