Beemari Ke Shoqeen Mareez
بیماری کے شوقین مریض

بیمار مزاج شخص کو ملکی و غیر ملکی اتھل پتھل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کیونکہ اس کا سر کسی نہ کسی بیماری میں سر بہ سر ہوتا ہے۔ آپ لاکھ بات گھمائیں مہنگائی کا رونا روئیں۔ انہوں نے آخر میں مہنگائی کو گھما گھما پھرا کر بیماری پر لے انا ہے۔ آپ ملکی مسائل پر گفتگو کریں تو ان کا یہی کہنا ہوگا کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مرض شناس ڈاکٹرز کی عدم دستیابی ہے۔
سچ پوچھیں تو یہ ڈاکٹر سے اس غرض سے ملتے ہیں کہ انہیں ان کی مطلوبہ و مقصودہ بیماری کا مژدہ سنا دیا جائے۔ تو معاملہ کچھ یوں بنا کہ ڈاکٹر مرض شناس سے زیادہ ان کے مرض کا غرض شناس ہو۔
ایک بیماری سے تو بیمار مزاج کی داڑھ تک گیلی نہیں ہوتی۔ کم از کم دو سے تین بڑی بیماریاں ہوں تو دل کو سکون اور زندہ ہونے کا یقین آتا ہے۔ یہی نہیں اس کے ذہن میں مزید دو یا تین بیماریوں کی آمد و امید سر ابھار رہی ہوتی ہیں۔
بیمار مزاج کا کلینک یا اسپتال جانا قیامت سے کم نہیں۔ وہاں لگے بیماریوں سے متعلق پوسٹرز میں درج علامات میں سے تین چار ضرور اس میں پائی جاتی ہیں۔ اس پر وہ گھبراتا نہیں بلکہ سوچتا "مفت ہاتھ آئے تو برا کیا" مراد یہ ہے کہ ہم نے تو سوچا ہی نہیں بیٹھے بٹھائے دو ایک بیماریاں مل گئیں۔
بیمار مزاج شخص کبھی کسی ڈاکٹر سے مطمئن نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ ڈاکٹر اس کی بیماری سمجھ ہی نہیں پایا۔ بیمار مزاج کا مزاج بھنورے جیسا ہوتا ہے۔ کبھی اس ڈاکٹر کے تو کبھی اس ڈاکٹر کے پاس۔ اگر وہ کسی ڈاکٹر کی تعریف سن لیں تو اسے سوہنی سمجھتے ہیں اور ملنے کو مہینوال کی طرح بے تاب ہو جاتے ییں۔ اگر ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ آپ تو ٹھیک ہیں تو کیدو بن جاتے ہیں۔ بس نہیں چلتا کہ ڈاکٹر کو کرسی بدر کرکے کلینک سے باہر پھینک دیں۔ اس کی ڈگریاں جلا دیں اور مریضوں میں ا کر یہ اعلان کر دیں کہ اس پر اعتبار نہ کرنا۔ یہ تو مریضوں کو ٹھیک کرنے بیٹھا ہے۔
ہم جیئے جاتے ہیں یہ کہتا ہے حال اچھا ہے
بہی وجہ ہے بیمار مزاج لوگوں سے ڈاکٹرز دور بھاگتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ ان کو کم از کم ذہنی بیمار کرکے ضرور اٹھیں گے۔ وہ ڈاکٹر کو بیماری کی ایسی علامات بتاتے اور انہیں منوانے کی کوشش کرتے ہیں جو طب کی کسی کتاب اور ان کے تجربے میں نہیں ہوتی ہیں۔ بیمار مزاج کو اصل میں علاج سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔ وہ تو بیماری سے متعلق گفتگو کرکے اپنی معلومات اور اس کی بنیاد پر نئے خدشات اور ان خدشات کے بل بوتے پر مرکزی بیماری سے ذیلی بیماریاں دریافت کرنے کے مشن پر ہوتا ہے۔
بیمار مزاج عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند ہوتا ہے اور ایک طویل مگر بیمار پکار زندگی پاتا ہے۔ بیمار مزاج کو کسی کے انتقال کی خبر ملے تو اسے مرحوم کے سوگ سے زیادہ وجہ مرگ کی فکر ہوتی ہے۔ تعزیت کو جائے تو تعزیت میں بھی افسوس سے پہلے یہی پوچھتا ہے کہ کیسے انتقال ہوا۔ تفصیلات مل جائیں اور اگر مرحوم کا انتقال کسی ایسی بیماری سے ہوا ہو کہ جو ان کے ذہن میں پنپ رہی ہو تو وہ قبرستان جانے کے بجائے گھر جانے کی فکر کرتے ہیں اور اپنے اوپر موت کے ان تمام امکانات کا تا حد تدفین احاطہ کرتے ہیں۔
بیمار مزاج کسی بھی بیماری کو مستقل منہ نہیں لگاتے۔ دو تین دن دے دیں تو بڑی بات ہے۔ ہمارے ایک عزیز بیمار مزاج تھے۔ ڈاکٹر سے کہنے لگے کہ ہماری اس بیماری کا جلدی علاج کردیں۔ ہم اپنی دوسری بیماریوں پر توجہ نہیں دے پا رہے ہیں۔
غالب نے کہا تھا:
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
بیمار مزاج سے پوچھیں تو وہ یوں پڑھے گا۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں ڈاکٹر کو میں

