Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Athar Rasool Haider
  4. Zhaohua, China Ka Aik Qadeem Gaun (2)

Zhaohua, China Ka Aik Qadeem Gaun (2)

جوخوا، چین کا ایک قدیم گاؤں (2)

جوخوا جانے والی بس نہ ملی تو ہم نے پہلے سوچا کہ واپس چلیں پھر خیال آیا کہ اتنی دور آ گئے، آگے سارا دن پڑا ہے، کچھ تو کیا چاہئے۔ سوچا ایک طرف نکلتے ہیں، جو بس ملی بیٹھیں گے اور جہاں دل کیا اُتر جائیں گے۔ چین میں بسوں کے کرائے مقرر ہیں یعنی اپنا فون اسکین کرکے 2 یوان ادا کیجئے اور جہاں مرضی اتر جائیے۔ نہ کنڈکٹر نہ حساب کا چکر۔ چنانچہ جو پہلی بس ملی اس میں سوار ہو گئے۔ یہ بس انوکھی تھی کہ ڈرائیور نے چڑھتے ہی پوچھا، کہاں جاؤ گے۔ اس سوال سے پہلے سابقہ نہ پڑا تھا۔ فون پر اسے بتایا کہ ارادہ تو اس گاؤں کا تھا، لیکن اب جہاں آپ جاتے ہیں، وہیں جائیں گے۔ وہ خدا کا بندہ ہماری مشکل کو سمجھا، بٹن دبا کر 2 یوان فون سے وصول کئے اور بولا بیٹھ جاؤ۔

آگے ایک جگہ اتاروں گا، وہاں سے تمہیں مطلوبہ بس مل جائے گی۔ اس کو قسمت کا کھیل سمجھئے کہ یہ حضرت ہمارے ہی لئے خضر بن کر آئے تھے کہ اس کے بعد پھر ہمیں کوئی بس نہیں ملی جس میں ڈرائیور یوں مسافر سے پوچھ کر کرایہ طے کرتا ہو۔ بہرحال اس نے ہمیں جہاں لا کر اتارا اسے آپ ہمارے سیاق میں تانگوں کا اڈہ سمجھئے۔ یوں نہیں کہ وہاں واقعی تانگے کھڑے تھے، بلکہ یہ جگہ سرکاری بسوں (سچوان رورل ٹرانسپورٹ سسٹم) کا اڈہ تھی جہاں سے چھوٹی ویگنیں آس پاس کے دیہات کو بھیجی جاتی ہیں۔ ایسے اڈے پاکستان کے ہر شہر میں ہوتے ہیں جہاں سے کسی زمانے میں تانگے اور اب رکشہ مسافروں کو ملحقہ دیہات تک پہنچاتے ہیں۔ ایک بات میں البتہ مایوسی ہوئی کہ یہاں نہ کوئی ہمیں پکڑ کر ادھر اُدھر کھینچنے والا تھا جس سے اپنی اہمیت کا احساس ہوتا اور نہ کنڈکٹروں کی صدا کاری سے کان شاد ہوئے۔

باقی چین کی طرح ایک خودکار سسٹم کے ذریعے ٹکٹ خریدا۔ اسے پلیٹ فارم میں داخل ہونے کیلئے اسکین کیا اور ٹکٹ پر درج اسٹینڈ نمبر پر پہنچ گئے۔ یہاں ایک زرد ویگن کھڑی تھی، جس میں ہم سے پہلے دو مسافر بیٹھے تھے۔ یہ چالیس کے آس پاس کی خواتین تھیں اور حلیے سے کسان دکھائی دیتی تھیں۔ ہم سوار ہوئے اور ہمارے بعد ایک اور نوجوان بیٹھا۔ ساڑھے دس بجے مقررہ وقت پر ڈرائیور بھی پہنچ گیا۔ اس نے ہمارے سیٹ بیلٹ بندھوائے اور بس چلی۔ باہر نکلنے لگے تو پھر روکا گیا۔ ایک خاتون نے دروازہ کھول کر تسلی کی کہ سب نے بیلٹ باندھ رکھے ہیں اور ہمیں روانگی کا پروانہ دے دیا۔ کچھ دور جا کر یاد آیا کہ جا تو رہے ہیں، واپس کیونکر آئیں گے۔ فون پر ترجمہ کرکے نوجوان سے پوچھا کہ واپسی کے اسباب کیا ہوں گے تو اس نے انگریزی میں جواب دیا کہ مجھے خود معلوم نہیں۔

اس ناشناسا دیس میں یہ مانوس زبان سن کر حیرت ہوئی۔ پھر باتیں ہونے لگیں۔ یہ صاحب جنہیں ہم نوجوان سمجھے تھے اوسط عمر کا آدھے سے زیادہ حصہ گزار چکے تھے اور شنگھائی سے آئے تھے۔ وہیں کسی کمپنی میں ملازم تھے اور اب اپنی سالانہ چھٹیوں میں سچوان دیکھنے آئے تھے۔ انہوں نے ڈرائیور سے پوچھ کر بتایا کہ یہ بس ہر گھنٹے دو بعد وہاں سے چلتی ہے۔ آخری بس چھ بجے نکلے گی، اس کو پکڑنا لازم ہے ورنہ ٹیکسی کا سہارہ ہے یا اس خوابیدہ گاؤں کو ہی خواب گاہ بنانا ہوگا۔ ٹیکسی سے تو ہم معذور تھے اور گاؤں والوں کی سخاوت پر تکیہ کرنا خلاف مصلحت ہوتا، اس لیے اب ہمارے پاس چھ بجے تک ہی وقت تھا۔

ایک طرف دریائے جیالنگ اور دوسری طرف صنوبروں کے جنگل میں سفر کرتے ہوئے گھنٹے بھر میں ہم جوخوا کے دروازے پر پہنچ گئے۔ یہ جگہ چین میں خاصی مشہور ہے کہ باہر مقامی سیاحوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ چینی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی تعارفی تختیاں لگی تھیں۔ یہ گاؤں اس قدیم راستے پر واقع ہے جسے وسطی چین کا جی ٹی روڈ کہا جا سکتا ہے۔ انگریزی میں اسے شُو روڈ کہتے ہیں اور یہ ازمنہ قدیم سے پورے وسطی چین کو جوڑنے والا ایک راستہ ہے جو اکثر پہاڑی دروں، جنگلوں اور دریاؤں سے گزرتا ہے۔ باقی قدیم انسانی تہذیبوں کی طرح یہاں بھی آبادیاں اسی راستے کے ساتھ ساتھ موجود تھیں۔ ان میں سے اکثر گردِ وقت کی نذر ہوئیں یا بڑے شہروں میں تبدیل ہوگئیں جبکہ جوخوا کا گاؤں محکمہ سیاحت نے سجا سنوار کر سیاحوں کی دلچسپی کیلئے محفوظ کر دیا۔

گاؤں کے دروازے پر ٹکٹ گھر قائم تھا۔ یہاں سے پورے قصبے کی ایک ٹکٹ 100 یوان میں خریدی جا سکتی ہے یا اپنی دلچسپی کے مطابق اندر موجود مختلف جگہوں کے الگ الگ ٹکٹ 10 سے پندرہ یوان میں دستیاب ہوتے ہیں۔ ہم نے اس ٹکٹ گھر کو اسی بے نیازی سے دیکھا جس سے ہم اکثر بڑے مالوں کو دیکھتے ہیں کہ

لینا دینا اگر نہ ہو کچھ
بازار بھی ایک راستہ ہے

شہر میں داخل ہونے والی سڑک کے دونوں طرف سبزیوں، پھلوں اور مقامی نوادر کے اسٹال ہیں۔ پتھر سے بنی ہوئی سڑک صاف اور کھلی ہے۔ دونوں طرف پانی کا راستہ ہے جس میں صاف اور مصفا پانی بہتا ہے، کسی شوقین نے اسی میں رنگا رنگ مچھلیاں ڈال رکھی ہیں جو ادھر سے ادھر اٹھکیلیاں کرتی جاتی ہیں۔ عارضی بازار ختم ہوتا ہے تو اسی سڑک پر پتھر کی بنی ایک بلند چوکی آتی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں داروغہ والے بیٹھتے ہوں گے، اب خالی ہے اور اس پر چڑھ کر منچلے تصویریں اتارتے ہیں۔ اس چوکی سے گزرو تو دونوں طرف باقاعدہ دکانیں شروع ہوتی ہیں۔ یہ دکانیں بھی قدیم طرز کی ہیں یعنی دیواریں پتھر اور چوڑا دروازہ لکڑی کا۔ اکثر دکانوں میں دستکاری کا سامان ہے یا ریستوران ہیں۔

مقامی فنکار یہاں لکڑی یا پتھر پر ہاتھ آزماتے ہیں اور ان دو اشیاء سے کئی طرح کے جانور یا گوتم بدھ وغیرہ کے مجسمے بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ مقامی میووں سے تیار کردہ عجیب و غریب مٹھائیاں وافر بکتی ہیں۔ ایک صنعت جو یہیں دیکھی یہ تھی کہ دکان کے باہر پتھر کا ایک چبوترہ سا بنا کر اس پر اخروٹ، تل، بادام اور ایسے دیگر میوے بکھیر دیتے ہیں اور پھر ایک آدمی لکڑی کے بھاری ہتھوڑے سے انہیں کوٹنے لگتا ہے۔ اچھی طرح کوٹنے کے بعد تمام اشیاء یک جان ہو جائیں تو انہیں برفی کی طرح ڈلیوں میں کاٹ کر بیچتے ہیں۔ جگہ جگہ لڑکیاں یہ مٹھائی لے کر کھڑی آتے جاتے کو چکھا رہی تھیں۔ ہم نے بھی ایک دو جگہ چکھی، ہلکا میٹھا، السی کا سا ذائقہ تھا۔ وہی پنجیری سمجھ لیجئے جو ہمارے ہاں بڑی بوڑھیاں بنایا کرتی ہیں۔

یہ شہر کچھ زیادہ بڑا نہیں۔ اپنے اندرون لاہور کے برابر یا اس سے چھوٹا سمجھ لیجئے۔ مرکزی بازار شروع سے آخر تک ڈیڑھ میل ہوگا۔ اس کے علاوہ دائیں بائیں کسی گلی میں گھس جائیے تو وہ ایک میل پر جا کر ختم ہوگی۔ گلیاں اگرچہ بہت چوڑی لیکن ہمارے اندرون شہر کی بھول بھلیاں کی مانند آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ ان گلیوں میں رہائشی مکان ہیں جو کچھ بہت چھوٹے اور کچھ بہت بڑے ہیں۔ جگہ جگہ کھلے چوک بھی ہیں جہاں اب سیاحوں کیلئے کیفے وغیرہ بنا دیے گئے ہیں یا بچوں کی تفریح کا سامان ہے۔ اس دن پورے شہر میں غیر ملکی اکیلئے ہم ہی تھے اس لیے جدھر جاتے لوگ کام چھوڑ کر ہمیں دیکھنے لگتے۔ ایک خاتون کدو جیسا سوکھا ہوا کوئی پھل ڈوری میں لپیٹ کر بیچ رہی تھیں۔ ہم سے بھی سلام دعا ہوئی۔ پوچھا اس کو کھاتے کیسے ہیں تو بتایا کہ یہ کھانے نہیں پہننے کیلئے ہے۔ ہاتھ میں باندھو یا گاڑی میں لٹکاؤ، تمام آفات و بلیات سے محفوظ رہو گے۔ یہ تعویز انہوں نے ہمیں مفت دینا چاہا تو کملیش میاں بولے کہ چھوڑو کیا کرو گے۔ تعویز کی طاقت پہننے والے میں ہوتی ہے۔ بے یقینوں پر کام نہیں کرتے۔ تمہیں اپنوں پر یقین نہیں آتا ان سے کیا لو گے۔

شہر کے درمیان ایک معبد بھی موجود ہے جس میں مقامی خدا "جیان" کے کئی مجسمے رکھے ہیں۔ اہلِ چین کے ہاں مذہب کا درک کہانیوں کے ذریعے ہے۔ چنانچہ جیسے عیسائیت میں نئے سینٹ بنتے رہتے ہیں، یہاں بھی نئے خدا وجود میں آتے رہے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی فرد یا حکمران اپنی نیکیوں کیلئے مشہور ہوتا ہے تو اس کے مرنے پر کئی جھوٹی سچی کہانیاں بکھر جاتی ہیں۔ زیب داستان کیلئے پھر ان کہانیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جیسے ہمارے ہاں اکثر بادشاہ اکبر اکیلے کئی ہاتھیوں سے لڑتے دکھائی دیتے ہیں یا رائے احمد کھرل انگریزوں کی پوری رجمنٹ کو پچھاڑ دیتے ہیں۔ چند صدیوں بعد جب یہ داستانوی رنگ اتنا بڑھ جائے کہ مرحوم میں الوہی صفات دکھائی دینے لگیں تو اسے باقاعدہ خدا کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ جوخوا میں بھی جن کا معبد ہے وہ کسی زمانے میں شہر کے حکمران رہے تھے۔

کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک طرف اپنی سخاوت اور دوسری طرف کڑے عدل کے ذریعے بھائی چارے اور امن و امان کی ایسی صورت قائم کی تھی کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ لہذا اہل قصبہ آج تک ان کو یاد کرتے اور انہی کو پوجتے ہیں۔ معبد میں داخل ہوں تو پہلی ڈیوڑھی میں جیان صاحب کے دائیں بائیں نیکیوں پر جزا اور برائیوں پر سزا دینے والے خداؤں کے مجسمے موجود ہیں اور ان کے پیچھے چار دیواری پر مصوری کے ذریعے انہیں مصروف کار بھی دکھایا گیا ہے۔ گزرے زمانے میں یہ لوگ کافی شریر رہے ہوں گے کہ یہاں ہر تصویر میں سزا ہی سزا نظر آ ئی۔ کسی غریب کو کوڑے پڑ رہے ہیں تو کوئی کمر پر آگ سے داغا جا رہا ہے۔ کسی کی زبان پر کوئلے رکھے ہیں تو کسی کا زندہ باربی کیو بن رہا ہے۔

اس ڈیوڑھی سے گزر کر ایک صحن ہے جس میں کھڑا صنوبر کا درخت روایات کے مطابق پندرہ سو سال پرانا ہے۔ اتنی عمر گزار کر درخت کو بھی چھوٹے موٹے قطب ابدال کا درجہ مل جاتا ہے لہذا اس پر لوگوں نے سرخ جھنڈیاں باندھ رکھی ہیں۔ صحن کے چاروں طرف چار دیواری پر تقویٰ و خوش اخلاقی سے متعلق چین کی مشہور 24 کہانیاں مصور کی گئی ہیں۔ اسی صحن میں اگربتیاں جلانے کو وہ بڑا سا اسٹینڈ بھی موجود ہے جو بدھ مت کے ہر ٹیمپل میں دکھائی دیتا ہے۔ صحن کے بعد اصل بڑا کمرہ ہے جس میں ایک مجسمہ جیان کا اور ایک بدھ جی کا رکھا ہے اور سامنے موم بتیاں جل رہی ہیں۔ اس کمرے کے باہر ہمیں ایک یورپی نما چینی خاتون ملیں جو اپنی انگریزی کے پندرہ لفظ ہم پر آزمانا چاہتی تھیں۔

عمر یہی کوئی چالیس، پچاس ہوگی۔ ہمیں پاکستانی جان کر بڑی خوش ہوئیں اور بتایا کہ ان کا آنلائن بوائے فرینڈ پاکستانی ہے۔ فون پر تصویر دکھائی تو ہمارے ایک پٹھان بھائی تھے۔ عمر بیس، بائیس کے قریب لیکن خوبصورت تھے۔ ہم نے جوڑی کی تعریف کی اور دعا دی کہ خدا جلد دونوں کو ملوائے۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ گوری میموں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں میں بھی ہمارا دائرہ عقد بڑھ رہا ہے۔ سچ ہے کہ دشت تو دشت، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے۔

یہ معبد ساتویں سے نویں صدی کے دوران تانگ سلطنت کے عہد میں تعمیر ہوا، اس کے بعد سونگ عہد (دسویں سے تیرہویں صدی) میں اس کی توسیع ہوئی اور گزشتہ صدی میں ثقافتی انقلاب کے دوران تباہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد جی پچھتایا تو 2008ء میں دوبارہ تعمیر ہوا۔ اب چاند کے تیسرے مہینے کی تیسری تاریخ کو یہاں میلہ لگتا ہے۔ قدیم دور میں رواج تھا کہ شہر کے چار تگڑے لوگ میلے کے دن جیان کے بت کو اٹھا کر گلی گلی پھراتے اور پھر حاکم کے دروازے پر رکھ دیتے۔ یہاں اگربتیوں کا دھواں دیا جاتا اور سات دن تک میلے کی تقریبات جاری رہتیں۔ اب یہ رونقیں ماند پڑ چکی ہیں۔

معبد سے نکلے تو ایک ریستوران خالی دیکھ کر اس میں گھسے۔ ایک نوجوان آدمی ڈرم میں نوڈل ابال رہا تھا جبکہ اس کی بی بی بیٹھی ڈمپلنگ بھر رہی تھیں۔ ہم نے یہاں مشاہدے سے سیکھا ہے کہ جو ریستوران جتنا خالی ہو وہاں بغیر پورک کھانا ملنے کے امکانات اتنے ہی بہتر ہوتے ہیں۔ یہاں سبزیوں کا سوپ دستیاب ہوا۔ کھاتے ہوئے ان سے بات بھی ہوتی رہی۔ چھوٹے شہر میں آدمی بے وجہ عجوبہ بن جاتا ہے۔ پاکستان کا بتایا تو باقی لوگ بھی آئرن برادر۔ آئرن برادر کہنے لگے۔ بل دینے کی باری آئی تو کافی اصرار کے باوجود ہم سے بل بھی نہیں لیا گیا۔ نوجوان جس کا نام چین شو تھا، کہنے لگا کہ چینی لوگ پاکستانیوں کیلئے دل میں خاص قربت محسوس کرتے ہیں، اس لیے یہ گناہ ہم سے نہ ہوگا۔ ہم نے بہتیرا سمجھایا کہ صبح سے ہم کئی چینیوں کو گنہ گار کر چکے ہیں تو تم اپنا نقصان کیوں کرتے ہو، لیکن وہ دونوں میاں بیوی اپنی جگہ اڑے رہے بلکہ ہمیں اپنے ساتھ مچھلی کے شکار پر چلنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ یہ تجربہ ہم ضرور کرتے لیکن ہمیں چھ بجے سے پہلے نکلنا تھا اس لیے معذرت کر لی۔

جوخوا کا میوزیم خاصا وسیع ہے۔ اس میں شہر کے آس پاس سے دریافت ہونے والے سینکڑوں نوادرات محفوظ ہیں۔ ٹکٹ تو ہم نے نہیں خریدا تھا لیکن یاں بھی پاکستانی ہونا کام آیا۔ اکثر نوادرات اڑھائی ہزار سال پرانی اینٹوں، کھلونوں، برتنوں، یا مجسموں پر مشتمل ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مجسموں کی ایک پوری فوج موجود ہے۔ اس کے علاوہ سپاہیوں، گویوں، موسیقاروں، دیومالائی جانوروں اور جنوں، بھوتوں کے مجسمے بھی موجود ہیں۔ پتھر سے بنی ہوئی گھوڑا گاڑیاں اور ماڈل بھی رکھے ہیں۔ یہاں ہم نے قدیم انداز کی ایک قبر کے اندر بھی جھانک کر دیکھا۔ یہ قبریں ایک تہہ خانے کی طرح بنائی جاتی تھیں جس کے اندر تابوت رکھ کر ایک پتھر کا پہرے دار بٹھا دیا جاتا تھا۔ یہ پہرے دار کس حد تک مؤثر تھے، خدا ہی جانتا ہے، البتہ اتنا ہم نے دیکھا کہ اکثر مردے اب غائب ہیں۔ میوزیم تقریباً خالی تھا اس لیے کملیش میاں ہمیں اُکسانے لگے کہ ذرا اندر اُتر کر تو دیکھو Ambience کیسی ہے۔ لاحول ولا قوۃ پڑھ کر بڑی مشکل سے انہیں ٹالا۔

میوزیم شہر کے مرکزی بازار میں ہے۔ اس سے نکل کر ہم ذرا دائیں بائیں ہوئے تو سیاح پیچھے رہ گئے اور ہم اصل گاؤں میں داخل ہو گئے۔ یہ حصہ جو دریا کے بالکل ساتھ تھا، اپنے پنجاب جیسا ہی لگا، سوائے اس کے کہ کھیت ذرا چھوٹے تھے اور سارا کام ہاتھوں یا دیسی اوزاروں کی مدد سے انجام پا رہا تھا۔ بزرگوں کی گالیاں بھی سنائی نہ دیں۔ کچھ باتیں ہو تو رہی تھیں لیکن گھریلو خواتین کا تذکرہ ان میں شامل تھا یا نہیں، کہنا مشکل ہے۔ خیر سچوان چونکہ مرچ کیلئے مشہور ہے، اس لئے اکثر فصل مرچ کی ہی تھی، ہاں کہیں کہیں لوگوں نے مکئی کے سٹے بھی بالکنیوں سے سوکھنے کو لٹکا رکھے تھے۔ دریائے جیالنگ کا پانی یہاں مزید سبز ہو جاتا ہے۔

شام سات بجے بس اسٹیشن پہنچ کر ہم نے یونیورسٹی کیلئے بس پکڑی تو ہمیں انہی خاتون نے خوش آمدید کہا جو صبح ہمیں لے کر آئی تھیں۔ ہماری جیب میں تیرہ یوان بچ رہے تھے اور ان کے ہاتھ پر ہنوز 13 لکھا ہوا تھا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam