Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Athar Rasool Haider
  4. Zhaohua, China Ka Aik Qadeem Gaun (1)

Zhaohua, China Ka Aik Qadeem Gaun (1)

جوخوا، چین کا ایک قدیم گاؤں (1)

بات عجیب ہے لیکن کہنے دیجئے کہ سیاحت کا مزہ بھی خالی جیب آتا ہے۔ ہمیں میزبان کہاں کہاں لے جاتے رہے لیکن ہم جیسے گئے ویسے ہی واپس پلٹ آئے۔ یہ نہ سمجھئے کہ سہولیات کی کمی ہوگی، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ فرض کیجئے آپ کو ایک تاریخی قلعہ دیکھنے جانا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ دو ہفتہ پہلے وقت اور تاریخ کا فیصلہ ہوگا۔ پھر انتظامات کیلئے ایک کمپنی سے معاملات ہوں گے۔ مقررہ وقت پر تمام لوگ اعلان کردہ جگہ پر جمع ہو کر پاکستانی شرکاء کا انتظار کریں گے۔ اس کے بعد پورے گروپ کو بس میں بھر، روانہ ہوں گے۔ راستے میں کمپنی کا نمائندہ چینی زبان میں ایک لیکچر دے گا اور منزل کے متعلق آپ کی معلومات میں کسی قسم کا اضافہ کرنے سے قاصر رہے گا۔ پہنچ کر پانی سے تواضع کی جائے گی اور کمپنی کا نمائندہ جھنڈا تھام کر آگے چلے گا۔ دروازے پر چند تصویریں کھنچوائی جائیں گی اور بتایا جائے گا کہ جگہ کی تاریخی اہمیت کیا ہے اور یہاں فلاں فلاں حسین مقامات آتے ہیں۔

لیکن اگر آپ چاہیں کہ بنفسِ نفیس ذرا آگے بڑھ کر خود جھانک لیں تو اس کی اجازت نہیں کہ جو چینی ہے وہ بارہا یہاں آ چکا ہے اور ہمارے نوجوانوں کو ان فرسودہ نشانیوں سے کیا لینا۔ وہ تصاویر اتروانے یا باہر کھڑے ہو کر پیتم کو فون ملانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ ایک ساتھی یہاں آنے سے پہلے تبلیغی جماعت کے دورے پر تھے۔ انہیں کہیں بھی رونق دیکھ کر عقبیٰ کی یاد آتی ہے۔ "اطہر صاحب! دیکھئے کتنی خلقت ہے اور ایک بھی جنت میں جانے کے قابل نہیں"۔ یا پھر "اطہر صاحب! خدا نے اس قوم کو کتنا کچھ دیا ہے، لیکن آخر انہیں ایمان کی دولت کیوں نہیں ملی"۔ ہمیں معلوم ہوتا تو ضرور بتاتے کہ کیوں نہیں ملی اور اگر ملنی ہو تو کیسے ملے گی۔ لیکن چونکہ ہمارا مطالعہ محدود اور علم محدود تر ہے اس لیے ہم "بس اس کی حکمتیں ہیں" کہہ کر یہ بحث سمیٹ دیتے ہیں۔

قصہ مختصر تاریخ و جغرافیہ جیسے پھیکے مضامین سے دل بہلانے والے مجرد آدمی کیلئے پورے گروپ کی راہ کھوٹی نہیں کی جا سکتی۔ البتہ ایسے موقعوں پر کملیش ہمارا ساتھ دیتا ہے۔ "نواب صاحب تم جانو کہ یہی بادشاہ ایسے عاشق دیوار میں چُنوا دیا کرتے تھے اور ہائے عبرت کہ اب مقبروں میں پڑے ہم جیسوں کی راہ دیکھتے ہیں۔ چلو ذرا ہم ہی ان کا دل بہلا آئیں"۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنے تئیں کچھ چیزیں دریافت کی جائیں۔ جیب آباد نہیں تو نہ سہی، ملک خدا تنگ نیست، پائے مرا لنگ نیست، دیکھئے کیا پڑتی ہے۔ شہر کے قریب ایک گاؤں کا تذکرہ سن رکھا تھا کہ ہزاروں سال قدیم طرز پر قائم ہے اور سیاحت والوں نے اسی حال میں محفوظ کر رکھا ہے۔ اسے دیکھنے کی ٹھانی۔ انٹرنیٹ اور نقشوں سے کچھ مدد لی تو معلوم ہوا کہ چند بسیں بدل کر محکمہ سیاحت کے دفتر پہنچیں اور وہاں جوخوا جانے والی بس تلاش کریں۔ یہ بس گھنٹے بھر میں منزل پر پہنچاتی ہے۔ بات سادہ تھی، سمجھ میں آئی۔ گزشتہ اتوار کو صبح اٹھے اور پیدل نکلے۔ جو بس معلوم تھی، اس کا انتظار کیا۔ آئی تو دیکھا ایک خاتون ڈرائیور ہے۔ ہم نے نقشے پر مطلوبہ جگہ دکھائی تو وہ نہیں نہیں کرنے لگیں۔ صبح کا وقت اور بس خالی تھی، کافی دیر ایک دوسرے سے اوں آں کرتے رہے۔

چین میں ایک مشکل یہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی انگریزی میں کورے ہوتے ہیں۔ اس پر طرح یہ کہ یہاں اشاروں کی زبان نہیں چلتی کہ وہ بھی خدا کے بندوں نے اپنی بنا رکھی ہے۔ مثلاً باقی دنیا میں آپ کو ہاں کہنا ہو تو سر اوپر نیچے ہلایئے اور نہ کہنا مقصود ہو تو اسے دائیں بائیں حرکت دیجئے۔ یہاں ہاں کہنے کیلئے ہاتھ سے ایک نشان بناتے ہیں اور نہ کہنے کیلئے دونوں ہاتھوں کو سر سے اونچا لے جا کر ایک کانٹا سا بنا دیتے ہیں۔ آغاز میں اس نہیں، کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں اکثر لگا کہ چینی بھائی جو ابھی ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا ابھی ہم پر جھپٹنے کو ہے۔ خیر اس خاتون نے جب دیکھا کہ پتھر میں جونک نہیں لگتی تو جیب سے قلم نکالا اور اپنے ہاتھ پر 13 کا ہندسہ لکھ کر پیچھے آنے والی بس کو اشارہ کیا۔ یوں ہم اسے چھوڑ کر دوسری بس میں سوار ہوئے اور وہ چلی۔

یہاں شہر کے اندر چلنے والی بسیں اگرچہ بجلی کی ہیں لیکن مسافر ہر کرنٹ سے خالی ہوتے ہیں۔ کسی بس میں بیٹھئے اور دیکھئے کہ ایک اولڈ ہوم میں داخل ہوئے۔ جو مسافر ساٹھ کا ہو اسے جوان سمجھئے۔ اسیّ نوے کا سن عام بات ہے اور اس سے اوپر کوئی حد نہیں۔ ڈرائیور اسٹاپ پر دروازہ کھول کر ایک ایک مسافر کو دیکھتا ہے۔ بوڑھے اپنا کارڈ اسکین کرتے ہیں اور لرزتے ہوئے سیٹ تک پہنچتے ہیں۔ ڈرائیور نظر رکھتا ہے، آخری مسافر بیٹھ چکے تو بس ہلتی ہے۔ ہم دو چار اسٹاپ گئے ہوں گے کہ بس بھر گئی۔ اس کے بعد ایک بڑے میاں آئے تو ہم نے اپنی سیٹ انہیں پیش کر دی۔ اس پر بس کے سارے مسافر آپس میں چہ مگوئیاں کرنے اور ہمیں یوں تحسین آمیز نظروں سے دیکھنے لگے کہ ہم نے گویا ابھی حاتم طائی کو مات دی ہے۔

ایک بڑی بی جن کے ابرو بھی سفید ہو چکے تھے، ہم سے کچھ کہنے لگیں۔ ہم نے چینی میں یہ بتانا سیکھ لیا ہے کہ ہم آپ کی زبان میں اندھے ہیں۔ کئی دفعہ یہ جملہ دہرایا لیکن بے سود۔ اس کے بعد اشاروں میں سمجھانے کی کوشش کی تو وہ بھی ناکام رہی، پھر فقط سر ہلاتے رہے۔ انہوں نے اسی کو ہاں سمجھا اور جب ان کے اسٹاپ پر بس رکی تو بولیں کہ چلو۔ کہاں چلیں؟ ڈرائیور نے دیکھا کہ بڑی بی دروازہ نہیں چھوڑتیں تو وہ بیچ میں پڑا۔ ہم نے فون کو ترجمان بنا کر اس سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ دادی اماں ہمیں اپنے ساتھ گھر لے جا کر ناشتہ کروانا چاہتی ہیں اور ہم اس پر رضامندی کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ چنانچہ اب ان سے معذرت کی کہ یہ منصوبہ کسی اور دن پر رکھئے، آج ہمیں کہیں اور پہنچنا ہے۔ اس کے بعد وہ کیا کہتی ہوئی رخصت ہوئیں، یہ نہ ہم سمجھے نہ ڈرائیور سے پوچھا۔

نقشے کے مطابق محکمہ سیاحت کے مرکز پہنچ کر ہمیں جوخوا جانے والی بس تلاش کرنا تھی۔ وہاں پہنچ کر اترے تو دیکھا کہ وہاں بس تو درکنار محکمہ سیاحت کا دفتر بھی نہیں ہے۔ یہ جگہ ریلوے اسٹیشن کے بالکل سامنے اور اصل میں بین الصوبائی بسوں کا اڈہ تھی۔ ہم کافی دیر ادھر اُدھر مطلوبہ بس تلاش کرتے رہے لیکن وہ ہوتی تو ملتی۔ آخر باہر نکل کر ایک آدمی سے پوچھا۔ یہ حضرت ٹیکسی والے تھے اور ہمارا ان سے سلام لینا تھا کہ پندرہ کے قریب انجان چہروں نے ہمیں گھیر لیا اور فٹ بال کی طرح ادھر سے اُدھر کرنے لگے۔ ہر ایک معمولی قیمت یعنی صرف 100 یوان کے بدلے ہماری تواضع پر مصر تھا۔ ادھر اپنی جیب میں جانے اور آنے کیلئے فقط تیس یوان تھے۔ آخر یہ کہہ کر ان سے جان خلاصی ہوئی کہ بھائی لوگو! ہم جانتے ہیں کہ آپ ایک اجنبی کی خدمت میں دنیا و آخرت کا سامان چاہتے ہیں لیکن ہمارے نازک کندھے فی الحال اس احسان کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔

دراصل ایسا دھوکہ ہمیں پہلے بھی ہو چکا تھا۔ وہ کیا قصہ تھا، سن لیجئے۔ یہاں پہنچ کر پہلے دن جب ہم ٹیکسی میں بیٹھے تو منزل پر پہنچ کر ڈرائیور خاتون ہم سے کرایہ لینے میں پس و پیش کرنے لگیں۔ لاکھ سمجھایا کہ تقاضائے مہمانداری اپنی جگہ، ہم آپ پر یہ بار کیوں ڈالیں۔ وہاں مرغے کی ایک ہی ٹانگ کہ آپ سے یہ پیسے ہم نہ لیں گے۔ آخر ہم نے نم آنکھوں کے ساتھ جھک جھک کر شکریہ ادا کیا اور کانپتے ہاتھوں سے پیسے جیب میں رکھ لیے۔ لیکن جوں ہی گاڑی سے باہر ہوئے، فون پر میسج ملا کہ کرایہ آپ کے اکاؤنٹ سے کٹ گیاہے۔ بات یہ کہ یہاں کاغذی کرنسی کا چلن کتنے سال ہوئے ختم ہو چکا ہے، ان محترمہ کو مسئلہ ہم سے پیسے لینے میں نہیں، کاغذ کے نوٹ لینے میں تھا۔

خیر بس ڈھونڈنے میں ہم ناکام رہے اور اپنی پہلی انفرادی مہم کا یہ نتیجہ دیکھ کر کچھ افسوس تو ہوا لیکن سوچا کوئی بات نہیں۔ اب واپس چلیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari