Urfan Shahod Sahib Aur Un Ki Panjeri
عرفان شہود صاحب اور ان کی پنجیری
عرفان صاحب ہمارے ہمسائے یعنی عارفوالہ میں رہتے ہیں۔ حکیم بالکل نہیں ہیں بلکہ ٹھیٹ سرمایہ دارانہ قسم کی نوکری کرتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ یہ ان سرمایہ داروں کو بھی غچہ دے جاتے ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو آگے لگا رکھا ہے، وہ یوں کہ ہر دو دن بعد کسی نئی جگہ کے سفر پر نکلتے ہیں، نئے گوٹھوں کا پانی پیتے ہیں، مختلف ہواؤں میں سانس لیتے ہیں کسی اور مٹی پر پاؤں دھرتے ہیں لوگ شمال کی طرف جاتے ہیں یہ جنوب کو منہ کرتے ہیں اور سال بھر میں یہ رنگارنگ ذائقے جمع کرکے ایک کتاب کی شکل میں پنجیری بنا دیتے ہیں۔ مجھے یہ تحفہ سردیوں کے آغاز میں ملا تھا۔ رفتہ رفتہ پڑھتا رہا۔ آج ختم ہوئی۔
عرفان صاحب شاعر بھی ہیں، افسانہ نگار بھی، درد دل رکھنے والے صحافی بھی اور سماجی مبصر بھی۔ ان کی شخصیت میں رومی و رازی دونوں موجود ہیں۔ یعنی دل اور دماغ دونوں سے سوچتے ہیں۔ جہاں آنکھ خوبصورتی دیکھتی ہے وہیں ان کا دماغ بدلتی دنیا کے مسائل پر رنجیدہ نظر آتا ہے۔ اس کتاب میں ان کے مختلف اسفار کا تذکرہ ہے جو زیادہ تر افسانوں سے ملتی جلتی صورت میں پیش کیے ہیں۔ کچھ تحریریں ایسی بھی ہیں جن کا سفر سے کوئی تعلق نہیں اور وہ خالصتاً افسانہ معلوم ہوتی ہیں، مثلاً اردو شاعروں کو دام فریب میں پھنسانے والی ترک حسینہ کا قصہ یا ان کے گاؤں کا جغرافیہ۔
مجموعی طور پر ان کی تحریر میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ حال کی کڑی کہاں ماضی کی کڑیوں سے جا ملتی ہے اور حقیقت کب کہانی کا روپ دھارنے لگتی ہے۔ ان تحریروں میں مصنف نے شاید شعوری طور پر طوالت کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اسی وجہ سے کہیں کہیں جملے معنی خیز الفاظ کی بھرمار کے باعث زبان پر اٹکنے لگتے ہیں۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ دی جائے۔ اسے تحریر کی خوبی بھی سمجھا جا سکتا ہے اور خامی بھی لیکن ان کے اچھوتے اور دلچسپ موضوعات اس کی تلافی کر دیتے ہیں۔ یہ دلچسپی آپ کے شعور کو حیرت میں مبتلا کرنے والی نہیں بلکہ دل کو نئی کیفیات سے روشناس کروانے والی ہے۔ مثلاً ایک دفعہ مکتوبات اقبال میں امراؤ سنگھ کے حوالے سے امرتا شیر گل کا تذکرہ پڑھا تھا کہ وہ پنجاب کی بڑی جاندار مصور گزری ہیں۔ ان کی رنگارنگ زندگی نے عرفان شہود کو بھی متاثر کیا ہے اور وہ انہوں نے اپنا ایک سفر لاہور میں اس کے نام کیا ہے۔
گئے زمانوں میں پیشہ ور مہم جو (Explorer) ہوا کرتے تھے جن کی زندگیاں نئے علاقوں کی دریافت اور عجائبات دنیا کو ڈھونڈنے میں صرف ہوتی تھیں۔ بیسویں صدی تک تو یہ پیشہ موجود رہا لیکن پھر لوگوں نے اور بے مقصد کام نکال لیے۔ لیکن "چونکہ جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود" اس لیے عرفان صاحب اکیسویں صدی میں بھی اس کام کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ پنجاب یا پاکستان کا کوئی غیر معروف دورافتادہ مقام ایسا ہوگا جو ان کے قدم رسا، سے بچ گیا ہو۔ اگر کوئی رہ گیا ہوا تو یقیناً تیسری کتاب تک عرفان صاحب وہاں پہنچ جائیں گے۔
یہ موجودہ کتاب ایمل مطبوعات اسلام آباد سے چھپی ہے اور حیران کن حد تک اچھی چھاپی گئی ہے۔ بڑی باریک بینی سے تناسب اور توازن برقرار رکھا گیا ہے۔ کتاب کو دیکھتے ہوئے کئی چھوٹی چھوٹی تفصیلات پر نظر جاتی ہے جو عام طور پر نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ بہت مناسب قیمت میں مجھ تک پہنچ گئی تھی۔ تمام دوستوں کو مشورہ ہے کہ وہ بھی اس کتاب کو ضرور پڑھیں۔