Punjabi Walon Ki Khidmat Mein Aik Arzi
پنجابی والوں کی خدمت میں ایک عرضی

میرا بچپن ایک نیم شہری علاقے میں گزرا جہاں پنجابی کا وہ لہجہ یا ڈکشن میں نے کبھی نہیں سنا جو عام طور پر پنجابی ادب کی محفلوں میں دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ دیہات میں بھی آنا جانا رہا لیکن وہاں بھی بدقسمتی سے میں اس پنجابی کو نہیں پا سکا جس میں پنجابی کا ادب موجود ہے یا لکھا جا رہا ہے۔ اس کا نقصان ظاہر ہے کسی اور کو نہیں بلکہ خود ہی کو ہوا کہ میں ایسی خوبصورت زبان کے علمی و ادبی سرمائے سے محروم رہا۔
تاہم جب کچھ شعور حاصل ہوا تو اس کمی کا باقاعدہ شدت کے ساتھ احساس ہونے لگا، خصوصاً اب جب میں بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید اور شاہ حسین وغیرہ کو سنتا ہوں تو ان کو سمجھنے اور مزید پڑھنے کی خوہش پیدا ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے آج کی دنیا میں بھی کوئی وسیلہ ایسا موجود نہیں جہاں ان عظیم شعرا کا کلام کہیں آنلائن ایسی صورت میں موجود ہو جہاں آسانی سے اسے سرچ کرکے دیکھا جا سکے۔ آج میں خواجہ غلام فرید سے منسوب ایک مشہور کافی انٹر نیٹ پر تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا، اگرچہ کئی مشہور گلوکار اسے گا چکے ہیں اور لاکھوں لوگ سنتے ہیں۔ شو کمار بٹالوی کو ہم زبانی سن کر حسرت کرتے رہے کہ پچھلے چھ سات سال سے اس کا کلام کسی منضبط صورت میں دستیاب نہیں تھا۔
آج دنیا وہاں ہے کہ آپ شیکسپئر کا ایک لفظ ڈھونڈنا چاہیں تو آنلائن ایسے وسائل موجود ہیں جہاں آپ کو تمام تفصیل مل جائے گی کہ اس نے مطلوبہ لفظ اپنے پورے کام میں کہاں کہاں اور کن کن معنوں میں برتا ہے۔ ہمارے پنجابی فہم دوست اقبال، فیض اور غالب سے کسی حد تک نفرت کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے پنجابی میں کیوں نہ لکھا جبکہ دیکھا جائے تو انہیں اردو میں لکھنے کا فائدہ ہی ہوا، خدا اجر دے کوئی صدیقی صاحب ہیں جن نے میر، غالب اور اقبال کے کلام پر ایسی ایپلی کیشنز بنا کر ڈال دی ہیں جن میں آپ بغیر کسی اشتہار کے ان شعرا کا کلام نہ صرف پڑھ سکتے ہیں بلکہ اس میں لفظ تلاش کرنا اور کاپی کرنا بھی انتہائی سہل ہے۔ آج اپنا جیسا بھی برا بھلا ادبی ذوق ہے اس میں ان ایپلی کیشنز کا بڑا کردار ہے۔ اقبال اور فیض نے اگر پنجابی میں لکھا ہوتا تو آج مجھ جیسے ناجانے کتنے ایک مصرعے کے ساتھ دوسرا مصرعہ ڈھونڈنے کیلئے ٹکریں مار رہے ہوتے۔
ایکٹیویزم بجا لیکن کوئی پنجابی والا دوست بلھے شاہ یا خواجہ غلام فرید سے اتنی محبت بھی نہیں کرتا کہ ان کا کلام کسی جگہ اکٹھا کر دے تا کہ خلوص دل سے کوشش کرنے والوں کی راہیں ہی صاف ہو جائیں؟
حکومتوں سے توقع رکھنا عبث ہے، حکومتی پیسوں سے اردو کی ایک لغت بنی تھی جو آج تک کسی کے کام نہیں آئی کیونکہ وہ کھلتی ہی نہیں جبکہ دوسری طرف نجی دلچسپی سے ایک آدمی نے ریختہ جیسا بڑا ادارہ کھڑا کر دیا ہے!

