Niklana Hamara Pakistan Se Aur Maarka e Lahore
نکلنا ہمارا پاکستان سےاور معرکہ لاہور

ہمارے ویزے کی داستان عبرت نشان آپ نے ملاحظہ کی۔ پاسپورٹ ملنے کے بعد ہم نے اہل خانہ سے صاف کہہ دیا تھا کہ صاحب لوگوں کی مانند ٹیکسی کرکے خود ایئرپورٹ پہنچیں گے اور جیسا کہ فلموں میں دیکھا ہے، پہیوں والا ایک نہایت ہلکا سا بیگ بلاتردد ہمارے پیچھے پھسلتا آئے گا۔ یوں ارد گرد کے لوگوں پر تفاخر آمیز نظر ڈالتے خراماں خراماں تمام مرحلے نپٹا کر سیدھے جہاز کی مقررہ سیٹ پر جا بیٹھیں گے۔ پھر آگے اللہ اللہ۔
تاہم اس دوران اگر کہیں سے کالا چشمہ دستیاب ہو جائے تو ساری کیفیت کا مزہ دوآتشہ ہو سکتا ہے لیکن وہ لازم نہیں۔ اب حقیقت سنیے۔ ایک منصوبہ انسان بناتا ہے اور ایک قدرت۔ ہمارے اس پروگرام میں آغاز سے ہی یوں کھنڈت پڑنے لگی کہ ابا جی نے انکار کر دیا۔ بولے، میاں ولایت جاتے ہو کہ چیچہ وطنی کا ارادہ ہے، ہمیں یقین کیسے آئے گا کہ لڑکا ولایت بھیجا ہے۔ کچھ اپنی ماں کا سوچو۔ باپ سے حجت کون کر سکتا ہے، ان کے ساتھ ہمارا ورکنگ ریلیشن شپ یوں ہے کہ اول تو وہ کچھ کہتے ہی نہیں، اگر کبھی کہہ دیں تو ہم مان لیتے ہیں۔ چنانچہ اب کے بھی مانتے ہی بنی۔
اس کے بعد سامان باندھنے کی باری آئی۔ کچھ مشورہ اہل چین سے کیا تو جواب ملا کہ بھئی یہاں ٹھنڈ پڑتی ہے، اپنی دولائی وغیرہ لے کر آؤ۔ پھر دوستوں نے کئی طرح کی چیزیں گنوا دیں۔ جن میں سے ہر کسی کے بارے میں تاکید ہوئی کہ ہم بھلے یہاں رہ جائیں، اس کا وہاں ہونا ضروری ہے۔ اس قدر "انتہائی اہم" اشیاء کی جب حتمی فہرست مرتب ہوئی تو پتہ چلا کہ اگر ہم فی الواقع اپنی جگہ صرف سامان بھیج دیں تو اس کا وزن بھی اتنا ہوگا کہ ایئرلائن والے قبول کرنے پر تیار نہ ہوں گے۔ چنانچہ اب نئے سرے سے سامان کی جانچ کی اور انتہائی اہم اشیاء میں سے نسبتاً کم اہم اشیاء الگ چھانٹ دیں۔
جس جہاز میں ہمیں سیٹ ملی تھی اس نے لاہور سے رات گیارہ بج کر چالیس منٹ پر اڑنا تھا۔ چنانچہ مشرقی روایات کے مطابق ہم مع لاؤ لشکر سات بجے ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ زینت اور معصومہ کو یہاں سے ہمارا ہمسفر ہونا تھا لیکن چونکہ ان دونوں کا تعلق لاہور سے ہے تو توقع تھی کہ وہ وقت پر ہی پہنچیں گی۔ تاہم ہوائی اڈے پر پہنچ کر بغرض اطلاع انہیں فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ہم سے پہلے موجود ہیں۔ اب انہیں دیکھا تو شرمندگی ہونے لگی کہ ہمارا پروٹوکول ان کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔ بلکہ پانی پت میں ابراہیم لودھی اور بابُر والا معاملہ تھا کہ معرکہ لاہور میں ہمارے ایک کے مقابلے میں ان کے پانچ آدمی پڑتے تھے۔
اب خیال آیا کہ ذرا پھوپھی زادوں، بھانجوں بھانجیوں کو دعوت دے لی جاتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ تین لوگوں کے ساتھ گنوارو بنے کھڑے ہیں۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ رخصتی بھی پھیکی رہی، نہ کوئی رقت پیدا ہوئی نہ وقت لگا۔ لمحہ بھر کو سب سے گلے ملے اور فارغ۔ ادھر زینت بی بی اور معصومہ تین تین دفعہ سب سے بغل گیر ہو کر آنسو بہا چکی تھیں۔ ایک دفعہ سب سے مل کر فارغ ہوتیں تو پھر سے پہلے والے کی یاد آ جاتی اور فوراً ادھر لپکتیں، خصوصاً زینت کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا جلد اسے پیا گھر لے جائے لیکن تب بھی یہ کیفیت نہ ہوگی جو آج تھی۔
زندگی کے بارے میں ہمارا نظریہ ہے کہ آدمی چیونٹی نہ ہو جسے ذرا سی پھونک بھی اڑا لے جائے بلکہ انسان کو ہاتھی کی مانند ہونا چاہئے جسے بڑے سے بڑا طوفان بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا پائے۔ اسی اصول کے مطابق ہم کافی سخت دل واقع ہوئے ہیں اور چھوٹے موٹے جذبات ہمیں کم ہی جنبش دے پاتے ہیں لیکن لاہور ایئرپورٹ کی انتظامیہ کو داد دینی چاہئے کہ مسافر کیسا بھی سمراٹ ہو، جہاز میں سوار ہونے تک وطن کی یاد اس کے دل سے محو نہیں ہونے پاتی۔ گویا
قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ
مثلاً آپ گاڑی پارک کرنے جائیں تو انارکلی بازار آنکھوں کے سامنے گھوم جائے گا۔ آڑی ترچھی گاڑیاں، مسافروں کی رہنمائی کا ہر نشان ندارد، گز بھر خالی جگہ دیکھ کر لپکتے ہوئے مسافر، جس کا جہاں دل آئے لگائے، البتہ واپسی پر کچھ ہرجانہ دیتا جائے۔ اس سے بھی بچ نکلئے تو انتظار گاہ میں اپنے شہر کے لاری اڈے کا منظر دیکھ کر ضرور آنکھیں ڈبڈبا جائیں گی۔ ادھر ایک دادا ابا لیٹے حوروں کے خواب دیکھتے ہیں، ادھر کوئی ماں اپنے چیختے چلاتے لال کو چپ کروانے کی فکر میں غلطاں۔ ایک خاندان زمین پر چادر بچھا کر پکنک میں مصروف ہے، غرضیکہ ایک میلے کا سماں ہے۔ اس سے آگے چلئے تو چیک ان اور امیگریشن کے کاؤنٹر پر سوڑی گلی کی مانند بھاؤ تاؤ ہوتا دیکھ کر آپ ناچاہتے ہوئے بھی نم آنکھوں کے ساتھ اے وطن پیارے وطن بلند آواز میں نہ سہی، دل میں ضرور گنگنانے لگیں گے۔

