Masnoi Zahanat Aur Hamari Masnoi Intelligentsia
مصنوعی ذہانت اور ہماری مصنوعی انٹیلجنشیا

ہمیں بہت عرصے سے بتایا جا رہا تھا کہ ہندوستان دنیا میں بہت آگے نکل گیا ہے، فلاں فلاں بڑی کمپنی کے چیف اب ہندوستانی ہیں، امریکہ میں بھارتیوں نے اندھیر مچا رکھا ہے۔ یہ آئی ٹی دیکھو، یہ کیرالہ دیکھو۔ کیا آن ہے، کیا شان ہے، کیسا روشن خیال ترقی پسند ملک ہے جو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننے والا ہے بلکہ بن چکا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ غرض ہمارے بائیں طرف کے دانشوروں کیلئے ہندوستان کسی چھوٹی موٹی جنت سے کسی طور کم نہیں تھا۔
اب اچانک ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہندوستان تو بہت پسماندہ ملک ہے، اس کا میڈیا جہالت میں ڈوبا ہوا اور وہاں کے عوام صریح گمراہی میں مبتلا ہیں، نہ صفائی، نہ عقل نہ شکل۔ اتنی بھی سمجھ نہیں کہ ایک جہاز ہی ٹھیک سے اڑا لیں، الٹا پاکستان کی محبت میں ڈوبا ٹرمپ ان کی بے عزتی کر رہا ہے۔ عوام مذہبی شدت پسندی کا شکار ہیں۔ ہر آدمی گائے کے نیچے لیٹا ہوا ہے، غرض برے حال ہیں۔
تاریخ اور سماج کی ذرا بھی سمجھ رکھنے والا انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں نقطہ ہائے نظر جھوٹ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان، بلکہ پشاور سے لے کر منی پورتک یہ پورا خطہ جسے جنوبی ایشیا کہا جاتا ہے، سماجی و معاشرتی ارتقا کی ایک ہی منزل پر ہے۔ سماجی لحاظ سے جو برائیاں پاکستان میں نظر آتی ہیں، وہی ہندوستان سے ہوتے ہوئے بنگلہ دیش تک پھیلی ہوئی ہیں، تعلیمی معیار بھی کم و بیش ایک جیسا ہے۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں، ہندوستان میں بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں میڈیا جھوٹ بولتا ہے، ہندوستان میں بھی اس کے منہ سے سچ نہیں نکلتا۔
ہمارے ہاں جگہ جگہ پیر فقیر مل جاتے ہیں جبکہ ہندوستان میں انہی کو سنت اور سادھو کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں انتخابات چوری کیے جاتے ہیں، انتخابی امیدواروں کو اغوا کر لیا جاتا ہے، بنگلہ دیش میں یہی کام پچھلے تین انتخابات میں ہوا ہے، جبکہ ہندوستان میں بھی ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر حکومتیں بدلی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ویلنٹائن ڈے پر مذہبی جماعتوں کے نوجوان ڈنڈے لے کر چیکنگ کرتے نظر آتے ہیں جبکہ ہندوستان میں آر ایس ایس کے شہزادے یہی فریضہ ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان کو ایک محکمے نے یرغمال بنا رکھا ہے جبکہ ہندوستانی چند کمپنیوں اور سیٹھوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ عام آدمی کے حالات دونوں جگہ ایک جیسے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان میں اصل فرق آبادی کا ہے۔ ہندوستان کی آبادی پاکستان سے تقریباً چھ گنا زیادہ ہے، چنانچہ پاکستان میں اگر ایک شدت پسند موجود ہو تو ہندوستان میں چھ ہوں گے۔ پاکستان میں آپ کو ایک جھوٹ بولتا ہوا چینل دکھائی دے تو ہندوستان میں اس کے برابر چھ ملیں گے، جہلا کی تعداد میں بھی یہی تناسب ہے اور پڑھے لکھے لوگوں میں بھی۔ یقیناً ہندوستانی لوگ دنیا میں اچھے عہدوں پر موجود ہیں لیکن ہر چھ ہندوستانیوں کے مقابلے میں ایک پاکستانی بھی کہیں نظر آ جاتا ہے۔ ہماری نظر میں نوبل انعام کسی امتیاز کا نشان نہیں لیکن اگر بین الاقوامی سطح پر اسے معیار سمجھا جائے تو یہاں بھی آبادی کا یہی تناسب ہے، آزادی کے بعد آٹھ ہندوستانی اور دو پاکستانی!
اب سوال یہ ہے کہ ذرا سے غور و فکر اور تجزیہ سے جو چیز ہمیں دکھائی دے رہی ہے، وہ ان "دانشوروں" کو دکھائی کیوں نہیں دیتی؟ نطشے کا مقامی پیروکار یا خوانخواستہ اقبال احمد جیسے جید آدمی کی شاگردی کا دعویٰ کرنے والا اس بنیادی حقیقت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہے؟
دراصل پہلے ہندوستان کے قصیدے پڑھنا ان کی سیاسی ضرورت تھی، چنانچہ وہ پڑھے گئے۔ مقتدرہ پاکستانیوں کو افغانستان سے نفرت کی ہوا بیچنے کی کوشش کرتی رہی، لیکن وہ نہ بکنا تھی نہ بکی کیونکہ فی الوقت افغانستان کے ساتھ ہمارا کوئی حقیقی تضاد تھا ہی نہیں۔ دانشوروں کی کوششیں رائیگاں گئیں۔ اس کے بعد ایک ہی دفعہ پینترا بدل کر راتوں رات توپوں کا رُخ ہندوستان کی جانب کر دیا گیا۔ پہلے ہر واقعے کے بعد مغرب کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا، اب مشرق کی طرف منہ کرکے صلواتیں سنائی جا رہی ہیں۔ چونکہ ہندوستان کے ساتھ ایک حقیقی تضاد بہت عرصے سے موجود ہے چنانچہ یہ سودا فی الحال بک رہا ہے۔
اس میں ہمارے لیے المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا پڑھا لکھا سمجھا جانے والا طبقہ اس قدر سطحی اور متعصب ہے کہ اس کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں ہے۔ ان کا نہ کوئی نظریہ اپنا ہے نہ خیال، انہیں بڑی سہولت سے کسی بھی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ کل کلاں اگر فوج کو ضرورت پڑی تو یہ پھر وہی بیاض نکال کر دہرانے لگیں گے جس میں ہندوستان کے قصیدے درج ہیں۔ خوبی قسمت کہ جب ساری دنیا آرٹی فیشل انٹیلجنس کے دور میں داخل ہو رہی ہے، ہم اس آرٹی فیشل انٹیلیجنشیا (intelligentsia) کو جھیل رہے ہیں۔

