Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Athar Rasool Haider
  4. Lambi Tangon Ka Akhir Kya Faida Hai?

Lambi Tangon Ka Akhir Kya Faida Hai?

لمبی ٹانگوں کا آخر فائدہ کیا ہے؟

سفر کے دوران یہ سوال اکثر ذہن میں آتا ہے۔ آپ گاڑی میں سوار ہوں، بس میں بیٹھے ہوں یا ریل کے مسافر ہوں، لمبی ٹانگیں آپ کے ارد گرد چار لوگوں کے دقت کا باعث بنتی ہیں۔ آپ تنگ ہیں کہ بمشکل پھنس کے بیٹھے ہیں، پاؤں دائیں بائیں کرنے کا بھی یارا نہیں۔ اگلا پریشان کہ اس کی نشست پیچھے نہیں ہو تی، آپ کی ٹانگیں مزاحم ہیں۔ دائیں بائیں سے اگر کوئی اٹھ کر جانا چاہے تو پہلے آپ کے حضور عرضی گزارے کہ جناب کو ذرا زحمت دینا منظور ہے۔ پہلے آپ باہر نکلئے، پھر وہ نکلے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سفر کے دوران نا صرف بیدار بلکہ چاک و چوبند رہتے ہیں۔ لمبی ٹانگوں کا ہمیں اور کوئی عملی مصرف نظر نہیں آتا سوائے اس کے کہ کھڑے کھڑے ہاتھ بڑھا کر دیوار پر گھڑی کا وقت درست کر لیں۔ آپ کہیں گے کہ یہ خوبصورتی ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ خوبصورتی کے معیار عارضی ہیں اور بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی چین میں لڑکیوں کے پاؤں سیدھے ہونا خوبصورتی سمجھا جاتا تھا اور چھوٹی عمر میں ہی پاؤں کی ہڈیاں توڑ کر انہیں سیدھا کر دیا جاتا تھا۔ اب کہئے اس حسن پرستی کو عقلمندی کون کہے گا۔

لاہور کے ہوائی اڈے پر ہم امیگریشن کی قطار میں کھڑے تھے جب ہر طرف سے بنکاک۔ گیارہ بجے، بنکاک، بنکاک کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ ہائیں، یہ کیا ماجرہ ہے۔ سوچا کہ شاید جہاز کی کچھ نشستیں خالی رہ گئی ہیں جنہیں یوں پُر کرنا منظور ہے۔ بچپن کے سفر آنکھوں میں گھوم گئے جب ساہیوال کے لاری اڈے پر گھنٹوں بس میں بیٹھ کر تمام سیٹوں کے پُر ہونے کا انتظار کیا جاتا تھا۔ ہر نئے آنے والے مسافر کو یوں خوشی اور تشکرکے ملے جلے جذبات سے دیکھتے کہ پوچھو متی۔ آخر جب ساری بس بھر جاتی اور ایک دو مسافر رہ جاتے تو انہی نظروں کا رُخ ڈرائیور کی طرف ہو جاتا کہ شاید اس کا دل پسیجے اور گاڑی چل پڑے لیکن حافظہ گواہ ہے کہ ان نظروں کا ڈرائیور پر ہمیشہ وہی اثر ہوا جو کبر سنی میں میر صاحب کی آہوں کا دہلی کے مغبچوں پر ہوا کرتا تھا۔ خیر یہاں بات یہ کھلی کہ ہم گزشتہ ڈیڑھ گھنٹے سے امیگریشن کی قطار میں ایک ہی جگہ کھڑے تھے۔ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق ہماری پوزیشن میں کوئی انچ بھر فرق پڑا ہو تو ہمارا قصور نہیں وگرنہ حاملانِ رقعہ صاحبانِ عالی کی بدولت باقی ساری قطار وہی تھیں جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ ہمارا جہاز پونے بارہ نکلنا تھا اور تقریباً گیارہ بج چکے تھے، چنانچہ اب ایئرلائن والوں کو سوجھی کہ اپنے مسافر اکٹھے کرکے الگ ہانکے جائیں۔ چنانچہ بنکاک کے تمام مسافروں کو ایک طرف کرکے ایک کاؤنٹر مخصوص کر دیا گیا اور پندرہ منٹ میں ہم امیگریشن کے پار اتر گئے۔

تھائی ایئرلائن کا یہ جہاز شیطانی آنت کی مانند لمبا تھا اور ہماری نشست بالکل آخر میں معصومہ اور ایک اجنبی کے درمیان تھی۔ یہ بھائی صاحب بھی چین کے مسافر تھے اور کینٹن کے میلے میں شریک ہونے جا رہے تھے۔ زینت بی بی نے ان سے تبدیلیٔ نشست کی درخواست کی تو انہوں نے صاف منع کر دیا کہ اس کے ساتھ ایک نہایت خوفناک قسم کی اماں سوار تھیں جو دور سے ہمیں یوں دیکھتی تھیں کہ معصومہ کے بقول وہ نظریں اس کی "روح کے آر پار" ہوئی جاتی تھیں۔ چند لمحوں بعد کپتان کی معذرت سنائی دی کہ اڑان کی تیاری مکمل ہے لیکن ہوائی اڈے کی طرف سے ازن پرواز نہیں ملتا۔ گویا

ہوں گرفتار الفت صیاد
ورنہ باقی ہے طاقت پرواز

ہمارے فضائی میزبانوں میں ہر دو جنس کے نمائندہ موجود تھے لیکن ان میں فرق کرنا کسی صاحب نظر کا ہی کام تھا کہ ہمیں تو مجنوں نظر آتی تھی اور لیلیٰ نظر آتا تھا۔ یہ مشاہدہ بعد میں بنکاک کے ایئر پورٹ پر بھی رہا کہ آپ کسی کو خاتون سمجھیں اور مادام کہہ کر مخاطب کریں لیکن وہ آگے سے سر، نکل آئے۔ مثلاً بنکاک کی امیگریشن پر ہم نے سب سے قاتل حسینہ کو اپنا پاسپورٹ تھمایا لیکن اس نے جب آگے سے اپنی کریہہ مردانہ آواز میں شکریہ کہا تو ہمیں لمحہ بھر کو واقعی اپنی سدھ بدھ بھول گئی کہ الہیٰ

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا

اس پر طرہ یہ ہے کہ تھائی زبان میں کوئی بھی بات ہو، آخری ساؤنڈ کو یوں کھینچ کر بولا جاتا ہے کہ گویا بولنے والا کسی بچے سے مخاطب ہے۔ مثلاً تھینک یو کہنا ہو تو سینک یوووووو، کہیں گے۔ آپ کو مخاطب کریں گے تو سر کو سرررررر، کر دیں گے۔ اس میں جنسِ متکلم کی بھی تفریق نہیں۔ مرد تو ہمیں خیر پورے ایئرپورٹ پر ایک بھی دکھائی نہ دیا البتہ جہاز میں جو ایک دو نازک اندام لمڈے تھے وہ بھی سب سے یونہی مخاطب تھے۔

کچھ وقت گزرا کہ کھانا پیش کیا گیا۔ اس کے بعد مشروبات کا دور چلا۔ کسی بھی اچھی ایئرلائن کی طرح یہاں بھی اچھا خاصا بندوبست موجود تھا۔ ہمیں چونکہ نیند ویسے بھی نہ آنی تھی اس لئے ہم نے چائے مانگی۔ اس عشوہ طراز نے ایک کپ میں سیال چائے اور بقدرِ اشکِ بلبل دودھ ڈال کر پیش کر دیا۔ ہمارا اسے نوش فرمانا بھی بقدر اشکِ بلبل ہی رہا یعنی فوراً ہی وہ پیالہ واپس پھیر دیا کہ مبادا دوسرے گھونٹ کے ساتھ زندگی بھر کیلئے چائے سے تائب ہو جائیں۔ چائے کے علاوہ زندگی میں اچھی چیزیں ویسے بھی کم ہیں۔ مخالف سمت میں بیٹھے ہوئے ایک پنجابی بھائی نے انگوروں کا کہنہ رس طلب کیا جس کے بعد آس پاس کے مسافروں نے اپنے کھانے پینے کی اشیاء سمیٹ لیں۔ یہاں آتے آتے ایک بوتل تمام ہو چکی تھی چنانچہ اس کے حصے میں چند گھونٹ ہی آئے۔ شراب کم ہے تو ساقی نظر ملا کے پلا والا معاملہ تھا لیکن جلد ہی نئی بوتل آ گئی اور پھر بنکاک تک وقفے وقفے سے یہ دور چلتے رہے لیکن وہ بھی کتنا دورتھا۔

میانِ لالہ و گل خواستم کہ مے نوشم
زشیشہ تا بہ قدح ریختم بہار گذشت

کھانے کے بعد معصومہ کچھ وقت سامنے لگی اسکرین کے ساتھ کھیلتی رہی، پھر کمبل اوڑھ کر سو گئی۔ دائیں طرف سے پہلے ہی ہلکے ہلکے خراٹے بلند ہو رہے تھے۔ ہمیں بھی اپنی اسکرین میں ایک دلچسپی ہاتھ آ گئی۔ وہ یوں کہ اس میں ہمیں اپنے سفر کا راستہ اور نقشہ وغیرہ مل گیا۔ جغرافیے سے ہمیں ہمیشہ دلچسپی رہی ہے چنانچہ ہم اس سے دل بہلانے لگے۔ جہاز کی رفتار، بلندی، موجودہ لوکیشن اور دنیا کے مختلف شہروں سے فاصلہ، غرض کافی طرح کی معلومات موجود تھیں۔ ہمیں اس سفر میں پورے ہندوستان سے گزر کر جانا تھا۔ چنانچہ جب کسی بڑے شہر سے گزرتے تو ایک طائرانہ سی نگاہ کھڑکی میں سے نیچے کی روشنیوں پر ڈال لیتے، اس کے بعد پھر تا حدِ نظر اندھیرا چھا جاتا۔ اب اگر ہم کل کو ڈینگ ماریں کہ ہم نے دہلی، الہ آباد اور کلکتہ دیکھا ہے تو یہ کچھ ایسا جھوٹ بھی نہ ہوگا۔

تین گھنٹے بعد معصومہ بی بی کی آنکھ کھلی تو حیران ہوئیں کہ یہ تب سے کیا ایک ہی چیز کو دیکھے جا رہے ہو، انہیں ہم کیا سمجھاتے کہ خدا کی قدرت اور اس کی زمین دیکھتے ہیں۔ ہمارے لیے تو یہ ساری کائنات بھی ایک پینٹنگ یا ایک نظم کی مانند ہے جس کی شرح کرکے ہم غالب کے کسی شعر کا لطف لیتے ہیں۔ آج کل ایسی باتیں کرکے آدمی خبطی سمجھا جاتا ہے چنانچہ خاموشی بہتر تھی۔ باہر سورج کی سرخ و سنہری کرنیں پھیل رہی تھیں، نیچے نیلا سمندر تھا اور ہم آدھے گھنٹے میں بنکاک پہنچنے والے تھے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari