Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Athar Rasool Haider
  4. Kya Faiz Ne Lenin Inam Ke Liye Punjabi Shayari Ki?

Kya Faiz Ne Lenin Inam Ke Liye Punjabi Shayari Ki?

کیا فیض نے لینن انعام کیلئے پنجابی شاعری کی؟

کچھ عرصہ سے پنجابی حلقوں میں یہ واقعہ سننے میں آ رہا ہے کہ فیض احمد فیض کا نام جب لینن پرائز کیلئے کمیٹی کے سامنے آیا تو سوال ہوا کہ امیدوار، نے اپنی مادری زبان میں کیا لکھا ہے؟ اس معاملے میں چونکہ فیض صاحب کا دامن خالی تھا اس لیے انہوں نے استاد دامن سے رجوع کیا۔ استاد دامن ظاہری بات ہے، پرانا چاول تھے ان کے تعاون سے تین چار پنجابی نظمیں لکھی گئیں اور باقی مرحلے آسان ہو گئے۔

یہ بات کئی دفعہ سنی لیکن دل میں جمی نہیں۔ سوچا خود کچھ مغز ماری کی جائے۔ کچھ کتابیں دیکھیں، کچھ لوگوں سے بات کی تو جو معاملہ کھلا وہ کچھ یوں ہے۔

اول غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی کہ لینن امن انعام کو لینن انعام برائے ادب سمجھ لیا گیا۔ یہ دونوں مختلف انعام تھے۔ یہ سیاسی انعام تھا جو ادب کے شعبے میں دیے جانے والے انعام سے قطعی مختلف تھا۔ اسے نوبل انعام برائے امن کے برابر سمجھنا چاہیے۔ فیض صاحب کو 1962ء میں ملا اور اس سال ان کے ساتھ نامور مصور پابلو پکاسو بھی شریک تھے۔ یہ دونوں صاحبان فن کمیونسٹ خیالات رکھتے تھے اور ان کے وسیلے سے عوام کا ایک بڑا طبقہ کمیونزم سے متاثر ہوا تھا۔ مزید برآں دونوں نے مختلف مرحلوں پر جنگ کی مخالفت میں کام کیا تھا۔

اس کے بعد پاکستان سے عبدالستار ایدھی کو بھی یہ انعام دیا گیا جبکہ یہ انعام حاصل کرنے والے دیگر ممتاز لوگوں میں نیلسن منڈیلا اور انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو وغیرہ شامل ہیں۔ چار، پانچ شاعروں کے علاوہ یہ انعام پانے والوں میں اکثریت سیاستدانوں کی ہے۔

اس کہانی میں دوسرا اور سب سے بڑا جھول یہ ہے کہ فیض صاحب کو لینن انعام 1962ء میں ملا جبکہ ان کی پنجابی شاعری 70ء کی دہائی میں سامنے آئی یعنی تقریباً 10 سال بعد!

فیض کی پنجابی نظمیں ان کی آخری دو کتب کا حصہ ہیں۔ ان میں سے پہلی کتاب شام شہر یاراں 1978ء میں شائع ہوئی۔ اس میں شامل پنجابی نظمیں اور کتاب کے مطابق ان کا سنِ تخلیق یوں ہے:

1۔ لمی رات سی درد فراق والی (1971ء)

2۔ گیت۔ کدھرے نہ پیندیاں دساں

3۔ میری ڈولی شوہ دریا (1974ء کے سیلاب زدوں کے امدادی فنڈ کیلئے لکھی گئی)

4۔ ربا سچیا (1974ء)

5۔ قطعہ

اس کے بعد دو پنجابی نظمیں فیض کے آخری مجموعہ کلام مرے دل مرے مسافر میں شامل ہیں جو 1981ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کا قلمی نسخہ فیض نے افتخار عارف صاحب کو دیا تھا جو انہوں نے 2011ء میں سنگ میل سے شائع کیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں شامل تمام تخلیقات بھی 1978ءکے بعد لکھی گئی ہیں۔

مزید برآں ان طبع زاد نظموں اور دیگر اردو نظموں کے پنجابی ترجمے پر مشتمل ایک کتاب رات دی رات، 1976ء میں شائع ہوئی تھی جس میں شام شہریاراں، کی پنجابی نظمیں شامل ہیں جبکہمرے دل مرے مسافر، کی پنجابی نظمیں اس کا حصہ نہیں ہیں۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ نظمیں 1976ء کے بعد لکھی گئیں کیونکہ اگر اس سے پہلے موجود ہوتیں تو فیض اپنی واحد پنجابی کتاب میں انہیں شامل کیوں نہ کرتے؟

اس سلسلے میں معروف ترقی پسند دانشور اور تاریخ دان حسن جعفر زیدی سے بات کی تو انہوں نے بھی اس دعویٰ کو رد کیا۔ اس معاملے میں ان کی رائے مؤقر ہے کیونکہ ان کی فیض کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہیں اور جس زمانے میں یہ نظمیں لکھی گئیں تب وہ حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ فیض نے اپنی پنجابی شاعری پہلی دفعہ 73ء کے آس پاس باغ جناح میں منعقدہ ایک مشاعرہ میں پیش کی تھی۔

فیض کے نواسے علی مدیح ہاشمی نے حال ہی میں مہر و وفا کے باب، کے نام سے ان کی سوانح عمری شائع کی ہے۔ اس کے مطابق بھی فیض نے 70ء کی دہائی میں پہلی دفعہ پنجابی نظمیں کہیں۔

آخر میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ پھر اس الزام کی بنیاد کیا ہے؟

باقاعدہ طور پر یہ الزام ہمیں نین سکھ کے ناول "مادھو لال حسین، لاہور دی ویل" میں ملتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دستاویزی ثبوت میسر نہیں آ سکا اور یہ صرف پنجابی حلقوں کے زبانی ڈسکورس کا حصہ ہے۔ فکشن کو تاریخی واقعات کا ماخذ اسی صورت سمجھا جا سکتا ہے جب دیگر ذرائع سے اس کی توثیق نہ سہی، کم از کم تردید بھی نہ ہو۔ اس معاملے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخی حقائق اس کر رد کرتے ہیں چنانچہ یہ الزام صرف الزام ہی ہے

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari