Imran Khan Aur Chief Ki Zaati Jang
عمران خان اور چیف کی ذاتی جنگ
عمران خان اور موجودہ سیاسی تحریک سے متعلق لوگ ابھی تک ان غلط فہمیوں کا شکار ہیں کہ شاید یہ عمران خان اور کسی چیف کی ذاتی جنگ ہے جس میں عوام "استعمال" ہو رہے ہیں۔ ابھی ایک قابل احترام لکھاری کی تحریر دیکھی جس میں انہوں نے قرار دیا کہ یہ لڑائی اناؤں کی لڑائی ہے جس میں عوام کو شامل نہیں ہونا چاہیے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں لگتا ہے کہ عمران کو باجوے نے اس لیے اڑا دیا کہ اسے اس کی ناک پسند نہ تھی۔ اسی طرح روس کے خلاف یوکرین کو امریکہ نے اس لیے جنگ میں دھکیل دیا کہ پیوٹن نے شاید بائیڈن کی ہمشیرہ کو چھیڑ دیا ہو۔ ان سے پوچھیں تو شاید یہ بھی فرما دیں کہ علاؤالدین خلجی واقع ہی کسی پدماوت کی تلاش میں حملہ آور ہوتا رہا تھا۔ تاریخی و سیاسی مظاہر کو دیکھنے کا یہ رویہ کم سے کم الفاظ میں بھی انتہائی بچگانہ ہے۔
ہمارے دوست یہ سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ عمران نے اپنے رویے سے عوام کے اندر وسیع طور پر پائے جانے والی امنگوں اور خدشات کو آواز دی ہے جو آبادیاتی تبدیلیوں اور دیگر معاشرتی عوامل کی بنیاد پر رفتہ رفتہ پینپ رہے تھے۔ وہ نہ ہوتا تو آج یا کل کسی ایسے شخص کو پیدا ہونا ہی تھا کہ یہ تاریخ کا جبر ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ عمران خان عوام کو استعمال کیا کرے گا بلکہ الٹا عوام نے اسے اس سنگھاسن پر بٹھا دیا ہے جہاں سے اب وہ چاہ کر بھی نہیں اتر سکتا۔
دوسری طرف بھی چیف صاحب کی ذاتی پسند و ناپسند کوئی معنی نہیں رکھتی، وہ ایک سماجی و معاشی طبقے کے مفادات کے نگران ہیں، وہ اس سے ہٹیں گے تو یہ طبقہ جو ملک و بیرون ملک دونوں جگہ موجود ہے، ان کی جگہ فوراََ سے پہلے کسی اور کو لے آئے گا۔ چنانچہ ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں طبقات کسی شخصیت کے آنے یا جانے سے مضبوط یا کمزور ہو جائیں لیکن یہ جدل بہرحال تب تک پرتشدد اور واضح طور پر جاری رہے گا جب تک عوام یا موجودہ مقتدرہ میں سے کوئی ایک خاطر خواہ کمزور نہیں ہو جاتا۔ اس میں پڑھے لکھے لوگوں سے یہی توقع کی جانی چاہیے کہ وہ عوام کی صفوں میں ہوں نہ کہ ان کے مخالف۔
عوام کی یہ خواہش سیاسی حقیقت ہے کہ پاکستان کے فیصلے واشنگٹن کی بجائے اسلام آباد میں ہوں۔ جو بھی ان کے اس مطالبے کی حمایت کرے گا عوام اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ نواز شریف اور زرداری کا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ ان سے کئی دفعہ دھوکہ کھا چکے ہیں۔ اس دفعہ بھی شاید ان کے ہتھے چڑھ جاتے اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا جس نے عوام کی یادداشت کچھ بہتر کر دی ہے۔
دوسری بات امریکی سازش کی ہے تو اس کو شاید اب سازش کہنا بھی درست نہ ہو۔ جو لوگ حالات حاضرہ پر مسلسل نظر رکھتے ہیں وہ تیسری دنیا میں امریکی کردار سے واقف ہیں۔ اگر نہیں تھے تو مشرق وسطی میں جاری جنگ نے اسے مزید واضح کر دیا ہے۔ اس پر مزید بات کرنا بھی اب وقت کا ضیاع ہے۔
چنانچہ ہمارے دانشوروں کو بھی اب چاہیے کہ وہ کینوس کو تھوڑا پھیلائیں، اگرچہ یہ طبقہ اپنی انفرادیت کے زعم میں ہمیشہ تاریخ کے الٹ سمت کھڑا ہوا ہے لیکن پھر بھی اگر کچھ بھلا نہیں کر سکتے تو تھڑوں والے تجزیے کرکے ایک عوامی تحریک کو نقصان نہ پہنچائیں۔ یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ آدمی اپنی تقدیر خود بناتا ہے اگرچہ اس کیلئے درکار عوامل اسے اپنی مرضی سے دستیاب نہیں ہوتے۔ چنانچہ لوگ وہی ہیں جو ان تاریخی عوامل کا درست تجزیہ کرکے ان کے مطابق اپنا طرز عمل متعین کر سکیں۔ عمران خان کسی کو لاکھ برا لگے، مگر اس نے یہ کر دکھایا ہے۔