Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Athar Rasool Haider
  4. Darya e Jialing Ke Kinare

Darya e Jialing Ke Kinare

دریائے جیالنگ کے کنارے

اس کو قسمت کا لکھا ہی سمجھیے کہ ہم زندگی میں کوئی کام ڈھنگ سے کریں تو لطف نہیں آتا۔ دیکھئے کیسے گھر بیٹھے آرام و سکون کی بنسی بجاتے اور ہم نفسوں میں بے پر کی اڑاتے تھے، زندگی ایک ڈھرے پر چل رہی تھی، نہ آج کی پرواہ نہ کل کی فکر۔ کھایا پیا، گپ اڑائی اور دن یہ جا وہ جا۔ مگر داد دیجئے ہمارے ذہین دماغ کو کہ اس بہشتِ عارضی کی قدر نہ کی۔ دل میں یہ خیال چٹکیاں لیتا تھا کہ اپنے شہر میں تو پیغمبری بھی نہیں چلتی، سارے بڑے آدمی ولایت جاتے ہیں، اعلیٰ تعلیم کیلئے نہیں تو دادِ عیش دینے کو سہی۔ ایک دفعہ جا کر دیکھا تو چاہئے۔ اب اپنا گریبان کھنگالا تو تعلیم کے امکان مفقود نظر آئے، جیب دیکھی تو عیش کا سامان بھی عنقا تھا۔ ایسے میں کہیں سے چین کی منادی ہوئی تو سوچا کہ چلو وہ نہ سہی یہ سہی دیکھو تو ذرا کس بھاؤ بکتی ہے۔ چنانچہ یہاں پہنچ لیے اور اب سر جھاڑ منہ پہاڑ بیٹھے ہیں، موسم سرد، زندگی سرد تر۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن، کیجئے تو کیا کیجئے۔ پھر سوچا کہ جن کا خیال یہاں لے آیا ہے انہی کی زندگی سے سیکھ کر وقت گزارا جائے، کیا عجب کہ کوئی گوہر مراد ہاتھ آئے۔

چنانچہ کل اٹھتے ہی پہلا سوال خود سے کیا کہ بڑے آدمی ولایت جاتے ہیں تو کیا کرتے ہیں۔ جواب ملا کہ ذاتی مشغلے تو خدا جانے لیکن کتابوں میں لکھا ہے کہ تین کام فرض عین ہیں جن کے بغیر ولایت کاٹا تو سمجھو بھاڑ جھونکا۔ اول، دریا کنارے سیر۔ مثلاً غالب دلی سے نکلے تو ہگلی میں چلتے چلتے کلکتہ پہنچے، اقبال نے جرمنی میں دریائے نیکر پر نظمیں کہیں، راشد صاحب دجلہ و فرات کی داستان سناتے رہے، دریائے ٹیمز پر تو کئی شعراء نے مشقِ سخن کی ہے۔ دوم دریا کنارے ہی ملنے والی کسی حسینہ سے عشق۔ اس ضمن میں اقبال کی ایما اور تارڑ صاحب کی پاسکل نے گواہی دی۔ سوم ایک عدد سفرنامے کی اشاعت۔ مسافران لندن سے بجنگ آمد تک یہ ایک طویل فہرست ہے، یہاں تک کہ گگو منڈی اور ملحقہ قصبوں تک کا سفرنامہ لکھا جا سکتا ہے لہذا اس معاملے میں مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں۔

ولایت میں کامیابی کا یہ سنہری نسخہ مل گیا تو اس پر حسبِ ترتیب عمل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ چنانچہ کل ہم نکلے تو چھوٹتے ہی میزبانوں سے پوچھا کہ ہمیں قریبی دریا تک پہنچا دیجئے۔ چین میں دریائے یانگسی کا سنا ہے کہ طویل ترین دریا سمجھا جاتا ہے، اس تک پہنچا دیا جاؤں تو اور بھی بہتر۔ جواب ملا کہ وہ تو ذرا دور ہے، البتہ اس کا ایک ذیلی دریا جیالنگ یہاں سے گزرتا ہے، کہیے تو اس تک پہنچا دیں۔ چلیے بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی، اسی کا پتہ عنایت فرمایئے۔ ادھر سے جواب ملا کہ یہ سڑک پار کیجئے تو دریا پر پہنچ جایئے گا۔ ہم حیران ہوئے کہ یہ کیا بات ہوئی، تب سے دریا کنارے بیٹھے ہیں اور خبر تک نہیں۔ نہ شور نہ نغمہ۔ وہ جھلملاتی روشنیاں تک نہیں دیکھیں جن کا عکس پانی میں پڑتا دیکھ کر سفرنامے کی ہیروئن بلاوجہ رومانٹک ہو پیار کا اظہار کرنے لگتی ہے۔

خیر سڑک پار کی اور دریا تک پہنچے۔ نیچے جھانکا تو صاف شفاف پانی یوں خاموشی سے بہتا دکھائی دیا کہ اس پر ساکن ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ پوچھا کہ بھئی یہ دریا بہتا بھی ہے کہ ہمارے راوی کی طرح بس لیٹا رہتا ہے۔ جواب ملا کہ ذرا مہذب دریا ہے اس لیے نیچے سُروں میں بہتا ہے۔ کملیش میاں بولے، "نواب صاحب! اب سمجھے بادشاہ کیسے فوج سمیت گھوڑے پر دریا پار کر لیا کرتے تھے؟ دریا تو ہمارے ہیں، پاؤں ڈالو تو ثابت نگل لیں"۔ جہاں تک روشنیوں کا تعلق تھا تو وہ اس لیے دکھائی نہیں دیں کہ سڑک دریا سے کافی بلندی پر واقع ہے اور دریا کو دیکھنے کیلئے نیچے جھانکنا پڑتا ہے۔

ہم رخصت ہو کر دریا کنارے چلنے لگے۔ آہستہ آہستہ پانی ہمارے قریب آتا گیا اور سفر خوبصورت ہونے لگا۔ اہل چین کو داد دینی چاہئے کہ میلوں میل دریا کے ساتھ ساتھ پیدل چلنے کیلئے ایسا خوبصورت ٹریک تیار کیا ہے کہ آدمی گھنٹوں چلتا جائے اور تکان نہ ہو۔ مناظر بدلتے جاتے ہیں۔ اسی پر چلتے چلتے آپ کہیں ایک پارک میں داخل ہوتے ہیں کہ جھولے لگے ہیں، بچے کھیل رہے ہیں اور بوڑھے بیٹھے انہیں دیکھتے ہیں۔ پھر پارک ختم ہوتا ہے تو یہی ٹریک سرکنڈوں کے جنگل میں تبدیل ہو جاتا ہے جس کے بیچوں بیچ لکڑی کا صاف شفاف ٹریک دور تک چلا جاتا ہے۔

تھوڑا آگے چلئے تو لگتا ہے کہ رنگ برنگ پھولوں کے بوستان میں داخل ہو گئے ہیں۔ ساتھ دریا کا سبز پانی یوں چلتا ہے جیسے اس میں زمرد پیس کر ملا دیا ہو۔ اکثر جہاں ٹریک دریا سے دور ہوتا ہے وہاں سکون سے بیٹھ کر پانی کا بہاؤ دیکھنے کیلئے دو دو کرسیاں بھی رکھی ہیں جن پر اکثر بوڑھے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ پاؤں پھسلنے کا امکان نہیں مگر جگہ جگہ حفاظتی سامان بھی دریا کنارے موجود ہے۔ اس سے بڑھ کر خوبی یہ کہ کوئی پل آئے، سڑک آئے یا ریل کی پٹڑی، پیدل چلنے والے کا راستہ کھوٹا نہیں ہوتا۔ یہ ٹریک کہیں پل کے نیچے سے یونہی نکلتا ہے اور کہیں ریل کی پٹڑی کو کاٹتا چلا جاتا ہے۔

شہر میں موجود کئی باغوں اور جھیلوں کے باوجود دریا کنارے کا یہ راستہ لوگوں کی بہترین تفریح ہے۔ یہیں گھاس کے میدانوں میں کئی خاندان پکنک مناتے دکھائی دیے۔ جگہ جگہ بیس تیس بوڑھی خواتین اکٹھی ہو کر ناچنے کی ریہرسل کر رہی ہیں۔ دوسری طرف بڈھے دریا میں مچھلی پکڑنے کا راڈ ڈال کر بیٹھے ہیں اور گھنٹوں بیٹھے رہیں گے۔ اگرچہ دریا میں نہانے کی اجازت نہیں لیکن جہاں دریا عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے وہاں کئی بوڑھے جانگیہ پہن کر دریا کے انتہائی سرد پانی میں ڈبکیاں لگاتے بھی دکھائی دیے۔ نوجوان اکثر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے یا کتے کی رسی تھامے نکلتے ہیں۔ سگریٹ پیتے جاتے ہیں اور ٹریک پر چلتے جاتے ہیں۔ سامنے سے کوئی اور کتا آ جائے تو جانوروں کی آپس میں سلام دعا ہو جاتی ہے، مالکان اس دوران بھی خاموش رہتے اور ادھر اُدھر دیکھتے رہتے ہیں۔

اگرچہ یہ دریا گیارہ سو کلومیٹر لمبا ہے اور تھوڑا ہی آگے جا کر یانگسی میں اتر جاتا ہے لیکن ہمارا یہ سفر فقط تیرہ کلومیٹر تک رہا۔ اس دوران کملیش کے مشورے پر ہم کچھ دیر کیلئے دریا کنارے جھک کر فلسفیانہ انداز میں پانی کو بھی گھورتے رہے۔ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ سفرناموں میں اکثر رومانس کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ تاہم یہاں یہ نسخہ بے کار رہا بلکہ اکثر راہگیر ہمیں یوں اکیلا بیٹھا دیکھ کر سرگوشیوں میں "امریکن۔ امریکن" کہہ کر منہ چڑاتے رہے (چینی زبان کے ایسے کچھ الفاظ ہم نے سیکھ لیے ہیں۔)

ہماری شکل میں جانے کیا ہے کہ یہاں بنگالی لوگ ہمیں نواب اور چینی امریکن سمجھتے ہیں۔ ہم نے لاکھ سمجھایا کہ بھئی ہمیں نہ کوئی جاگیر ورثے میں ملی ہے اور نہ ہم نے خود کسی پر حملہ کرکے قبضہ کیا ہے، لیکن کہاں تک صفائیاں دیجئے۔ بنگالیوں نے ہمارا نام ہی یہ رکھ چھوڑا ہے، البتہ چینیوں کو جب ہم اپنا وطن بتاتے ہیں تو ان کا رویہ بدل جاتا ہے۔ پھنگ یو۔ پھنگ یو (دوست۔ دوست) کہہ کر بنا پوچھے سگریٹ آگے بڑھا دی جاتی ہے اور مروت میں ایک کش لے کر ہم دھواں اڑانے لگتے ہیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali