Cheeni Sharab Aur Shayar
چینی شراب اور شاعر

دوستو یہاں ملک چین میں ہم فقط تنہائی کی بات بولتے اور فرصت کا سامان تولتے ہیں۔ نہ کوئی ہم زباں نہ ہم بیاں، فغفور و خاقان کا دیس ہے، نرالا بھیس ہے۔ نئی صورتیں، عجب مورتیں ہیں۔ آخر طبیعت نے کہا کہ کچھ تو سامان دل لگی چاہیے سو کاغذ قلم مہیا کیا کہ ایجاد اسی ملک کی ہے اور داستان اپنے سفر کی لاہور سے آغاز کی۔ بات سے بات نکلتی ہے، قلم یاں سے واں بھٹکتا ہے۔ آخر قصہ طولانی ہوا، ابھی یہاں پہنچنے نہ پائے تھے کہ ایک طومار ہاتھ آیا۔ دوستوں کو دکھایا، کسی نے مرغوب کسی نے خوب کہا۔ کچھ ہمیں زیر اصلاح لائے، کچھ نازک دماغ طوالت سے گھبرائے۔ یہ بات جی کو لگی کہ ہم کون سے شہرزاد و عرب آباد ہیں۔ سو قلم کی مہار کھینچتے ہیں۔ بیچ کے قصے نسیاں کے طاق پر، آؤ یہ ملکِ عجیب دیکھو کہ اس کے دیکھنے میں کئی باتیں ہیں۔
۔۔
شہر چنگدو کے ہوائی اڈے پر ہمارے جہاز نے قدم رکھا۔ آسماں بادلوں سے معمور، زمیں بارش میں شرابور، مسافر نکلے اور ایک طرف کو چلے۔ ہم بھی ساتھ ہو لئے۔ جہاز بنکاک سے وقت پر چلا تھا اور اس میں اجنبی صورتیں صرف تین تھیں، یعنی ایک یہ ذاتِ شریف اور دو ہماری ساتھی خواتین۔ باقی سب تھائی یا چینی لوگ تھے جن کے اپنے روگ تھے، اکثر نشستیں خالی رہیں اس لیے ہم بھی سوتے جاگتے رہے۔ یوں کہئے کہ ایک آنکھ سے سوتے اور ایک سے جاگتے رہے کہ بھوک سے برا حال تھا۔ بنکاک کا ہوائی اڈہ ایک شہر کے برابر ہے، وہاں ہم کچھ کھانے کو ڈھونڈتے رہے لیکن جہاں بھی گئے، یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات والا مضمون تھا، بر بریں احتیاط صبر کرتے رہے۔
آخر دستر خوان دراز ہوا۔ ہمارے سامنے شمع آئی کہ کیا لو گے؟ نخرے کی جا نہ تھی، کہا ہر حلال شے گوارا ہے۔ ادھر سے جواب ملا کہ پھر ہوا کھاؤ۔ یاں ایسے چونچلے نہیں چلتے، پہلے کیوں نہ بتایا۔ اب کیا ہو سکتا تھا، ایک مشک پانی پی کر وقت کاٹا۔ معصومہ اور زینت کہیں دور بیٹھی تھیں، بعد میں پتہ چلا کہ ان کو پوچھنے ایک آدمی آیا، انہوں نے یہی فرمائش کی تو اس نے پالک پنیر پیش کیا۔ ہم سے خدا جانے کیا بیر تھا۔ خیر پہلے بھی کہا کہ جنس کے معاملے میں یہ تھائی قوم دنیا سے الٹ چلتی ہے۔ مردوخواتین نے خصلتیں آپس میں بدل رکھی ہیں۔ انہیں کھانا پوچھنے والا مرد نرم و نازک اور ہمارے پاس آنے والی بی بی سخت جان و سخت کوش تھی۔
چنگدو شہر کے دو ایئرپورٹ ہیں۔ ایک شہر کے قریب اور دوسرا کوئی تیس میل دور جس پر ہم اترے تھے۔ حال ہی میں تعمیر ہونے والا یہ ایئرپورٹ تقریباً خالی تھا۔ آپ جانئے کہ ایئرپورٹ تقریباً تمام ایک جیسے ہوتے ہیں، صاف زمین، صاف آسماں تیز روشنیاں اور مسافروں کے تھکے تھکے چہرے۔ ان روشنیوں کی چکاچوند میں ہمارا حال عین جوانی میں توبہ کرنے والے کا سا تھا، یعنی پھسل پھسل جاتے تھے۔ ہمیں دیہاتی جان کر یہ نہ سمجھئے کہ یہ حالت فقط ہماری تھی، بلکہ یہاں پھسلنے کے کئی امکانات تھے اور کئی چینی لوگ بھی ہمارے سامنے پھسلے۔ دراصل اس قوم کو صفائی کا کچھ ایسا خبط ہے کہ پہلے فرش رگڑ رگڑ کر گھسا دیتے ہیں اور پھر اس پر پھسلتے پھرتے ہیں۔ یہ سلسلہ ہم نے بعد میں بھی ہر جگہ دیکھا۔
امیگریشن پر قطار لمبی لیکن متحرک تھی۔ اہل چین نے چن کر اپنے خوبصورت و خوش اخلاق مرد و خواتین ہوائی اڈوں پر تعینات کر رکھے ہیں۔ ہمارے کاغذات کی پڑتال ہوئی، پوچھا کَے لوگ ہیں۔ اس کے بعد امیگریشن والی خاتون نے اپنا کاؤنٹر بند کیا اور تینوں کو ایک طرف بٹھا کر فون ملانے لگی۔ ہم سمجھے کہ اب کچھ تفتیش ہوگی۔ بیرون ملک اپنے ہم وطنوں کی عزت افزائی کے جو قصے سن رکھے تھے سب یاد آنے لگے۔ پھر سوچا کہ جو آئے، آئے۔ پاکستانی پولیس سے نپٹ لیا ہے تو ان کو بھی بھگت لیں گے۔ بیلٹ تو ہم ایک زیرک دوست کے مشورے کے مطابق پہن کر ہی نہ آئے تھے جو اسے ڈھیلا کرنے میں خفت ہوتی۔ لیکن یہاں دیکھتے ہیں تو ایک وجیہہ صورت لڑکا سا ایک طرف سے مسکراتا آتا ہے۔
وردی سے ان کا افسر معلوم ہوتا تھا لیکن افسروں والی کوئی بات نہ تھی، یعنی نہ کوئی ہٹو بچو کا شور نہ چہرے پر وہ رعونت، ایسے افسروں کو دیکھ کر آدمی کا رویہ کیا ہونا چاہئے یہ ہمیں معلوم نہ تھا، چنانچہ مسکراہٹ کے جواب میں ہم بھی مسکراتے اور سر ہلاتے رہے۔ ان کے مزاج بخیر اور چائے وغیرہ کا پوچھا۔ پھر بولے سفر میں کوئی تکلیف تو نہ ہوئی؟ یہ تکلفات دیکھ کر اپنی ذات بے وجہ اہم معلوم ہونے لگی۔ ادھر انہوں نے ہر طرح تسلی کرنے کے بعد فون ملایا، کچھ دیر بات کرکے ہمیں بتایا کہ تمہاری ٹیچر باہر انتظار کر رہی ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں پولیس والوں کو ہدایت تھی کہ ہمارے پہنچنے پر اطلاع دی جائے اور اس افسر کی ڈیوٹی تھی کہ ہمیں یونیورسٹی کے حوالے کرے۔
امیگریشن سے نکلے تو مس تانگ ہماری منتظر تھیں۔ انہوں نے لڑکیوں کو گلے لگا کر ہمیں زبانی سلام کیا اور ایک طرف کو لے کر چلیں بلکہ بھاگنے لگیں۔ وہ خالی ہاتھ اور ہم دو بیگ سمیت قدم سے قدم ملانے کی کوشش کرتے رہے۔ لڑکیاں جو تین تین بیگ بھر کر لائی تھیں، پیچھے رہ جاتی تھیں اور ہمیں ان کے بیگ بھی کھینچنے پڑتے تھے۔ آخر ایک جگہ پہنچ کر رکے۔ اب انہوں نے بتایا کہ یہ ایئرپورٹ کے اندر واقع ریلوے اسٹیشن ہے اور ہمیں جلد از جلد ٹکٹ خریدنا ہیں ورنہ اگلی ٹرین آدھے گھنٹے بعد جائے گی۔ آخر ٹکٹ خریدنے کے بعد ایک جگہ بیٹھے۔ دل میں تجسس ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
مس تانگ، آپ کے صوبے کی پہچان کیا ہے؟ ہم نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
سچوان کی دو اشیاء مشہور ہیں۔ ایک شراب، دوسرے شاعر۔ انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ یہ ہنسی کچھ یوں تھی کہ عملِ مسکراہٹ کے دوران ہونٹوں کے کنارے تقریباً دونوں طرف کانوں سے جا لگتے تھے اور انہیں اکثر ہنسنے کی عادت تھی۔ پھر ہماری طرف اشارہ کرکے بولیں:
This year we have the biggest class so far but you are the most handsome one.
ہیں کیا کہا کیا کہا؟ ہمیں یقین نہ آیا۔
It is true. انہوں نے پھر اپنی بات دہرائی۔
ہمیں تو خیر زیادہ حیرت نہ ہوئی لیکن لڑکیوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔ پھر مس تانگ بتانے لگیں کہ ان کے بچوں کی عمر بھی ہمارے لگ بھگ ہی ہوگی۔ آپ سمجھئے کہ چینی لوگ عمر کے معاملے میں خاصے فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ جو آپ کو پچیس کا دکھائی دے اسے پینتالیس کا سمجھئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے جسے آپ نوعمر باورا سمجھیں وہ اپنے پوتے پوتیوں کیلئے دادامیاں ہوں۔
گفتگو پھر سچوان کی طرف مڑ گئی تو بتانے لگیں کہ چین کی اٹھارہ بہترین شرابوں میں سے بارہ سچوان میں بنتی ہیں۔ دنیا بھر میں چینی ادب کی پہچان سمجھا جانے والا پیوڑا شاعر لی پائی بھی یہیں پیدا ہوا۔ لی پائی کا نام سن کر ہمارا ماتھا ٹھنکا۔
یہ وہی لی پائی تو نہیں جسے لی پو بھی کہا جاتا ہے؟
بالکل۔ انہوں نے جواب دیا۔
ارے اسے تو ہم خوب جانتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی میرا جی کے نام کا ایک دیوانہ گزرا ہے۔ اس نے لی پو کی نظمیں ترجمہ کی تھیں اور ہم نے پڑھی تھیں۔ کہتے ہیں کہ کنند ہم جنس باہم جنس پرواز۔ میرا جی اور لی پو میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ ایک تو یہ کہ دونوں اچھے شاعر ہیں، دوسرا یہ کہ دونوں بدنام ہیں اور تیسرا یہ کہ دونوں دیوانے مشہور ہوئے۔ لیکن یہ دیوانگی باتوں کی حد تک ہی سمجھئے، شعر کے میدان میں دونوں ہوشیار بلکہ شہ سوار ہیں۔ لی پو کی ایک نظم اور میرا جی کا ترجمہ دیکھئے، باقی داستان اگلے وقت پر چھوڑتے ہیں:
فرقت
مرے پیارے! یہاں تھے تم تو میں نے گھر کو پھولوں سے سجایا تھا
مرے پیارے! نہیں ہو تم یہاں، اب سیج سُونی ہے
بچھونا سیج پر لپٹا رکھا ہے، سو نہیں سکتی
وہ خوشبو چھوڑ کر جس کو گئے تھے، آج بھی محسوس ہوتی ہے
وہ خوشبو ہر گھڑی رہتی ہے میرے پاس، لیکن تم کہاں ہو اے مرے پیارے!
میں ٹھنڈے سانس بھرتی ہوں
گرے جاتے ہیں پتے ٹہنیوں سے پیڑ کی مرجھا کے دھرتی پر
میں روتی ہوں۔
ہری مخمل پہ دھرتی کی چمکتی اوس کی بوندیں!

