Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asmatgul Khattak
  4. Main Aur Mera Mianwali

Main Aur Mera Mianwali

میں اور میرا میانوالی

ڈاکٹر طارق مسعود خان نیازی شہباز خیل کی سرگزشت " میں اور میرا میانوالی" پڑھی تو آج کے سرتاپہ کمرشل مسیحاؤں کے بارے میں قائم تاثر کے متعلق نہ صرف نظرثانی کرنا پڑی بلکہ شہباز خیل قبیلہ کے حوالے سے وُہ جو چار وانگ عالم میں " مشہُوری" زبانِ زدِ عام ہے اس کی بنیادی وجوہات جان کر جہاں افسوس ہوا وہاں خوشی اس بات کی ہوئی کہ اس قدر باصلاحیت لوگوں کی سرزمین پر کاررواں کے لُٹ جانے کا احساسِ زیاں نہ صرف باقی ہے بلکہ زیورِتعلیم سے آراستہ ہونے والے اِس کے بیٹے اپنے سابقہ خوبصورت و مُہذب شناخت کی سَروائیول کیلئے ہاتھ پاؤں بھی ماررہے ہیں۔

ڈاکٹر طارق نیازی کی مذکورہ سرگزشت اِسی کوشش کی ایک ایسی کڑی ہے جو یقیناً اس سفر کے مُسافروں کیلئے سنگِ میل ثابت ہوگی۔ ڈاکٹر نیازی کیمطابق 1980 کے بعد شہباز خیل گاؤں میں سیاستدانوں کا اثرورسوخ بڑھنے کے فوراً بعد ہی سماجی برائیوں نے بھی سَر اٹھاناشروع کردیا، یاسی چھتری میسر آنے کے بعد تھانہ کچہری کی مُعاونت سے جوئے و منشیات، سود خوری اور قتل وغارت نے ایک محنتی و جفاکش اور پُرامن گاؤں کی شکل ہی بدل دی۔

نتیجتاً، نئی نسل نے جب یہ دیکھا کہ کالے دَھن والا ہی " اُوتار" کے رتبے پر فائز ہو گیا ہے اور شریف، پڑھا لکھا سُفید پوش محض کمی کموڑا بن کررہ گیا تو اِس نسل میں سے احساسِ جرم کیساتھ ساتھ احساسِ گناہ بھی ناپید ہوگیا۔ پیسہ ہی منزلِ مقصود بن گیا جس کیلئے سُودخوری، بدمعاشی و بھتہ خوری، جواء و ڈکیتی، منشیات و سمگلنگ اور قتل وغارت کا ایسا بازار گرم ہوا جہاں اخلاقی اقدار کیساتھ قانون وغیرہ بھی موم کا ناک بن گئے، یوں ضلع کچہری سے صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر یہ خوبصورت گاؤں پولیس کیلئے نوگو ایریا بن گیا۔

کتاب کا یہ اقتباس، جہاں گئے زمانوں کے پُرامن شہباز خیل کی موت کا پوسٹ مارٹم ہے وہاں درحقیقت ہماری ذاتی اغراض و مفادات کے اِردگرد گُھومتی غلیظ سیاست اور سیاستدانوں کے منہ پر کسی طمانچہ سے بھی ہرگز کم نہیں، کتاب پڑھنے کے بعد ایک راز یہ بھی کُھلا کہ صرف انسانوں ہی میں عورت (مادہ) مَردوں کو ورغلا کر تباہ و برباد نہیں کرتی بلکہ پرندے بیچارے بھی اپنی اِسی مادہ کے ہاتھوں ہمیشہ سے مارے جاتے رہے ہیں۔

ایک جگہ ڈاکٹر طارق نیازی رقمطراز ہیں کہ " کِرک" اس مادہ بٹیر کو کہتے ہیں جو اپنی مخصوص بولی بولتی ہے ہم لوگ کھیت کے ایک کونے پر جال لگا دیتے جس کیساتھ " کِرک" رکھ دیتے وہ جب اپنی مخصوص بولی بولتی تو کھیتوں میں موجود بٹیر (نَر) اسکی آواز پر کھینچا چلا آتا اور یوں جال میں پھنس جاتا، " میں اور میرا میانوالی " میں جگہ جگہ مقامی زبان کے محاورے و اصطلاح اور" اکھانڑ" کے استعمال سے جہاں لوک دانش کا یہ قیمتی خزانہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوگیا ہے، وہاں ورق گردانی کرتے وقت قاری محظوظ ہوئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا، مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں " اگر کسی مریض کو گیسٹرو انٹرانس ہوجاتا تو حکیم سے کہا جاتا کہ " اُتو تلو چُھٹ گیا اے " یعنی الٹیاں اور پیچس بھی لگ گئے ہیں۔"

ڈاکٹر طارق نیازی اپنی اس آپ بیتی میں کہیں بھی کسی طرح کے احساسِ کمتری یا برتری کا شکار نہیں ہوئے اور زمانہ طالب علمی اور دورانِ سروس جو کچھ اندر محسوس کیا اُس کوبھی پوری ایمانداری کیساتھ الفاظ کی صورت گری میں قارئین کیساتھ شئیر کیا۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ایک کامیاب انسان کی انفرادی داستانِ حیات تو ہے ہی مگر اپنے عَہد کی یہ ایک ایسی جامع تصویر بھی ہے۔ جِس میں رائٹر شہبازخیل سے میانوالی شہر "لاہور" سلطنت آف عمان اور راولپنڈی کے مختلف مناظر آپ کی انگلی پکڑ کر اس کمال کیساتھ دکھاتا ہے کہ کسی لمحہ بھی بوریت یا اُکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا۔

میرا خیال ہے کہ ایک کامیاب لکھاری کی یہی خوبی اس کو تادیر زندہ رکھتی ہے مگر جس طرح ڈاکٹر طارق مسعود خان نیازی نے اپنی پہلی کاوش میں اپنے زمانے کو جس خوبصورتی کیساتھ پینٹ کیا ہے۔ وہ مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ اپنی آنیوالی نسلوں کیلئے انہوں نے سینہ گزٹ کی بجائے ایک مُستند اور جامع تاریخ مرتب کردی ہے جس پر نہ صرف یقیناً وہ فخر کیاکریں گیں بلکہ اِس سنگِ میل کی مدد سے اپنے آباؤ اجداد کی "گُم گشتہ جنت" کو تلاش کرنے کیلئے راہنمائی بھی حاصل کریں گیں۔

Check Also

Likhari

By Muhammad Umair Haidry