Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asmatgul Khattak/
  4. Corona Ki Talash (5)

Corona Ki Talash (5)

کورونا کی تلاش (5)

معلوم نہیں رات کس وقت آنکھ لگی مگر جب کھلی تو تھل کی سحر تمام تر سحرانگیزیوں کیساتھ طلوع ہورہی تھی۔

پرندوں کی حمدوثناء میں ڈوبی وہ آوازیں جو شہری زندگی کی بھینٹ چڑھ کر کہیں گم ہوگئی ہیں سپیدہ سحر، جس کو آلودگی نے نگل لیا ہے اور وہ ایک خاص طرح کی خوشبو، جو اندھیرے کے سینے میں روشنی کا نیزہ اترتے وقت چار سو پھیل جاتی ہے دور افق پر سورج کے طلوع سے چند لمحے پہلے امیدوں کی دھنک کا ظہور غرض، چوک منڈا کے اس للیاں (LILYAN) نامی خطہ کے وسیع و عریض تھل میں تقریباً سب کچھ ہی تھا جو انسان اور فطرت کے درمیان سارے مصنوعی پردے ہٹا دیتا ہے فطرت کی قربت میں اس طرح کے تمام مظاہر بہت قریب بلکہ اکثراوقات ہم سب انہی کا حصہ بن کررہ جاتے ہیں اس قدر دیسی اور خالص ماحول میں چاروں طرف بلکہ اوپر و نیچے سے بھی بند، درو دیوار کے حامل باتھ روم میں رفع حاجت کیلئے مقید ہونا یقیناً ظلم عظیم کے زمرے میں آتا سو، میں نے حدنظر تک پھیلے قدرت کے وسیع " اوپن ائیر ٹوائلٹ" کا انتخاب کیا اور ریگزار کے نشیب و فراز میں نکل پڑا۔

بہت زمانوں کے بعد اس فطری تقاضے کے دوران، حضرت آدم سے لیکر "زمانہ قبل از ٹوائلٹ" تک ہر اس زمیں زاد کی راحت میں نے محسوس کی جو باتھ روم جیسی وباء سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

ناشتے کا مرحلہ آیا تو چنے کی کچی پکی فصل کو آگ دکھا کر "تراڑہ" کی صورت اختیار کرجانیوالی سوغات کی پیشکش پر ہر ایک نے باآواز بلند آمین کہا شفاءاللہ خان نے انکشاف کیا کہ یہ "ناشتہ" گھوڑوں کیلئے بھی اکسیر کا درجہ رکھتا ہے تاہم میں اس لئے چپ رہا کہ اب اس عمر میں اور پھر سب سے بڑھ کر "کمپیوٹر ایج" میں ھم نے کس دشت اور دریاؤں میں گھوڑے دوڑانے ہیں؟ کیونکہ طاقت کے میدان تو بدلے زمانے بیت گئے ہیں اور انسانی جسم کی بجائے ذہنی طاقت کی حکمرانی ہمارے دروازوں پر مسلسل دستک دیتی چلی آ رہی ہے جس کیلئے چنے اور "تراڑوں" کی بجائے جدید علوم کی اشد ضرورت ہے مگر ہم آج اکیسویں صدی میں بھی "پدرم سلطان بود" کے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔

صدیوں سے بنجر اس ریگزار کا سینہ چیر کر دو اڑھائی ہزار کنال پر محیط رقبے کی کوکھ سے پیدا ہونیوالی لہلاتی گندم اور چنے کی فصل کو دیکھنے کیلئے ایک بار پھر ہمیں گاڑیوں میں سوار ہونا پڑا۔ بیشک، " وان لیس للا نسان الاماسعیٰ" ( اور یہ کہ انسان کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے کوشش کی) اس بیاباں میں حاجی حمید اللہ کی محنت اور اللہ کی عنائت کو ننگی آنکھ سے دیکھ کر قران کریم کی حقانیت اور اللہ کی کبریائی و منصفی پر ایک بار پھر ایمان کی پختگی کا لمحہ اترا، تھل کے انہی ٹیلوں کے نشیب و فراز میں ایک ایسا " کھنڈر" بھی نظر آیا جس کا اجاڑپن اتنا اذیت ناک تھا کہ اسکی محض دو چار تصاویر ہی بنا سکا پتہ نہیں یہاں ارد گرد ناچتی وحشت میں زیادہ دیر میں کیوں نہ ٹھہر سکا؟

اس اجڑے پجڑے بغیر چھت و کواڑ کے شکستگی سے دوچار دیواروں کا حامل اکلوتا کمرہ اور اس کا ویران آنگن اپنی دردناک داستان سنا رہا تھا مگر افسوس کہ میں ایسی قوت سماعت سے محروم تھا کہ اس کو سن اور سمجھ سکتا۔ کون لوگ تھے جو خبر نہیں کہاں سے آئے تھےاور جب ان کے رزق کے خاتمہ کی گھنٹی بجی ہوگی تو معلوم نہیں کہاں ہجرت کرگئے ہوں گے؟

شکم کی آگ لئے پھرتی ہے شہر بہ شہر

سگ زمانہ ہیں، ھم کیا ہماری ہجرت کیا؟

دو اڑھائی گھنٹے تک گندم اور چنے کی فصل کیساتھ اٹھکھیلیاں کرنے کے بعد ڈیرہ حمید کی طرف واپسی کا ارادہ کیا ہی تھا کہ جناب شفاءاللہ خان گوگل جس کا سرچ انجن گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے مسلسل کورونا کی تلاش میں سرگرداں تھا اس نے بہ آواز بلند ہم سب کو متوجہ کیا اور حسب عادت ایک کنگھورا مارنے کے بعد اعلان کرتے ہوئے یہ دعویٰ کر دیا کہ " کورونا مل گیا ہے"۔

سب سے پہلے میں اسکی طرف دوڑ پڑا کہ ذرا اس کم بخت کو نظر بھر کر دیکھ تو لوں جس نے پوری دنیا کو اس وقت "وخت" میں ڈال رکھ ہے اتنے قریب سے "کورونا" کو دیکھ کر اس کے بارے میں قائم رائے اور امیج یکسر بدل گیا کیونکہ میڈیا پر دکھائے جانیوالے خوفناک شکل والے " کورونا" کو میں نے اپنے گنہ گار ہاتھوں سے چھؤا تو وہ کسی ڈراؤنی موت کی بجائے نہایت ہی نرم و نفیس اور عمودی شکل کا عجیب و غریب سا کوئی جھاڑ جھنکار ٹائپ چیز تھا جس کے فوراً بعد میں نے آپ دوستوں کیلئے بطور تبرک اسکی ایک تصویر بھی بنائی جو آج کی قسط میں اس لئے پیش خدمت ہے کہ ایک تو آپ کو اس کی زیارت سے محروم کرنا مناسب نہیں تھا اور دوسری گزارش یہ کہ آپ کی ذہانت و جہاندیدگی کا بھی کچھ امتحان لینا مقصود ہے؟

قارئین کرام سچ سچ بتائیے گا اپنے قیمتی کمنٹس میں کہ اگر خدانخواستہ یہ " کورونا" نہیں تو پھر کیا ہے۔؟

(جاری ہے)

Check Also

Kya Kahoon Aur Kis Se Kahoon?

By Syed Mehdi Bukhari