Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asmatgul Khattak
  4. Corona Ki Talash (3)

Corona Ki Talash (3)

کورونا کی تلاش (3)

مین سڑک سے مڑتے ہی جس طرح سارا منظرنامہ بدل گیا ہم سب نے اقبال مجوکہ کو قیادت سونپ دی کیونکہ وہ حاجی حمیداللہ خان کا یار غار ہونے کے ساتھ ساتھ اسی ایریا کے حوالے سے "یار ٹبہ وٹوبہ" بھی ہے اس لئے ھم سب اسی کے پیچھے ہولئے تاہم ٹیلہ در ٹیلہ کے اس سفر میں منیرنیازی کے اس مشہور زمانہ شعر کی تفسیر ہم پر جیسے بیت سی گئی

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

یہاں دریا تو ایک بھی نہیں تھا البتہ ایک ٹیلے (ٹبہ) سے اترتے تو سامنے ایک اور ٹیلے کا سامنا کرنا پڑتا تقریباً آدھ گھنٹے بعد انسانی بلاؤں سے محفوظ اس خالص فطری ماحول میں اچانک سامنے "ڈیرہ حمید" پر نظر پڑی تو جان میں جان آئی کیونکہ شفاءاللہ خان نے دوپہر کا کھانا بھی ہمیں اس لئے نہیں کھانے دیا تھا کہ بقول اس کے چار بجے بکرا شریف ہمارے معدے میں اترنے کیلئے دسترخوان پر تیار ہوگا مگر اقبال مجوکہ نے یہ بتاکر بھوک سے ہم سب کے اندر اودھم مچاتے چوہوں پر گویا آسمانی بجلی گرادی کہ متذکرہ بکرے کی تکہ بوٹی کرنے کیلئے چھری و ٹوکہ تو اسکی گاڑی کی ڈگی میں پڑے ہیں۔

یہاں مزید پریشان کن صورت حال یہ دیکھنے میں آئی کہ ہم سب غریب الوطن مسافروں نے کن اکھیوں سے ادھر ادھر بکرا موصوف ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر اس وقت بکرا غالباً عید کا چاند بن گیا تھا اور ہم سب رویت ہلال کمیٹی کے ممبران کی طرح بھوک سے اندھے ہوکر اسکو دیکھنے کیلئے آسمان کی بجائے زمینی "ٹوئے ٹبوں" میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے تھے اس سے بھی زیادہ اذیت ناک صورت حال اس لمحے سامنے آتی جب بکرے کو ڈھونڈنے کی ہر ناکام کوشش کے نتیجے میں ہر مرتبہ ہی ایک درمیانے سے قد کا کتا ہم پر عجیب وغریب نظریں جمائے دکھائی دیتا اس طرح کا کتا جیسے میں نے پہلی بار دیکھا تھا مجھے اسکی نظروں اور حرکتوں سے محسوس ہوا کہ وہ بھی اپنی زندگی میں غالبا" پہلی مرتبہ ہم جیسے بھوک سے نڈھال انسانوں کو دیکھ رہا تھا سچی بات ہے ایک بار تو میں یہ سوچ کر بڑا ڈر گیا کہ کہیں اس موذی نے ہم انسانوں کے اندر اودھم مچاتی طرح طرح کی وہ دنیاوی بھوک تو نہیں دیکھ لی جس نے اس خوبصورت اور جنت جیسی دنیا کو جہنم بنادیا ہے؟

ایک اور خلاف توقع بات یہ دیکھنے میں آئی کہ بکرا تو ظاہر ہے کہیں بھی نظر نہ آیا، حاجی حمیداللہ خان بھی سلام دعا کے بعد یوں غائب ہوگئے، جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔

یہ تو میں نے بہت سن اور پڑھ رکھا تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے مگر اپنی ننگی آنکھوں سے پہلی بار اس کو عملی طور پر ایسا واقعتاً دیکھ بھی رہا تھا۔ یادش بخیر، جس زمانے میں لوگ عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بیتاب رہا کرتے تھے کسی پروگرام کے سلسلے میں ہم اکھٹے عیسیٰ خیل جارہے تھے راستے میں لالہ نے بتایا کہ کمرمشانی میں، میرے ایک عاشق نامراد نے میری ناک میں دم کررکھا ہے جس کا صبح وشام ایک ہی تقاضا ہے کہ اس کے گھر کھانا کھاؤں میں نے لقمہ دیا کہ لالہ اس میں ہرج ہی کیا ہے۔؟ کیوں نہ آج ہی اسکی دلی مراد پوری کی جائے۔

عیسیٰ خیلوی اور اس کے دس بارہ طبلہ و باجہ بجانیوالوں وغیرہ سمیت جب ہم شام کے بعد، ایک فنکار کے عشق میں گوڈے گٹوں تک ڈوبے اس عاشق کے گھر پہنچے تو گھر کے ایک دروازے پر اس نے یہ منی "بارات" رسیو تو کرلی مگر دوسرے دروازے سے وہ ایسا نکلا کہ بعد ازاں عیسیٰ خیلوی کی زندگی سے بھی ہمیشہ کیلئے نکل گیا۔

کورونا کی تلاش کے اس سفر میں میں نے اس موقع پر آنکھوں ہی آنکھوں میں جائزہ لیا تو اتفاق سے ہم چھ دوست میانوالی سے اور پانچ چھ مہمان احمدپور سیال سے یعنی وہی گیارہ بارہ افراد پر مشتمل ہماری "بارات" اتفاق سے ایک ہی وقت پرجب شام ڈھلے"ڈیرہ حمید" پر پہنچی تو خوش آمدید کی رسمی کارروائی کے بعد جس طرح حاجی حمیداللہ غائب ہوگئے مجھے لگا کہ ہمارا یہ "عاشق نامراد" بھی پنوں کی طرح ان تھل ٹیلوں میں کہیں مارا گیا؟ کیونکہ حیرت انگیز طور پر حاجی صاحب نے بھی ہمیں اپنے اسی ڈیرے پر آنےکی معلوم نہیں کتنی مرتبہ دعوت دی رکھی تھی بلکہ دسترخوان پر سجنے والے پالتو بکرے کی اتنی خوبیاں بتائی ہوئی تھیں کہ اللہ دے اور بندہ لے مگر اس بدگمانی سے یہی سوچ کر میں نے جلد ہی جان چھڑالی کہ فنکار و اداکاروں کے عاشق بھی اپنے معشوق کی طرح ہمیشہ خیالی گھوڑوں کے شہہ سوار بن کر افسانوی جنتوں کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں اور محض دلفریب باتوں اور دلکش اداؤں سے ہی ایک دوسرے پر قربان ہوتے رہتے ہیں انہی سوچوں اور خیالوں میں غلطاں تھا کہ چچا غالب یاد آگئے .جس نے کہا تھا۔۔

رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

کیا زبردست رمز شناس شاعر ہے جس کا عملی تجربہ مجھے یہاں بھی کچھ اس انداز میں ہوا کہ مسلسل بھوک سے میں اتنا خوگر ہوا کہ اب ساری بھوک ہی کہیں اڑ گئی۔

اسی دوران حاجی صاحب بھی ہاتھ میں ڈوئی (کفگیر) پکڑے کہیں سے نمودار ہوئے اور اعلان کیا کہ بکرا بڑا ڈھیٹ نکلا جسکا گوشت گالنے کیلئے مجھے بہ نفس نفیس پتہ نہیں کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑے؟ بس اب کٹوہ تیار ہے آپ لوگ تیاری پکڑیں اس اطلاع کے فورا بعد میری رہی سہی بھوک غالباً اس لئے تشویش میں بدل گئی کیونکہ ہمارے استقبالیہ میں شامل "ڈیرہ حمید" پر ہمارے ارد گرد منڈلانے والا اس "وسیب" کا اکلوتا کتا گزشتہ ایک گھنٹہ سے کہیں غائب تھا اور مجھے آج سے پندرہ بیس سال پہلے وادی سم چھدرو (میانوالی) کا وہ کتا یاد آنے لگا جس نے ہمارے دوست احمد شیر (پولیس) کے صحن میں دوپہر کے کھانے سے پہلے بڑے جوش و خروش کیساتھ بھونکتے ہوئے ہمیں خوش آمدید کہا تھا مگر جب ہم کمرے میں لنچ کر کے باہر نکلے تو وہ کتا شام گئے ہماری واپسی تک دوبا۔

جاری۔۔

Check Also

Kahani Aik Deaf Larki Ki

By Khateeb Ahmad