Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Tarbooz, Garmiyon Ka Shireen Sach

Tarbooz, Garmiyon Ka Shireen Sach

تربوز، گرمیوں کا شیریں سچ

تربوز، یہ سرخ دل والا سبز پوش پھل، گرمیوں کے دنوں میں ایسے آتا ہے جیسے جلتی ہوئی زمین پر پہلا ساون برس پڑے۔ جب دوپہر کی دھوپ کی تپش ہڈیوں میں اترنے لگتی ہے، جب جسم پسینے میں نہا جاتا ہے، جب اندر سے بھی انسان جلتا ہوا محسوس کرتا ہے تو ایسے میں ایک تربوز، خاص طور پر اگر ٹھنڈا ہو، تو صرف زبان کی لذت ہی نہیں، جسم و روح کی پیاس بھی بجھا دیتا ہے۔ اسے صرف پھل کہنا زیادتی ہوگی، یہ دراصل ایک قدرتی دوا ہے، ایک شربت ہے جو درختوں کی جڑوں سے، مٹی کی کوکھ سے، دھوپ کے سینے سے اور پانی کی روح سے تیار ہوتا ہے۔ جس میں مٹھاس بھی ہے، سکون بھی اور بدن کے ہر سلگتے خلیے کے لیے راحت کا پیغام بھی۔

تربوز صرف پانی نہیں، بلکہ ایسا پانی ہے جو روح تک پہنچتا ہے۔ بازار سے جب خریدا جاتا ہے تو یہ ایک عام سا پھل دکھائی دیتا ہے، مگر جیسے ہی چھری چلتی ہے اور اس کا سرخ، گلابی اندرون سامنے آتا ہے تو لگتا ہے کہ قدرت نے دھوپ کی آگ کے مقابل ایک نرم و نازک، رس بھرا، خالص جواب تیار کر رکھا ہے۔ وہ لمحہ جب اس کا پہلا ٹکڑا منہ میں جاتا ہے اور رس زبان پر پھسلتا ہے، آنکھوں میں فرحت آ جاتی ہے، حلق سے اترتا ہے تو لگتا ہے جیسے اندر ٹھنڈک کی ایک نرم لہر اتر رہی ہو، جو بدن کی تھکن، دماغ کی الجھن، دل کی بےچینی، سب کو بہا لے جا رہی ہو۔

تربوز کے ذائقے میں عجیب سی نرمی اور سادگی ہوتی ہے۔ یہ آم کی طرح چپچپا نہیں، کیلا کی طرح بھاری نہیں، انگور کی طرح چھلکوں میں قید نہیں۔ یہ کھلا ہوا، بے پردہ اور فیاض پھل ہے۔ جو کھانے والے سے کچھ نہیں چھپاتا۔ ہر ٹکڑا اپنی مٹھاس، اپنی خنکی، اپنی تاثیر کے ساتھ حاضر ہوتا ہے۔ ایسے ہی جیسے کوئی مہربان دوست، جو گرمی کے دنوں میں خاموشی سے آ کر آپ کے ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھے، بنا کسی احسان کے ذکرکے۔

اور پھر بات صرف ذائقے اور ٹھنڈک تک محدود نہیں۔ تربوز کے اندر وہ تمام خصوصیات چھپی ہوئی ہیں جو ایک مکمل گرمیوں کی غذا میں ہونی چاہییں۔ 95 فیصد پانی، لیکن ایسا پانی جو معدے کو دھو دیتا ہے، جگر کی گرمی کو شانت کرتا ہے، گردوں کے راستے جسم سے فاضل نمکیات کو نکال دیتا ہے۔ ایک نیچرل ڈیٹوکس۔ ڈاکٹر نہ بھی کہیں، تب بھی بدن بتاتا ہے کہ یہ فائدہ مند ہے۔ کچھ پھل کھا کر انسان سیر ہو جاتا ہے، کچھ پھل پیاس بجھاتے ہیں، لیکن تربوز وہ نایاب تحفہ ہے جو سیر بھی کراتا ہے اور پیاس بھی بجھاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اتنا بڑا پھل، جو اکثر پانچ چھ کلو کا ہوتا ہے، صرف پانی اور مٹھاس کا امتزاج ہوتا ہے، لیکن کبھی بھی معدے پر بوجھ نہیں بنتا۔ ہضم ایسا کہ جیسے کبھی کھایا ہی نہ ہو، مگر سکون ایسا کہ جیسے عبادت کر لی ہو۔

پاکستان میں گرمیوں کے موسم میں تربوز کا چلن تقریباً ہر طبقے میں یکساں ہے۔ چھابڑی والا ہو یا سفید پوش، سرکاری کلرک ہو یا دفتر کا سربراہ، مزدور ہو یا مولوی، نوجوان ہو یا بزرگ، عورت ہو یا بچہ، ہر کوئی اس پھل کو ایک ہی جذباتی رشتہ دیتا ہے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب گرمیوں کی دوپہر میں کسی سائے دار درخت کے نیچے، یا کسی نالی کے ساتھ ایک تربوز کاٹنے والا بیٹھا ہو اور راہگیر رک رک کر خریدتے جائیں، ہاتھ سے تولیں، انگلی سے کھٹکھٹا کر آواز سنیں، کان سے لگا کر اس کی پختگی جانچیں۔ تربوز کو خریدنے کا عمل بھی ایک عجیب سا تجربہ ہے۔ کوئی اس کا رنگ دیکھ کر پرکھتا ہے، کوئی دم پر دستک دیتا ہے، کوئی چھری لے کر کٹوانے کا مطالبہ کرتا ہے اور جب اندر سے سرخ نکل آئے تو ایسے خوش ہوتا ہے جیسے لاٹری لگ گئی ہو۔

ایک دور تھا جب گھروں میں شام کو صحن میں تربوز کاٹا جاتا تھا اور پورا خاندان مل بیٹھ کر اسے کھاتا تھا۔ تربوز کاٹنے سے پہلے پانی میں ٹھنڈا کیا جاتا، پھر چاٹ مصالحہ، کالا نمک، کٹی مرچ ساتھ رکھی جاتی۔ کچھ لوگ اسے بغیر مصالحے کے کھاتے ہیں، کیونکہ اس کی مٹھاس خود ایک مکمل ذائقہ ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کو نمک مرچ والا تربوز پسند ہے، جس میں کھٹے میٹھے کا امتزاج زبان کو جگا دیتا ہے۔ گاؤں دیہات میں تو اکثر تربوز کے ساتھ روٹی بھی کھائی جاتی ہے اور وہ ایک مکمل کھانا بن جاتا ہے۔ یہ بھی ایک پاکستانی خاصیت ہے، کہ تربوز کو کبھی صرف "فروٹ" نہیں سمجھا گیا، بلکہ یہ مکمل ایک "ٹائم کا کھانا" ہوتا ہے۔

تربوز کا ایک اور دلکش پہلو یہ ہے کہ یہ انتہائی سستا ہوتا ہے۔ پانچ سو روپے میں پانچ چھ کلو کا پھل مل جاتا ہے جو پورے خاندان کو خوش کر دیتا ہے اور کوئی اور پھل ایسا کہاں؟ آم مہنگا، سیب نازک، انگور نازاں، مگر تربوز خالص عوامی پھل ہے۔ جیسے عوامی شاعر ہوتا ہے، ویسے ہی یہ عوامی پھل ہے۔ کوئی شوقین اسے شوق سے کھاتا ہے اور کوئی مجبوری میں، مگر دونوں کو ایک سا ذائقہ اور ایک سا سکون ملتا ہے۔

اس سب کے باوجود اگر کوئی کہے کہ تربوز صرف گرمی کے دنوں کا وقتی ساتھی ہے تو وہ اس کی روح کو نہیں سمجھتا۔ تربوز وقت کا محتاج نہیں، یہ مزاج کا ساتھی ہے۔ جب بدن میں الجھن ہو، دماغ بھرا بھرا سا ہو، نیند پوری نہ ہوئی ہو، پانی کی کمی محسوس ہو رہی ہو، یا دل کسی بوجھ تلے دب رہا ہو۔ ایک تربوز کی پلیٹ، چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کٹی ہوئی اور ایک تنہا کمرے میں خاموشی سے اسے چبانا یہ پورے دن کا سب سے قیمتی لمحہ بن سکتا ہے۔

جہاں دیگر پھل آپ کو جسمانی فوائد دیتے ہیں، وہاں تربوز آپ کو روحانی سکون دیتا ہے۔ یہ اندرونی خشکی کو دھو دیتا ہے۔ روز مرہ کی گرمیوں میں پیدا ہونے والی چڑچڑاہٹ کو دباتا ہے۔ ایک ایسی محبت جیسا ہے جو بنا شرط کے ملتی ہے، بغیر حساب کے عطا ہوتی ہے۔ جو آپ سے کچھ مانگتی نہیں، بس آپ کو تازہ کرتی ہے، تروتازہ بناتی ہے۔

اور تربوز صرف پھل نہیں، ایک موسم کا استعارہ ہے۔ جیسے ہی بازار میں تربوز نظر آنے لگتا ہے، دل کہتا ہے: گرمی آ گئی ہے اور جب آخر میں چھوٹے، پیلے اور بے مزہ تربوز آنے لگیں تو پتا چلتا ہے: موسم رخصت ہو رہا ہے۔ اس کا ایک اپنا کیلنڈر ہے، جو گرمی کے مہینوں کو نشان زد کرتا ہے۔

تربوز کو کھانے کے آداب بھی دلچسپ ہیں۔ تربوز کو ہمیشہ بیٹھ کر کھانا چاہیے، کھڑے ہو کر کھانے سے بعض لوگ معدے کی خرابی کی شکایت کرتے ہیں اور خالی پیٹ زیادہ نہ کھائیں، کیونکہ اس میں قدرتی شکر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ذیابیطس کے مریض بھی اسے اعتدال سے کھائیں۔ اس کا بہترین وقت ہے ورزش کے بعد، یا سخت گرمی میں جسم کو سکون دینے کے لیے۔ کھانے کے فوراً بعد زیادہ مقدار میں کھانے سے گریز کریں، ورنہ پیٹ میں گیس یا اپھارہ ہو سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ رات سونے سے پہلے نہ کھائیں، خاص طور پر اگر ٹھنڈا ہو، کیونکہ یہ سرد مزاج لوگوں کو سوتے وقت پیٹ کی خرابی یا سردی دے سکتا ہے۔

آخر میں، تربوز ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ مٹھاس، سادگی اور فرحت، یہ تینوں صفات ایک ساتھ بھی جمع ہو سکتی ہیں۔ تربوز کے ذریعے قدرت نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ زندگی کی سخت گرمیوں میں بھی کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو آپ کو ٹھنڈا کر سکتی ہیں، آپ کی جلتی ہوئی روح کو سہلا سکتی ہیں۔ یہ صرف کھانے کی چیز نہیں، یہ ایک تجربہ ہے، ایک خوشبو ہے، ایک لمحہ ہے جسے ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے۔ یہ ایک کیفیت ہے، جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، صرف ایک کاٹا ہوا تربوز، ایک چمچ اور خاموشی سے کھاتے ہوئے آنکھوں میں جھلکنے والی تسکین، بس یہی وہ چیز ہے جو تربوز کو عام پھلوں سے خاص بناتی ہے۔

تو جب اگلی بار تربوز سامنے آئے، تو اسے صرف کھائیں نہیں۔ اسے محسوس کریں، اس کے رنگ کو دیکھیں، اس کے ذائقے کو وقت دیں، اس کی ٹھنڈک کو اپنے اندر اترنے دیں اور شکر ادا کریں اُس قدرت کا، جس نے انسان کی گرمی کو محبت سے ٹھنڈا کرنا سکھا دیا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam