Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Semiconductors, Mustaqbil Ki Aalmi Jang Ka Asal Hathiyar

Semiconductors, Mustaqbil Ki Aalmi Jang Ka Asal Hathiyar

سیمی کنڈکٹرز، مستقبل کی عالمی طاقت کا اصل ہتھیار

دنیا میں طاقت کے پیمانے بدل رہے ہیں۔ ماضی میں سلطنتیں زمینوں، فوجوں اور قدرتی وسائل کی بنیاد پر بنتی اور بکھرتی تھیں، آج ان کی جگہ ٹیکنالوجی نے لے لی ہے۔ جو قوم سائنس اور ٹیکنالوجی میں سبقت لے جائے، وہی دنیا کی قیادت سنبھالتی ہے۔ بیسویں صدی میں یہ قیادت ایٹمی طاقت رکھنے والے ملکوں کے پاس تھی، لیکن اکیسویں صدی میں یہ اقتدار "چِپس" بنانے والے ملکوں کو منتقل ہو رہا ہے۔ نہیں، یہ "چِپس" وہ نہیں جنہیں ہم چائے کے ساتھ کھاتے ہیں، بلکہ یہ وہ ننھی سی مائیکرو چپ ہے جو ہماری روزمرہ زندگی کے ہر شعبے کا بنیادی جزو بن چکی ہے۔ یہی ہے سیمی کنڈیکٹر۔

سیمی کنڈکٹر ایک ایسی باریک مگر انتہائی طاقتور چپ ہے جو ہر اس آلے میں نصب ہوتی ہے جس میں کوئی ذہانت، رفتار یا کنٹرول درکار ہوتا ہے۔ آپ کا موبائل فون ہو یا لیپ ٹاپ، گاڑی ہو یا ریفریجریٹر، واشنگ مشین ہو یا جنگی جہاز، ہر جگہ یہ چپ موجود ہے۔ یہاں تک کہ مصنوعی ذہانت، مشینی تعلیم، خلائی سفر اور جدید ترین ہتھیاروں کے نظام بھی انہی چِپس پر انحصار کرتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ آج دنیا سیمی کنڈیکٹرز پر چل رہی ہے۔

اس وقت سیمی کنڈکٹر کی عالمی صنعت تقریباً 500 ارب ڈالر کی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ 2030 تک یہ ایک ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ اس صنعت کی زنجیر بڑی پیچیدہ، مربوط اور بین الاقوامی ہے۔ ایک عام اسمارٹ فون میں لگنے والی چپ امریکہ میں ڈیزائن ہوتی ہے، اسے تائیوان، جاپان یا جنوبی کوریا میں تیار کیا جاتا ہے اور پھر چین میں اسے دیگر اجزاء کے ساتھ اسمبل کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ صرف ایک چپ نہیں بلکہ عالمی معیشت کے ایک نازک مگر طاقتور نظام کی علامت ہے۔

اسی اہمیت کی وجہ سے اب یہ ٹیکنالوجی عالمی سیاست اور طاقت کے توازن میں مرکزی کردار ادا کرنے لگی ہے۔ آج دنیا کی دو بڑی طاقتیں، امریکہ اور چین، سیمی کنڈکٹرز پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک سرد جنگ میں مصروف ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ چین اس ٹیکنالوجی تک مکمل رسائی حاصل نہ کر سکے، جبکہ چین ہر قیمت پر اس خود کفالت کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہی کشمکش "چِپ وار" کہلاتی ہے، جس پر امریکہ کی ٹفٹس یونیورسٹی کے پروفیسر اور کتاب "Chip War" کے مصنف کرس ملر نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

کرس ملر کہتے ہیں کہ اس وقت امریکہ اور چین واضح طور پر ایشیا پیسیفک خطے میں ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ میں مصروف ہیں۔ مگر یہ صرف جہازوں، میزائلوں یا توپوں کی روایتی دوڑ نہیں بلکہ یہ الگورتھمز، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور مائیکرو چپس کی اعلیٰ ترین اقسام کے گرد گھومنے والی جنگ ہے۔ آج کی جنگ اس بات پر ہے کہ کون سی قوم زیادہ ذہین، تیز اور قابل بھروسا ٹیکنالوجی تیار کر سکتی ہے۔

اس وقت امریکہ نے سیمی کنڈکٹرز کی عالمی سپلائی چین پر خاصا کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔ اس نے ناصرف اپنی کمپنیوں کو اس میدان میں آگے رکھا ہے بلکہ تائیوان، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ملکوں کو اپنی حکمت عملی میں شامل کرکے چین کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تائیوان کی TSMC کمپنی، دنیا کی سب سے بڑی چپ ساز کمپنی، امریکہ کے لیے ایک اسٹریٹجک اثاثہ بن چکی ہے۔ دوسری طرف چین اس انحصار سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے تیزی سے مقامی سطح پر اپنی چپ ساز صنعت کو فروغ دے رہا ہے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری، سائنسی تحقیق اور ماہرین کی تربیت کے ذریعے چین خود کو ٹیکنالوجی میں خود کفیل بنانا چاہتا ہے۔

چین کی یہ کوشش صرف اقتصادی مفاد کی نہیں بلکہ قومی سلامتی اور بین الاقوامی طاقت کا مسئلہ ہے۔ جو ملک اس ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گیا، وہ مستقبل میں دفاع، معیشت، صحت، تعلیم، مواصلات، حتیٰ کہ خوراک کی فراہمی میں بھی دوسروں پر انحصار کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کسی قیمت پر نہیں چاہتا کہ چین اسے ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دے۔

امریکہ نے چینی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ہواوے جیسی کمپنیاں، جو کبھی اسمارٹ فونز کی دنیا میں سب سے آگے تھیں، اب امریکی پابندیوں کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہو چکی ہیں۔ سیمی کنڈکٹرز کی درآمد پر بھی پابندیاں لگائی گئیں اور امریکی کمپنیاں کسی حد تک مجبور کر دی گئیں کہ وہ چینی اداروں کو سپلائی نہ دیں۔ اس کے نتیجے میں چین نے اپنی چپ انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے کئی نئی حکمت عملیاں اپنائی ہیں اور اب وہ تیزی سے "ڈی کپلنگ" یعنی امریکہ سے ٹیکنالوجی کے انحصار کو ختم کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

یہ صرف چین اور امریکہ کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کی معیشت اس کشمکش سے متاثر ہو رہی ہے۔ کورونا وبا کے دوران جب سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار میں رکاوٹ آئی تو پوری دنیا کی گاڑیاں، موبائل فونز، گھریلو اشیاء، حتیٰ کہ ادویات بنانے والے آلے بھی متاثر ہوئے۔ اس کے بعد دنیا کو اندازہ ہوا کہ یہ ننھی سی چپ کتنی قیمتی اور نازک چیز ہے۔ اسی لیے اب دنیا کے دیگر ممالک بھی سیمی کنڈکٹرز کے میدان میں داخل ہونا چاہتے ہیں، تاکہ نہ صرف وہ خود کفیل بن سکیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی حیثیت مستحکم کر سکیں۔

انڈیا نے حالیہ برسوں میں اس صنعت میں بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ حکومت نے غیر ملکی کمپنیوں کو راغب کرنے کے لیے سبسڈیز، مراعات اور انفراسٹرکچر کی فراہمی شروع کر دی ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف عالمی سپلائی چین کا حصہ بننا ہے بلکہ ایشیا میں ایک مضبوط متبادل فراہم کرنا بھی ہے۔ اگر انڈیا یہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو وہ مستقبل کی عالمی سیاست میں ایک مضبوط کھلاڑی بن کر ابھر سکتا ہے۔

یہاں پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی غور و فکر کا مقام ہے۔ کیا ہم ہمیشہ دوسروں کی بنائی گئی ٹیکنالوجی استعمال کرتے رہیں گے؟ کیا ہم صرف صارف رہیں گے یا کبھی خالق بھی بنیں گے؟ ہماری جامعات، سائنس دان، حکومت اور نجی شعبہ اس میدان میں داخل ہونے کے لیے تیار کیوں نہیں؟ سیمی کنڈکٹر کی صنعت مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ اگر چھوٹے ممالک بھی اس دوڑ میں قدم رکھنے کی تیاری کر رہے ہیں تو ہمیں بھی اپنی سمت درست کرنا ہوگی۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ سیمی کنڈکٹرز صرف معیشت یا دفاع تک محدود نہیں۔ ان کے ذریعے معلومات، مواصلات اور ذہانت کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ جو ملک ان چِپس کے معیار اور مقدار کو طے کرے گا، وہی اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ دنیا کیا سیکھے، کیسے سوچے اور کیسے جئے۔ مصنوعی ذہانت اور مشینی سیکھنے جیسے نظام انہی چِپس کی بنیاد پر پروان چڑھتے ہیں۔ یعنی کل کا انسان ان چِپس کی ہدایت پر عمل کرے گا۔

آخر میں یہ بات طے ہے کہ سیمی کنڈکٹرز کی جنگ، درحقیقت مستقبل کی قیادت کی جنگ ہے۔ آج جسے ہم ایک ٹیکنالوجی سمجھ رہے ہیں، کل وہ دنیا کا سب سے طاقتور ہتھیار ہوگا۔ چین اور امریکہ کی سرد جنگ، تائیوان کا اسٹریٹجک کردار، جاپان و جنوبی کوریا کی صنعتی مہارت اور اب انڈیا کی کوششیں، سب اسی ایک چپ کے گرد گھوم رہی ہیں۔

یہ چپ چھوٹی ضرور ہے، مگر اس میں پوری دنیا کا نظام سمٹ آیا ہے۔ جو اس پر قابو پا لے گا، وہی آنے والی صدی کا حکمران ہوگا اور جو پیچھے رہ گیا، وہ صرف تماشائی بن کر رہ جائے گا۔

یہ وقت ہے کہ ترقی پذیر ممالک بھی جاگیں، سائنس، تحقیق اور تعلیم کو قومی ترجیح بنائیں اور مستقبل کی اس جنگ میں کم از کم اپنی بقا کی ضمانت ضرور حاصل کریں۔ کیونکہ آنے والے وقت میں طاقتور وہی ہوگا جس کے ہاتھ میں ہو، ایک ننھی سی چِپ!

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam