Saf Baandh Lo, Kahi Der Na Ho Jaye
صف باندھ لو، کہیں دیر نہ ہو جائے

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم صرف باتیں کر رہے ہیں؟ صرف زبانی ایمان، صرف دلی محبت، صرف جذباتی نعرے اور جب عمل کا وقت آتا ہے، تو قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں؟ اللہ قرآن میں ہم سے مخاطب ہو کر پوچھتا ہے: "اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟" ایک سوال، مگر ایسا کہ انسان کے اندر گونجنے لگے، اس کی خودی کو جھنجھوڑ دے اور پھر اگلی آیت میں اللہ فرماتا ہے: "اللہ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں"۔ یعنی صرف جھوٹ بولنا ناپسند نہیں، بلکہ وہ سچ بولنا بھی ناپسند ہے جس کے پیچھے عمل نہ ہو۔ یہ اللہ کا وہ خطاب ہے جو محض ملامت نہیں، بلکہ دعوت بھی ہے، فہم بھی اور اصلاح بھی۔
ایمان کا مطلب صرف زبانی کلمہ نہیں، بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے سامنے جھکا دینا ہے اور اگر ایمان کے بعد عمل نہ ہو تو وہ ایمان خالی برتن کی طرح بجتا ہے، شور مچاتا ہے مگر پیاس نہیں بجھاتا۔ ہم اپنی زندگیوں میں دیکھتے ہیں کہ کتنے وعدے ہم اپنے رب سے کرتے ہیں، کتنے عہد ہم رمضان کی راتوں میں، سجدوں میں، دعا میں اور آزمائش میں کرتے ہیں۔ "یا اللہ! اگر تو نے یہ مسئلہ حل کر دیا تو میں "، "یا اللہ! مجھے موقع دے دے، میں بدل جاؤں گا"، "یا اللہ! مجھے معاف کر دے، اب کی بار سچ میں توبہ"، مگر پھر ہم وہی کے وہی۔ زبان کے اقرار کے بعد عمل کی خاموشی۔ کیوں؟ کیونکہ ہمارے دلوں میں ایمان کا نور پورے بدن کو روشن نہیں کرتا۔ ایمان کی روشنی اگر صرف دماغ میں ہو تو وہ دلیل بن جاتی ہے، دل میں ہو تو جذبہ اور عمل میں اتر جائے تو انقلاب۔
سورۃ الصف ہمیں صرف ملامت نہیں کرتی، بلکہ ایک تصور دیتی ہے، ایک دعوت، ایک ہدف اور ایک مشن۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کے راستے میں صف باندھ کر لڑتے ہیں، جیسے کہ سیسہ پلائی دیوار ہوں۔ یہ محض میدانِ جنگ کی بات نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کے دین کے لیے کھڑے ہونے کی بات ہے۔ وہ تعلیم ہو یا معیشت، میڈیا ہو یا سیاست، قلم ہو یا زبان، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو بکھرتے نہیں، ڈولتے نہیں، بلکہ صف باندھ کر اللہ کی راہ میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ رشتے نبھاتے ہیں، وہ قربانی دیتے ہیں، وہ ٹوٹتے ہیں مگر جھکتے نہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ کی رضا کا سفر تنہا نہیں چل سکتا۔ یہ اجتماعی سفر ہے۔ یہ ایک "صف" ہے، جو اللہ کی رضا کے لیے سیسہ پلائی دیوار بناتی ہے۔
اللہ نے ہمیں مثالیں دی ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کی قوم کو دیکھو، وعدے کیے، نشانات دیکھے، سمندر پھٹا، فرعون غرق ہوا، مگر جب قربانی کا وقت آیا تو دل کمزور پڑ گئے۔ حضرت موسیٰؑ کہتے ہیں: "اے میری قوم! تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟" اس آیت میں صرف بنی اسرائیل کی تاریخ نہیں، بلکہ ہماری آج کی تصویر ہے۔ ہم نے بھی نبی کی رسالت کو مانا، قرآن کو پڑھا، سنت کو جانا، پھر بھی ایذا دینے میں ہم پیچھے نہیں۔ ہم زبان سے سچ کے دعوے کرتے ہیں، عمل سے ظلم کو سہتے ہیں، حق کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے چپ رہتے ہیں۔
پھر اللہ حضرت عیسیٰؑ اور ان کے حواریوں کی بات کرتا ہے۔ عیسیٰؑ نے فرمایا: "کون ہے جو اللہ کے لیے میرا مددگار بنے گا؟" تو چند لوگوں نے کہا: "ہم ہیں اللہ کے مددگار"۔ یہ وہ قافلہ تھا جس نے قلتِ تعداد کے باوجود کفر کے نظام کو چیلنج کیا اور اللہ نے انہی تھوڑے سے لوگوں کو غالب کر دیا۔ ایمان، نیت اور قربانی ہو تو مدد اللہ کی آتی ہے اور اللہ کی مدد آ جائے تو پھر دشمن جتنے بھی ہوں، وقت ان کے خلاف چلنے لگتا ہے۔ یہ آیات ہماری امید کا دروازہ کھولتی ہیں، یہ بتاتی ہیں کہ اللہ صرف نتیجہ نہیں دیکھتا، نیت اور کوشش کو دیکھتا ہے۔
مگر اللہ ہمیں خبردار بھی کرتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو بجھا دیں۔ میڈیا، طاقت، پروپیگنڈہ، طنز، ظلم، دجل، سب کچھ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ قرآن کی روشنی، اسلام کا پیغام، محمد ﷺ کی سنت، معاشرے سے مٹا دی جائے۔ مگر اللہ فرماتا ہے: "اللہ اپنے نور کو مکمل کرکے رہے گا، چاہے کافر ناخوش ہوں"۔ یہ وہ وعدہ ہے جس نے صحابہ کے دلوں کو یقین سے بھر دیا، تابعین کو ہلاکتوں میں صبر کی قوت دی، مجاہدین کو تاریخ میں زندہ کر دیا اور ہر دور میں اللہ کے بندوں کو اٹھنے کا حوصلہ دیا۔ جب ہم جان لیتے ہیں کہ اللہ کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ اس کا دین غالب ہوگا، تو ہمیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ہم اس غالب ہونے والے کارواں میں شریک ہوتے ہیں یا غافل ہو کر تماشائی بن جاتے ہیں۔
پھر اللہ ہم سے براہ راست ایک سوال کرتا ہے، جو تجارت کے بہانے میں چھپا ہوا ہے۔ "کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت نہ بتا دوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے؟" کون انسان ایسا ہے جو عذاب سے بچنا نہ چاہے؟ مگر یہ تجارت کیا ہے؟ یہ ایمان ہے، یہ جہاد بالنفس، بالمال اور بالوقت ہے۔ اللہ کے دین کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کرنا، اپنے آرام، اپنی خواہشات، اپنی محبوب چیزوں کو اللہ کی رضا کے لیے دینا۔ اللہ فرماتا ہے: اگر تم یہ کرو، تو میں تمہارے گناہ معاف کر دوں گا، تمہیں جنت میں داخل کروں گا، دنیا میں بھی تمہیں مدد دوں گا، عزت دوں گا، فتح دوں گا، طاقت دوں گا۔ یہ وہ وعدہ ہے جو نہ کسی بینک میں ملتا ہے، نہ کسی حکومت میں، نہ کسی منصوبے میں۔ یہ وعدہ صرف ایمان کے ساتھ جڑا ہے۔
آخر میں اللہ ہمیں فیصلہ کرنے کا موقع دیتا ہے۔ "اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بن جاؤ، جیسے عیسیٰ کے حواریوں نے کہا تھا: ہم اللہ کے مددگار ہیں"۔ یہ آیت اصل میں ہر مومن کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔ اگر ہم واقعی ایمان والے ہیں، تو ہمیں اللہ کے دین کے لیے اٹھنا ہوگا۔ ہم لکھنے والے ہیں تو قلم سے، بولنے والے ہیں تو زبان سے، صاحبِ حیثیت ہیں تو مال سے، وقت والے ہیں تو وقت سے، نوجوان ہیں تو اپنی توانائی سے، ہمیں اللہ کے دین کو غالب لانے کے لیے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ یہ دین صرف جلسوں، سوشل میڈیا پوسٹوں، یا درسوں سے نہیں پھیلے گا، جب تک ہم اپنی ذات کو بدلنے، سنوارنے اور دین کے مشن پر لگانے کے لیے تیار نہ ہوں۔
ہو سکتا ہے ہم ناکام ہو جائیں، ٹھوکر کھائیں، گرا دیے جائیں، تھک جائیں، تنہا ہو جائیں، مگر اگر ہم سچے ہیں، تو اللہ کا وعدہ ہمارے ساتھ ہوگا۔ پھر ایک دن اللہ ہمیں اپنے نور کے ساتھ کھڑا کرے گا، ہمارے گناہ معاف کرے گا اور فرمائے گا: "یہ ہیں میرے مددگار، جنہوں نے دنیا میں میری خاطر قربانی دی، اب میں انہیں اپنی رضا عطا کرتا ہوں"۔
تو آئیے، اب صف باندھ لیں۔
عمل کی، اخلاص کی، قربانی کی، اتحاد کی، صبر کی۔
کیا پتا یہی صف روزِ قیامت ہمیں اللہ کے عرش کے قریب لے جائے۔
کیا معلوم انہی لمحوں کی وفاداری ہمیں جنت کے باغوں میں لے جائے۔
کیا خبر، اللہ ہماری کمزوریوں کو معاف کر دے، صرف اس ایک ارادے پر۔
کہ ہم نے اس کے دین کے لیے صف باندھنے کا عزم کیا تھا۔

