Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Mazdoori Ya Sadqa, Pehle Kya?

Mazdoori Ya Sadqa, Pehle Kya?

مزدوری یا صدقہ، پہلے کیا؟

پاکستان میں حکومتی پالیسیوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ایک عجیب تضاد نظر آتا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے، محنت اور دیانت داری سے ملک کی خدمت کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، کسی محنت کے بغیر سرکاری خزانے سے مالی مدد وصول کر رہے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس محنت کشوں، سرکاری ملازمین، پنشنرز اور مزدوروں کے لیے وسائل کی قلت رہتی ہے، لیکن جو نکمے ہیں، جو زندگی بھر کوئی کام نہیں کرتے، ان کے لیے اربوں روپے کے فلاحی منصوبے باآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔

یہ صورتحال صرف ایک حکومتی غلطی نہیں بلکہ ایک پوری سوچ کی عکاس ہے۔ مزدور، سرکاری ملازم، فوجی، ڈاکٹر، انجینئر، استاد، پولیس اہلکار، حتیٰ کہ وہ تمام افراد جو کسی نہ کسی طریقے سے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، ان کی تنخواہوں میں اضافے کے وقت خزانہ خالی ہوجاتا ہے۔ پنشن کے معاملات آئینی، قانونی اور مالیاتی مسائل میں الجھا دیے جاتے ہیں۔ تنخواہوں اور اجرتوں میں اضافہ مانگنے پر بجٹ خسارے کا بہانہ بنا دیا جاتا ہے۔ لیکن جب بات بینظیر انکم سپورٹ، احساس پروگرام، کھلے دسترخوان، یا دیگر امدادی اسکیموں کی ہو، تو اچانک اربوں روپے دستیاب ہو جاتے ہیں، بلکہ ان میں سالانہ اضافہ بھی ہوتا ہے۔

یہ پالیسی نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ایک خطرناک رجحان کو جنم دے رہی ہے۔ جب معاشرے میں یہ سوچ پروان چڑھے کہ بغیر محنت کے بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے، تو پھر کون تعلیم حاصل کرے گا؟ کون روزگار کے پیچھے دوڑے گا؟ کون ملک کی خدمت کے لیے سرکاری ملازمت اختیار کرے گا؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ کون ان ٹیکسوں کو بھرے گا، جن سے ان فلاحی اسکیموں کو چلایا جا رہا ہے؟

سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ افراطِ زر آسمان کو چھو رہا ہے، اشیائے خور و نوش کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں اور دوسری طرف ملازمین کی تنخواہوں میں سالانہ اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

پنشنرز کا حال اور بھی خراب ہے۔ جو لوگ اپنی پوری زندگی سرکاری یا نجی اداروں میں دیانت داری سے کام کرکے اپنی جوانی لٹا چکے، وہ ریٹائرمنٹ کے بعد معاشی مسائل سے دوچار ہیں۔ ان کی پنشن وقت پر نہیں بڑھتی، کٹوتیاں الگ ہوتی ہیں اور بعض اوقات بیوروکریسی کے پیچیدہ قوانین کی نذر ہو جاتی ہے۔ یہی وہ افراد ہیں جنہوں نے اپنی جوانی ملک کو دی، لیکن بڑھاپے میں ان کے لیے کوئی ریلیف نہیں۔

دوسری طرف، وہ لوگ جو زندگی میں کبھی کسی دفتر، فیکٹری، یا کھیت میں کام کرنے کے عادی نہیں تھے، انہیں حکومت کی جانب سے مستقل مالی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ کچھ تو ایسے ہیں جو جان بوجھ کر محنت مزدوری سے بچتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حکومت امداد دے گی، کھانا ملے گا اور کسی نہ کسی طرح گزر بسر ہو جائے گی۔

اس حکومتی پالیسی کا سب سے نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ یہ کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے اور نکمے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کے شہری محنتی نہ ہوں اور محنت کشوں کو ان کا جائز حق نہ ملے۔

جب کوئی استاد پوری زندگی تعلیم دینے کے بعد ریٹائر ہو کر چند ہزار روپے کی پنشن پر گزر بسر کر رہا ہو اور دوسری طرف کوئی ایسا شخص جو کبھی اسکول بھی نہ گیا ہو، وہ سرکاری امداد کے نام پر آرام دہ زندگی گزار رہا ہو، تو یہ واضح ہے کہ نظام میں کوئی بڑی خرابی ہے۔

یہی اصول فوج، پولیس، ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر شعبوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر ملک کے دفاع کے لیے جوانوں کی قربانیوں کو نظرانداز کیا جائے، اگر انہیں یہ احساس ہو کہ ان کی محنت کا کوئی صلہ نہیں، تو پھر کون سرد راتوں میں سرحدوں پر پہرہ دے گا؟ اگر ایک ڈاکٹر کو اس کی خدمات کا جائز معاوضہ نہ ملے تو وہ کسی دوسرے ملک کا رخ کیوں نہ کرے؟ اگر ایک استاد کو عزت اور معاشی تحفظ نہ ملے تو وہ نئی نسل کو کیسے تعلیم دے گا؟

اس غیر منصفانہ پالیسی کو ختم کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ امدادی پروگرامز کو صرف مستحق افراد تک محدود رکھے اور انہیں ایک مستقل ذریعہ معاش بنانے کے بجائے، لوگوں کو محنت پر آمادہ کرے۔

محنت کشوں کو ترجیح دی جائے۔ سرکاری ملازمین، مزدور اور دیگر کام کرنے والے افراد کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ ان کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے اور پنشنرز کے مسائل حل کیے جائیں۔

فلاحی پروگراموں کی اصلاح کی جائے۔ امدادی پروگراموں کا دائرہ محدود کرکے انہیں صرف حقیقی ضرورت مندوں تک پہنچایا جائے اور اس میں میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔

محنت کو فروغ دیا جائے۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں، ان کے لیے سکل ڈیولپمنٹ پروگرام شروع کیے جائیں، تاکہ وہ حکومتی امداد پر انحصار کرنے کے بجائے خود روزگار حاصل کریں۔

تعلیم اور ہنر کی قدر کی جائے۔ ایک ایسا ماحول بنایا جائے جہاں تعلیم حاصل کرنا اور ہنر سیکھنا زیادہ فائدہ مند ہو، نہ کہ صرف امداد لینا۔

اگر ہم نے اپنی پالیسیوں کو درست نہ کیا اور نکمے پن کو انعام اور محنت کو سزا دینے کا سلسلہ جاری رکھا، تو پھر وہ وقت زیادہ دور نہیں جب کوئی بھی کام کرنے کو تیار نہیں ہوگا اور ملک حقیقی ترقی کے بجائے امداد پر چلنے والی معیشت کا شکار ہو جائے گا۔

مزدوری اور محنت، کسی بھی ملک کی ترقی کا بنیادی ستون ہیں۔ اگر ہم نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا اور نکمے لوگوں کی سرپرستی جاری رکھی، تو آنے والی نسلیں کام کرنے کے بجائے صرف ہاتھ پھیلانے میں مہارت حاصل کریں گی۔ وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور عوام دونوں اس سوچ کو بدلیں، تاکہ ایک محنتی، خوددار اور خودمختار پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari